دہلی فتح کرنا کمال نہیں ، دلوں کو فتح کرنا کمال ہے
(Mohd.Husain Sahil, India)
مہاتما گاندھی افریقہ سے
ہندوستان میں واپس لوٹ آئے اور تحریک آزادی میں شریک ہوگئے ۔ اس بات کو اس
سال ۱۰۰سال پورے ہورہے ہیں۔ہندوستان کی سیاست میں جس طرح مہاتما گاندھی کی
شمولیت ہوئی ، اس کا جس طرح یہ ۱۰۰واں سال ہے ، اسی طرح ہندوستان کے مرکزی
اقتدار کی جدوجہد میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی ، اس لحاظ
سے گاندھی کے نظریات کا خاتمہ ہونے کا آغاز ہوا ، اس کا بھی یہ پہلا سال ہے،
ایسا کہا جاسکتا ہے۔مگر ہمارے وزیر اعظم نے تمام لوگوں کو جو قابل قبول ہو
ایسی ایک تحریک گاندھی نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے گاندھی جی کے نظریہ کو
باقی رکھا ایسا کہہ سکتے ہیں۔وہ تحریک یعنی ملک بھر میں صاف صفائی کی تحریک۔
کانگریس میں جن لیڈران کے نام کسی پروجیکٹ ، اسکیم یا پالیسی کی وجہ سے
زندہ رہیں گے، ایسے تمام پروجیکٹ کے نام بدل کر ان کی کامیابیوں کو تاریخ
کے حوالے کرنے کی پالیسی موجودہ سرکار کی ہے۔دو ہی لفظوں میں اگر کہنا ہو
یا وزیر اعظم کی زبان میں کہنا ہوتو ’کانگریس سے پاک ہندوستان‘ایسی بی جے
پی کی کھلی پالیسی ہے۔بھلے صاف صفائی کے توسق سے ہی کیوں نہ ہو، مگر گاندھی
جی کی یاد کو باقی رکھنے کی ضرورت بی جے پی کو کیوں پیش آئی؟اس سوال کا
جواب بھی ہمیں تلاش کرنا چاہیے۔اس کا اگر ہم مزید مطالعہ کریں تو ہمیں
اندازہ ہوگا کہ ’کانگریس سے پاک ہندوستان‘ اس پالیسی کی طرح پنڈت نہرو یا
اندرا گاندھی کی یادوں کو بھولنے میں کوئی مضحکہ نہیں، مگر مہاتما گاندھی
کا وجود کانگریس پارٹی سے بھی زیادہ مقبول اور محترم ہے، اس کا بی جے پی کو
پورا یقین ہو اسی لیے انھوں نے بھلے صاف صفائی کی تحریک ہی کیوں نہ ہو،
انھوں نے اسے زندہ رکھنے کی کوشش کی ، اس لیے سنگھ پریوار کا اور وزیر اعظم
نریندر مودی کا شکریہ ہی ادا کرنا چاہیے۔
آر ایس ایس کا اپنا ایک ٹائم ٹیبل ہوتا ہے ، اس ٹائم ٹیبل کے مطابق آر ایس
ایس کے لوگ ایک جگہ جمع ہوکر ایک دوسرے سے مکالمہ یابات چیت (؟)کرتے
ہیں۔میں نے بات چیت کے بعد سوالیہ نشان اس لیے لگایا کہ جن جن لوگوں نے آر
ایس ایس کی شاخ میں داخلہ لے کر آر ایس ایس کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کیا ،
ان کی یادوں کو اگر ہم پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آر ایس ایس کی شاخ پر
کوئی مکالمہ یا بات چیت نہیں ہوتی ۔ اسی معنی میں انھوں نے اپنی یادوں کو
لکھ کر رکھا ہے۔ آر ایس ایس کی شاخوں پر اس شاخ کا انچارج آر ایس ایس کے
کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتا ہے اور وہاں پر موجود تمام آر ایس ایس کے
ممبران اس کی تائید کرتے ہیں اور اس رپورٹ کو اپنے دل و دماغ میں بسا لیتے
ہیں،ایسا مانا جاتا ہے مگر اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔اگر کوئی بچہ
