کھلتے راز (آخری قسط)
(Shah Faisal Naeem, Lahore)
مجھے انسان بُرے نہیں لگتے اُن
کی بُری عادات بُری لگتی ہیں۔ میرے ماموں سگریٹ کے بہت شوقین ہیں اور مجھے
سگریٹ سے الرجی ہے میں نےایک دن انہیں کہا:
"ماموں! آپ کو کیا ملتا ہے دھواں پھیلا کر؟ آپ کو پتا بھی ہے کہ یہ صحت کے
لیے مضر ہے مگرآپ پھر بھی اسے چھوڑتے نہیں"۔
کہنے لگے:
"ہاں فائدہ تو کچھ نہیں ہوتا ،پیسے الگ ضائع ہوتے ہیں، یار! یوں سمجھ لو کہ
سگریٹ پینے کی عادت پڑ گئی ہے جب تک سگریٹ نا ملے ایسے لگتا ہے کہ پتا نہیں
کتنی اہم چیز کھو گئی ہے ۔ اور کچھ ملےنا ملےسگریٹ ضرور ملنا چاہیے۔ جب تک
سگریٹ نا پی لیں کھانا ہضم نہیں ہوتا"۔
یہ ماموں کی عادت تھی اور ہماری عاد ت تھی مسجد جانا۔ مجھے کچھ پتا نہیں
تھا کہ مسجد جانے سے ثوا ب ملتا ہے ، گناہ ہوتا ہے، نیکیاں بڑھتی ہیں،
درجات بلند ہوتے ہیں یا انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتاہے۔
اور نا ہی میں اس لالچ کےسبب مسجد جاتا تھا میں تو عادت کا مارا انسان تھا
جسے ایسے لگتا تھا کہ نماز نا پڑھنے سے میرا کچھ کھو گیا ہے اور جب میں
نماز پڑھ لوں گا تو مجھے وہ کھوئی چیز واپس مل جائے گی۔
تب کسی شخص کو پرکھنے کا میرا طریقہ بڑا جدا سا تھا، میں نے لوگوں کےلیے
الگ الگ پیمانے بنا رکھے تھے۔ جو مسجد میں زیادہ آتا ، وہاں زیادہ وقت
گزارتا چاہےوہ مسجد میں بیٹھا گپیں ہانکتا رہتا یا سوجاتا۔ وہ کچھ بھی کرتا
مگر مسجد میں زیادہ وقت گزارتا وہ میرےنزدیک سب سے اچھا بندہ اور پکا
مسلمان ہوتا ۔ اس طرح میں بھی پوری تگ و دو کرتا کہ میں بھی اچھا بندہ بنوں
اور پکا مسلمان بھی۔ میں بھی زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گزارا کروں۔ اس
لیے میں اذان سے پہلےمسجد چلا جاتا اور نماز ہو جانے کے کافی دیر بعد آتا ۔
ماں جی الگ پوچھتے:
"پتر جی نماز تو کب کی ہوگئی ہےآپ اتنی دیر کہاں تھے"؟
مگر میں ماں جی کو نہیں بتاتا تھا کہ میں آجکل اچھا بندہ بننے کوشش کر رہا
ہوں۔ یہ مشق کافی دیر چلتی رہی پتانہیں میں اچھا بندہ بنا یا نہیں البتہ
میں نے یہاں اللہ سے لڑائی کر لی۔
وہ بندے جنہیں مسجد آتے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئےتھے اُن کی دعائیں
مقبول ہوتیں اور ہم جو برسوں سے اُسے پوجتے آرہے تھے ہماری جلدی سنوائی ہی
نہیں ہوتی تھی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ خدا بھی بعد میں آنے والوں کو پہلے دیتا
ہےاورہم جو ہر پہر اُ س کی چوکھٹ پہ پڑے رہتے ہیں ہماری باری ہی دیر سے آتی
ہے اور اگر ہماری جھولی میں خیر پڑتی ہے تو وہ اتنی دیر سے پڑتی ہےکہ ہمارے
بنائے منصوبے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے، ہم خدا سے لڑ پڑے۔
انہی دنوں میرا گاؤں جانا ہوگیا۔ چاچے بشیر کی دکان راستے میں پڑتی تھی۔
