”نادرا“ دفاتر میں بد انتظامی اور بے ضابطگیاں....عوام رُل گئے
(عابد محمود عزام, karachi)
قومی شناختی کارڈ ہر پاکستانی
شہری کے لیے 18 سال کی عمر کے بعد بنوانا لازمی ہے، کمپیوٹرائزڈ قومی
شناختی کارڈ پاکستانی شہری کی حیثیت سے پہچان کے لیے ضروری ہے۔ قومی شناختی
کارڈ پاکستان کے ایک اہم ادارے ”نادرا“ کے زیر انتظام ہے، جس کا آغاز 2000
میں کیا گیا۔ اس ادارے کا کام عوام کی رجسٹریشن کرنا اور ان کو قومی شناختی
کارڈ جاری کرنا ہے۔ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC) ایک جدید
کمپیوٹرائزڈ نظام سے مربوط کارڈ ہے، جو ہر پاکستانی شہری کی معلومات کو
جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک ابتدائی قدم ہے۔ جس کے تحت 2012
تک 89 5. ملین لوگوں کو یہ کارڈ جاری کیے جا چکے تھے۔ نادرا کے رجسٹریشن
سینٹرز کی تعداد 2011 میں تقریباً تین سو تھی، جو 2014 میں بڑھ کر 560
ہوگئی تھی۔ پاکستان میں نادرا کے قیام سے قبل شناختی کارڈ مینوئل طریقے سے
بنایا جاتا تھا اور اس کا دفتری اندراج بھی رجسٹروں میں کیا جاتا تھا، جس
سے با آسانی جعل سازی کرلی جاتی تھی۔ ایجنٹ قانونی وغیرقانونی دستاویزات پر
متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے انتہائی آسانی سے شناختی کارڈ بنوا لیا کرتے
تھے اور ایک ایک شخص کے مختلف ناموں پر متعدد شناختی کارڈ بنوانے کے کیسزز
بھی سامنے آتے رہے ہیں، جس سے جائیداد، بیرون ملک سفر اور کاروباری معاملات
میں ہیرا پھیری کرنا آسان تھا۔ شناختی کارڈ مینوئل سسٹم دور میں لاکھوں
تارکین وطن کے بھی شناختی کارڈ بنوائے گئے۔ وفاقی حکومت نے ان تمام خرابیوں
کو ختم کرنے کے لیے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنانے کے لیے ”نادرا“ ادارہ
قائم کیا، لیکن نادرا کے قائم ہونے کے باوجود شناختی کارڈ سے متعلق خرابیوں
کا قلع قمع نہیں کیا جاسکا۔ تاحال رشوت کے ذریعے ایجنٹس اور نادرا اہلکاروں
کی ملی بھگت سے نامکمل اور جعلی دستاویز کی بنیاد پر نہ صرف پاکستانیوں کے
شناختی کارڈز بنانے کا سلسلہ جاری ہے، بلکہ رشوت اور نادرا اہلکاروں کے
تعاون سے غیرملکیوں کی بڑی تعداد بھی غیرقانونی طور پر پاکستانی شناختی
کارڈ بنوا چکی ہے، اس حوالے سے کیسز وقتاً فوقتاً میڈیا پر آتے بھی رہتے
ہیں۔ ذرائع کے مطابق نہ صرف کراچی میں، بلکہ ملک بھر میں بھی 5 سے 10 ہزار
روپے رشوت لے کر ایسے جعلی شناختی کارڈز بھی بنائے جاتے ہیں، جن کا سرکاری
کاغذات میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔
ذرائع کے مطابق نادرا دفاتر میں اکثر و بیشتر نچلا عملہ رشوت خوری کے لیے
عام شہریوں کو تنگ کرتا ہے اور مکمل دستاویزات کی موجودگی کے باوجود انہیں
تارکین وطن قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اعلیٰ حکام تک اگر شکایات پہنچ
جائیں تو مسائل حل ہوجاتے ہیں، بصورت دیگر شہری مہینوں دفاتر کے چکر لگاتے