اپنی ماں سے یہ سوال کرتا ہے کہقصائی کے لڑکے کے ساتھ دوستی کیوں نہ کروں،
تو ماں کہتی ہے کہ قصائی لوگ کافی بے رحم ہوتے ہیں ۔ وہ گائے کا ذبح کرتے
ہیں۔ اسی جواب میں وہ بچہ مطمئن ہوجاتا ہے کیونکہ اپنے سوال کا جواب سمجھنے
کیلئے اس کی عمر نہیں ہوتی ، اسلئے ماں جو کہہ رہی ہے وہی سچ ہے اور وہ بچہ
ماں کی ہدایت پر ہی عمل کرتا ہے۔اسی طرح آر ایس ایس کی شاخ پر کوئی اس طرح
کا سوال کرتا ہے تو اس شاخ کا انچارج بھی اسی طرح محبت سے اسے سمجھاتا ہے
اور اس شاخ پر موجود لوگ مطمئن ہوجاتے ہیں ایسا کہا جاتا ہے۔مگر ساورکر
گائے کو جانور کیوں تسلیم کرتے ہیں، اگر کوئی ایسا ذیلی سوال پوچھتا ہے تو
اس کو کچھ عرصہ کے بعد سنگھ چھوڑ کر جاتا پڑتا ہے۔ایسی علی الصبح ہونے والی
سنگھ کی میٹنگ کو پربھات سبھا کہا جاتا ہے۔
کچھ اور گائے کی وجہ سے مطمیئن اور ہونے والے خوش ہونے والے بچوں کو عظیم
شخصیات کی حیات اور کارناموں کی معلومات دی جاتی ہے۔ایسے نامور شخصیات کی
فہرست میں شامل لیڈران کوعلی الصبح یاد کیے جانے والے قومی ہیرو مانے جاتے
ہیں۔ایمرجنسی کے بعد جب تک بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار پر قابض ہونے تک اس
علی الصبح یاد کیے جانے والے ہیرو کی فہرست میں مہاتما گاندھی کا نام شامل
نہیں تھا۔مگر اس کے بعد ان کا نام بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ایسا کہا
جاتا ہے۔اس کامطلب یہی ہوا کہ آر ایس ایس کے قیام کے بعد کم و بیش ۵۰سال تک
آر ایس ایس مہاتما گاندھی کو علی الصبح یاد کیے جانے والے ہیرو تسلیم نہیں
کرتے تھے۔اُس وقت عوام سے یہ کہا جاتا تھا کہ آر ایس ایس بھی لوگوں کی ایک
تنظیم ہے، لوگ سوچ و فکر کی بنیاد پر بدل جاتے ہیں ، اس پر آپ کا یقین ہے
یا نہیں؟ علی الصبح یاد کیے جانے والے قومی ہیرو کی فہرست میں مہاتما
گاندھی کا نام شامل کیاگیا ہے ایسا بطور مثال پیش کیا جاتا تھا۔بھلے ۵۰ سال
کا عرصہ کیوں نہ گزرا ہو،مگر آر ایس ایس کو مہاتما گاندھی کے نام کیزعلی
الصبح یاد کیے جانے والے قومی ہیرو کی فہرست شامل کرنے کی ضرورت محسوس
ہوئی۔
مجھے مہاتما گاندھی اور سنگھ پریوار میں کچھ مماثلت ملتی ہے ایسا محسوس
ہوتا ہے۔ مہاتما گاندھی ایک سیاسی لیڈر ہیں ایسا گاندھی کے نظریات کی پیروی
کرنے والوں کو کبھی محسوس نہیں ہوتا۔وہ ایک ’مہاپرُش ‘ یا سنت ہے ایسی سوچ
ان کیذہن و دل میں ہوتی ہے۔فرق صرف اتنا کہ سنت اور اﷲ والوں نے عام لوگوں
کے دلوں میں راہ نجات کیسی اختیار کی جائے ، یہ تعلیم ان کے دل و دماغ میں
اُتار دی ہے۔، اور مہاتما گاندھی نے اس ملک کو آزادی دلانے کا حق ہر شہری
کو ہے ، یہ جذبہ عام آدمی کے دلوں میں بیدا ر کرنے کا کام کیا ۔پرچم کشائی
کے وقت’دے دی تم نے آزادی کھڈگ بنا ڈھال،سامبرمتی کے سنت تُونے کردیا