چاچا دکان پہ بیٹھا کچھ لوگوں سے باتیں کررہا تھا مجھے دیکھتے ہی اُٹھ کھڑا
ہوا۔
"بسم اللہ !او میرے شاہ جی آئے"۔
دعا سلام کے بعد چاچا نے مجھےپاس ہی بٹھا لیا۔ چاچے نے دکان پہ کھڑے لڑکے
کو آواز دی:
"او احمد یار تمہیں نظر نہیں آ رہا شاہ جی آئے ہیں ۔ جاؤ گھر جاؤ اور ٹھنڈا
دودھ لے کرآؤ"۔
"چاچا اس سب کی ضرورت نہیں"۔
"کوئی حال نہیں شاہ جی ، ان سب کی تو ضرورت ہے ۔ اگر آپ نے ہم سے نہیں
کھانا تو اور کس نے کھانا ہے"؟
"اور سناؤ ؟ حال چال سب ٹھیک ہے نا ؟ اب تو کسی سے لڑائی نہیں کرتے"؟
"چاچا حال ہی تو ٹھیک کروانے تیرے پاس آیا ہوں اور ایک لڑائی ہی تو ہے جو
میں کرتا ہوں"۔
چاچا میرے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھنے لگا:
"کیوں پتر اب کیا ہوا ؟ کس سے لڑائی ہو گئی تیری"؟
"ہونا کیا ہے چاچا اب میں نےاللہ سے لڑائی کرلی ہے"۔
"اللہ سے لڑائی !"
"مگر کیوں"؟
"تیرے سے کیوں لڑتا تھا چاچا"؟
"میں تو تمہیں لیٹ سودا دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا ۔۔۔۔۔۔۔اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سمجھ گیا"۔
"چاچا جی بس خود ہی نہیں سمجھنا مجھے بھی سمجھانا ہے"۔
"شاہ جی بات وہی ہے جو کچھ سال پہلے میں نے آپ کو بتائی تھی کہ آپ میرے پکے
گاہک ہو اور نئے آنے والے راہ چلتے مسافر ، جن کی ضرورت اگر پہلے پور ی
کروں گا تو اس میں میرا بھی فائدہ ہے اور اُن کابھی۔
تو شاہ جی خدا کا دربار بھی ایسا ہی ہے تم ہو خدا کےپکے بندے خدا کو پتا ہے
کہ اسے اگر تھوڑی دیر بعد بھی نوازا جائے تو وہ اس کے فائدے میں ہے۔ خدا
تمہارا بھلا سوچتا ہے پتر، وہ جانتا ہے کہ تم کہیں اور نہیں جاؤ گے ، فجر
کو لڑو گے تو ظہر کو پھر اُسی در پہ سربسجود ملو گے۔
وہ لوگ جو کبھی کبھی مسجد میں ملتے ہیں یا یوں کہوکہ عید کی عید نظر
آتےہیں۔وہ خدا کی بتائی ہوئی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں جب وہ اُس کے حضور دستِ
دعا دراز کرتےہیں تو وہ اُنہیں نواز دیتا ہے ۔
اگر وہ اُنہیں نوازے گا نہیں تو وہ دل برداشتہ ہو کر کسی اور کے در پہ
جائیں گے۔
تو شاہ جی خدا کیسے گوارا کرےگا کہ اُس کے در پہ صدا لگانے والا کسی اور در
کا صدائی بنے۔
اس سے خدا کو اُس کا بندہ مل جاتا ہے اور بندے کو خدا۔
آپ کا توکچھ نہیں جاتا نا شاہ جی"؟
چاچا کی داستان ختم ہوئی۔
"چاچا اب میں چلتا ہوں"۔
"اب کہاں جانا ہے پتر جی"؟
"اللہ سےصلح کرنے چاچا اور کہاں جانا ہے "
"او شاہ جی پانی تو پیتے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔شاہ جی بات تو سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاہ
جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
میں بہت دور نکل آیا تھا چاچے کی مدھم سی آواز ابھی تک سنائی دے رہی تھی۔ |
|