رہتے ہیں اور ملکی شہریت منوانے میں پاپڑ بیلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ملک بھر میں بالعموم اور کراچی میں خصوصی طور پر نادرا کے
متعدد دفاتر میں دیگر اداروں کی طرح ایجنٹس سرگرم ہوتے ہیں، جو رشوت کے عوض
تارکین وطن کے بھی شناختی کارڈ با آسانی بنوا دیتے ہیں۔ نادرا ویجلینس ٹیم
کی شناختی کارڈ دفاتر کی نگرانی کے باعث ایجنٹ میزکرسی لگا کر دفاتر کے
باہر نہیں بیٹھتے، تاہم خفیہ طور پر نادرا رجسٹریشن سینٹرز کے اردگرد
منڈلاتے رہتے ہیں، یہ ایجنٹس سیاسی تنظیموں کی سپورٹ پر سینٹرز پر سرگرم
عمل ہیں۔ رشوت دے کر ان ایجنٹس سے کسی بھی قسم کا جعلی کام کروایا جا سکتا
ہے۔ ان میں سے اکثر ایجنٹس ان غیرقانونی دستاویزات پر بھی شناختی کارڈ بنوا
لیتے ہیں، جن کو دیگر سینٹرز بنانے سے معذوری کا اظہار کر دیتے ہیں۔ اس
حوالے سے ہم نے ”نادرا“ کے مختلف دفاتر کا سروے کیا۔ سروے کے دوران عوام نے
نادرا عملے سے متعلق شکایات کے انبار لگا دیے۔ حبیب بینک پر قائم نادرا
سینٹر میں شناختی کارڈ بنوانے کے لیے قطار میں کھڑے ایک شہری کا کہنا تھا
کہ بہت سے نادرا اہلکاروں نے چونکہ ایجنٹس سے رشوت میں اپنا حصہ طے کیا
ہوتا ہے، اس لیے وہ عوام کو تنگ کرتے ہیں، تاکہ عوام پریشانی سے بچنے کے
لیے زیادہ پیسے دے کر ایجنٹس کا سہارا لیں اور اس میں سے ان اہلکاروں کو
بھی اپنا حصہ مل سکے۔ شہری کا کہنا تھا کہ نادرا دفاتر پر شہریوں کو بلاوجہ
تنگ کرنا اور شناختی کارڈ کے لیے مطلوبہ دستاویز مکمل ہونے کے باوجود کوئی
اعتراض لگا دینے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے ، تاکہ عوام پریشانی سے بچنے کے
لیے رشوت کے عوض ایجنٹس کا تعاون حاصل کریں۔ اسی رشوت کی آمدنی کو حاصل
کرنے کے لیے بلاوجہ عوام کو گھنٹوں گھنٹوں قطاروں میں کھڑا کر کے ان کی عزت
مجروح کی جاتی ہے۔جبکہ قطار میں کھڑے ایک شہری نے بتایا کہ ایجنٹس بار بار
دفتر کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ شناختی کارڈ اور برتھ سرٹیفکیٹ وغیرہ بنوانے
کے لیے مطلوبہ دستاویز میں کمی اور دیگر قانونی رکاوٹوں کی صورت میں رشوت
لے کر کام کروا دیتے ہیں اور ایجنٹس دو سے تین ہزار روپے لے کر غیرقانونی
شناختی کارڈ بھی ایک ہفتے میں بنوا دیتے ہیں، اس رشوت میں نادرا اہلکاروں
کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ سروے کے دوران ایک شہری نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ
نادرا کا عملہ نیٹ ورکنگ، کمپیوٹر کی خرابی اور لائٹ جانے کا بہانہ بنا کر
کئی کئی دنوں تک کام روک دیتا ہے اور کبھی شہریوں سے غیر ضروری دستاویز طلب
کی جاتیں ہیں، تاکہ شہری تنگ آکر ایجنٹس سے رجوع کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
ایک شہری نے یہ بھی بتایا کہ لوگ اپنے کام کے لیے نادرا کے دفتر میں نماز
فجر کے فوراً بعد جبکہ بعض تو نماز فجر سے بھی پہلے آ کر قطار میں کھڑے
ہوجاتے ہیں، لیکن نادرا کا عملہ بے فکری سے تقریباً 10 بجے دفتر پہنچتا ہے،