کمال‘‘یہ ریکارڈ نہ سنی ہو ایسا کوئی بھی ہندوستانی نہیں ہوگا ، ایسا میرا
اندازہ ہے۔سنت اور درویش کی تعلیمات یہ ہماری موروثی تہذیب ہے، اس لحاظ سے
مہاتما گاندھی ہمارے تہذیب و تمد ن کی شاندار تاریخ میں ایک عظیم شخصیت ہے
ایسا مانا جاتا ہے۔
آر ایس ایس نے بھی ہمیشہ یہی کہا ہے کہ ہماری تنظیم سیاسی نہیں ہے۔ وزیر
اعظم نریندر مودی نے اپنے اقتدار کی باگ ڈورسنبھالتے ہوئے سیاست میں سنگھ
پریوار کی عظمت کو بلند کرنے کے ارادے سے یہ کہاتھا کہ ’سنگھ میری ماں
ہے‘۔پھر یہ سوچنے کی بات ہے کہ ماں اور بیٹے کی درمیان سیاست حائل ہوتی ہے
کیا؟یا بالکل نہیں ہوتی۔ہم اپنے ملک میں موروثی تہذیب کی قدر کرنے والے اور
اس کی اہمیت کو سمجھنے والے لوگ ہیں اوریہی وراثت پوری دنیا کے لیے ایک بہت
بڑی دین ہے ۔ اس وراثت کا تحفظ کرنا ہم سب کی اہم ترین اخلاقی ذمہ داری ہے
ایسا سنگھ پریوار ہمیشہ کہتے رہا ہے۔مگر اس طرح کی ماں اپنے محبت میں اندھی
ہونے والی ماں نہیں ہے، شیواجی مہاراج کی ماں کا رول شیواجی کے کردار سازی
اور شخصیت سازی میں تھا ،وہی رول سنگھ پریوار کا بی جے پی پارٹی میں ہے، اس
بات کو ہمیں مد نظر رکھنا چاہیے اس کامطلب سنگھ پریوار بی جے پی کو ماں کا
درجہ دیتی ہے اور تحریک آزادی میں مہاتما گاندھی کا بھی ایساہی رول تھا ،
ایسا جنگ آزادی کے سپاہیوں کو محسوس ہوتا ہے۔
ہمیں جو بھی فیصلہ صادر کرنا ہوتا ہے اس کی تحریری جدو جہد کرنے کے بجائے
لوگوں کے دل و دماغ کو متاثر کرے ایسی زبانی ہدایت کرنا زیادہ اہم ہوتا ہے،
ایسا سنگھ پریوار کو محسوس ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے ملک کی وراثت یہ(وسطوری
کہانی) زبانی روایا ت پر حامل ہے ۔اس لحاظ سے سے سنگھ پریوا ر بھی اس دور
کی ایک (وسطوری کہانی)زبانی کہانی ہے ایسا لگتا ہے۔(وسطوری کہانی) زبانی
کہانی یہ مہاتما گاندھی اور سنگھ پریوار کے درمیان ایک اہم مماثلت
ہے۔(وسطوری کہانی)زبانی کہانی یہ ہمیشہ دو دھاری تلوا ر کے مانند ہوتی ہے،
زبانی کہانی کی جو تلوار ہوتی ہے اس کی ایک بازو دھار دار نہیں ہوتی ہے، اس
کا استعمال اپنا غرور یا دبدبہ قائم رکھنے کیلئے کیا جاتا ہے۔مہاتما گاندھی
بھی سنگھ پریوارکیلئے اس تلوار کی ایک ایسی ہی بازو ہے جس کی دھار تیز نہیں
ہے۔پھر اس(وسطوری کہانی) زبانی کہانی کی دوسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ مستقبل
میں چاہیے جو ہنگامہ برپا کرسکتے ہیں۔ بابری مسجد اس کی تازہ مثال ہے۔
(وسطوری کہانی)زبانی کہانی جیسے تلوار کی کارگر دھار یعنی سنگھ پریوارہے
ایسا مجھے محسوس ہوتا ہے۔میں صرف یہی کہنا چاہتا ہوں کہ زبانی کہانی والے
اس تلوار کے پاس کوئی تہذیبی رول نہ ہوتے ہوئے وہ مستقبل کی سیاسی راہ
ہموار کرنے والی تنطیم ہے۔سنگھ پریوار نے بی جے پی کی مدد سے دہلی تو فتح
کرلی ،مگر وہ ابھی تک ہندوستانی عوام کے دلوں کو فتح کرنے میں پوری طرح سے
ناکام ہے۔
|
|