اس کے بعد ناشتہ کرتا ہے اور پھر 12 بجے دوپہر ہی کو ٹوکن دینا بند کر دیتا
ہے، جس سے نہ صرف عوام کو کافی زیادہ تکلیف کا سامنا ہے، بلکہ اس سے نادرا
عملے کی غیر ذمے داری بھی ظاہر ہوتی ہے۔
ذرائع کے مطابق کراچی میں نادرا کے متعدد دفاتر کا عملہ عدم تحفظ کے باعث
سیاسی و جرائم پیشہ عناصر کی وجہ سے بھی کافی پریشانی کا سامنا ہے۔ اسی لیے
گزشتہ سال نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی صوبائی انتظامیہ نے
سیاسی و لسانی جماعتوں اور کالعدم تنظیم کی جانب سے تارکین وطن کے شناختی
کارڈ بنوانے کے دباؤ پر صفورا گوٹھ پر قائم نادرا کا دفتر بند کر دیا تھا۔
کراچی میں نادرا کے دیگر دفاتر کے عملے کو بھی عدم تحفظ کے باعث سیاسی و
جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے کئی خطرات کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق سیاسی
ولسانی اور کالعدم تنظیموں کے کارکن اور جرائم پیشہ افراد کئی ماہ سے
نامکمل دستاویزات پر شناختی کارڈ بنوانے آتے اور نادرا کے ملازمین کو
دھمکاکر جعلی شناختی کارڈ کا اجرا کروا لیتے تھے۔ صفورا گوٹھ میں نادرا
رجسٹریشن سینٹر اندر گلی میں یونین کونسل کے دفتر میں قائم ہونے کی وجہ سے
غیر محفوظ تھا، جرائم پیشہ افراد عموماً اس سینٹر کے باہر کھڑے رہتے تھے
اور جو افراد دستاویزات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے شناختی کارڈ حاصل نہیں
کرپاتے تھے، ان کے غیرقانونی معاملات لے کر نادرا آفس میں زبردستی جعلی
شناختی کارڈ بنوا لیا کرتے تھے۔ عموماً غنڈے ایجنٹ شناختی کارڈ پر غلط پتے،
تاریخ پیدائش اور دیگر معاملات لے کر آتے تھے، جن کا دستاویزی ثبوت نہ ہوتا
تھا۔ یہ ایجنٹ فی کیس 25 ہزار روپے وصول کرتے تھے اور نادرا ملازمین کو ڈرا
دھمکا کر شناختی کارڈ جاری کرا لیا کرتے تھے، ان ایجنٹوں کو سیاسی اور
لسانی جماعتوں کی سرپرستی حاصل تھی، جو تارکین وطن افغانیوں، بنگالیوں اور
دیگر افراد کے شناختی کارڈ بنوانے کے لیے دباو ¿ ڈالتے تھے۔ مسلح غنڈوں کا
گروہ نادرا سینٹر پر دھاوا بول کر عملے کو یرغمال بنا کر گن پوائنٹ پر جعلی
شناختی کارڈ جاری کراتا تھا۔ نادرا عملے کا کہنا تھا کہ مسلح افراد کی غنڈہ
گردی عرصے سے جاری تھی، نادرا کے اعلیٰ حکام کو اس صورتحال سے آگاہ کیا گیا
تھا، تاہم سندھ حکومت ملازمین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ مسلح غنڈے
جب تارکین وطن کے شناختی کارڈ کے اجرا کے لیے دھمکیاں دینے لگے تو نادرا کے
صوبائی حکام کو بالآخر یہ دفتر بند کرنا پڑا۔ اس سینٹر سے فری کیٹگری سے لے
کر300 روپے ارجنٹ فیس لے کر شناختی کارڈ کا اجرا ہوتا تھا اور اطراف کی
آبادیوں کے شہری یہاں سے کم فیس میں شناختی کارڈ بنوا لیا کرتے تھے، جبکہ
صفورا گوٹھ پر قائم ایگزیکٹو سینٹر پر 1500 فیس وصول کرکے شناختی کارڈ جاری
کیا جاتا تھا۔ واضح رہے اس سے قبل مسلح غنڈوں نے کیماڑی کے نادرا دفتر میں
جعلی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ملازمین پر تشدد کیا تھا، جس پر نادرا
کیماڑی کا دفتر دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا تھا۔
دوسری جانب نادرا دفاتر میں بہت زیادہ رش کی وجہ سے بھی عوام کو کافی
مشکلات کا سامنا ہے۔ روزنامہ اسلام کی جانب سے نادرا کے دفاتر کے سروے کے
وقت کئی لوگوں سے بات چیت کے دوران عوام نے نادرا کے عملے سے کافی بیزاری
کا اظہار کیا۔ بلدیہ سینٹر میں شناختی کارڈ بنوانے کے لیے آئے ہوئے ایک شخص
کا کہنا تھا کہ مسلسل تین ماہ سے شناختی کارڈ لینے کے لیے چکر لگا رہا ہوں،
ہر بار شناختی کارڈ لینے کے لیے نئی تاریخ دے دی جاتی ہے، حالانکہ فارم جمع
کرواتے وقت نادرا انتظامیہ کی جانب سے صرف ایک ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ اسی
طرح شناختی کارڈ کے حصول کے لیے قطار میں لگے ہوئے ایک دوسرے شہری نے بتایا
کہ قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے گزشتہ ساڑھے تین ماہ سے خواری برداشت
کر رہے ہیں، کئی بار پانچ پانچ گھنٹے قطاروں میں لگ کر شناختی کارڈ حاصل
کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن کہہ دیا جاتا ہے کہ ابھی آپ کا شناختی کارڈ
نہیں بنا، مزید کچھ دن انتظار کریں۔ جبکہ ایک شہری نے نادرا عملے پر اعتراض
کرتے ہوئے کہا کہ عام شہری گھنٹوں گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں، جبکہ
نادرا اہلکاروں کی واقفیت والے لوگ قطار میں کھڑے ہونے کی بجائے اندر جا کر
اپنا کام کروا لیتے ہیں، جو عام شہریوں کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔ جبکہ
شہریوں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا تھا کہ شناختی کارڈ کا صرف فارم حاصل کرنے
کے لیے ہمیں کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، نادرا کا عملہ
ہمیں قطاروں میں کھڑا کر کے خود کبھی خوش گپیوں میں مشغول ہوجاتا ہے اور
کبھی کمپیوٹر کی خرابی کا بہانہ بنایا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو ہزاروں
کی تعداد میں شہریوں کے لیے صرف ایک اہلکار ہی دستیاب ہوتا ہے اور وہ بھی
قطار میں کھڑے شہریوں سے زیادہ ایجنٹس کے ذریعے ڈائریکٹ اندر جانے والے
افراد پر توجہ دے رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا نادرا دفاتر میں عملے کی تعداد بڑھائی
جانی چاہیے، تاکہ شہریوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
سروے کے دوران نادرا دفاتر میں رش کے زیادہ ہونے کے حوالے سے نادرا کے
اہلکاروں کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں چونکہ موبائل فونز کی سموں کی
بائیومیٹرک تصدیق کی وجہ سے دباؤ بڑھ گیا ہے اور نادرا کے مراکز پر
رجسٹریشن کا بوجھ تین گنا ہوگیا ہے۔ عوام کو اس لیے نادرا کے مراکز پر
پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سمز کی تصدیق کے لیے شناختی کارڈ کار
آمد ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر سمز کی تصدیق نہیں ہوسکتی، چونکہ بہت سے
لوگوں کے شناختی کارڈ کی مقررہ معیاد پوری ہوچکی اور بہت سے لوگوں کے
شناختی کارڈ میں مزید کچھ فنی خرابیاں بھی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی
سمز کی تصدیق نہیں ہوپاتی اور سمز ہولڈر کے انگوٹھے کے نشان میں مماثلت
نہیں ہوتی تو ان کو نئے شناختی کارڈ کے لیے درخواست دینے کے لیے کہا جاتا
ہے، جس کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد نادرا کے دفاتر میں اپنے شناختی کارڈ
بنوانے کے لیے آتی ہے، جبکہ حالات کے پیش نظر شناختی کارڈ بنوانے والے
افراد کا پہلے سے ہی کافی زیادہ رش ہے۔ جبکہ دوسری جانب اسکولوں میں بچوں
کی داخلے کے لیے برتھ سرٹیفکیٹ اور فارم ب بھی کمپیوٹرائزڈ ضروری قرار دیے
گئے ہیں، جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں لوگ نادرا دفاتر کا رخ کر رہے
ہیں، جس کی وجہ سے بھی رش میں اضافہ ہو رہا۔ واضح رہے کہ پورے ملک کے نادرا
دفاتر میں بدانتظامی و بے ضابطگیاں عروج پر ہیں۔ ملک بھر میں بعض
نادرادفاتر میں عملے نے رشوت کے عوض ہزاروں کی تعداد میں شناختی کارڈ جاری
کیے ہیں، لیکن نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کی جانب سے
ایسے تمام افراد جن کے قومی شناختی کارڈ اور پھر اس بنیاد پر پاسپورٹ بنے
ہیں، لیکن نادار کے پاس ان افراد کا کسی بھی قسم کا خاندانی ریکارڈ(فیملی
ٹری) نہیں ہے، ان کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کا سلسلہ شروع کر
دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی نادرا نے
صوبے میں قواعدو ضوابط کے برعکس بننے والے 45 ہزار قومی شناختی کارڈ بلاک
کیے گئے ہیں۔ نادرا کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق بلاک کیے گئے شناختی
کارڈوں میں سے اکثر شناختی کارڈ جعل سازی کے ذریعے افغان مہاجرین اور دیگر
غیرملکیوں کوجاری کیے گئے تھے۔ جن لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کیے گئے ہیں،
نادرا کے ڈیٹا بیس میں ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ایف آئی اے کے
ڈپٹی ڈائریکٹر فواد احمد کے مطابق ”بلوچستان میں سرکاری اہلکاروں کا ایک
مخصوص گروہ منظم انداز میں افغان مہاجرین اور دیگر غیر ملکیوں کو بھاری
رقوم کے عوض قومی شناختی کارڈ بنوا کر دیتا رہا ہے۔ اس گروہ کے کئی ملزم ہم
گرفتار کر چکے ہیں۔ یہ اہلکار ہزاروں لوگوں کو جعل سازی کے ذریعے بلوچستان
سے جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا کر دے چکے ہیں۔ جبکہ گزشتہ ماہ خیبر
پی کے میں جعلی بنوائے گئے 72 ہزار قومی شناختی کارڈ بلاک کیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ریکارڈ کے بغیر شناختی کارڈز بنانے پر نادرا کے 40 اہلکار
معطل کیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے نے نادرا کے 3 اہلکاروں کو تحویل میں لیا، جو
بھاری رقوم لے کر افغانیوں کے لیے شناختی کارڈز بناتے تھے۔ |
|