23 مارچ 1940 کو لاہور میں مینار
پاکستان کے مقام پر مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ عام میں برصغیرکے مسلمانوں
کیلئے ایک الگ ملک بنانے کی قرار داد پیش کی گئی جسے وہاں موجود شرکاء نے
بھرپور انداز میں منظور کیا ۔ وہ قرار داد دراصل انگریزوں اور ہندوؤں کی
غلامی سے نجات کا نقطہ آغاز تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مخص
سات سال کی جدوجہد کے نتیجے میں دنیا نے دیکھا کہ بغیر کسی جنگ اور جدل کے
اک نظریئے کی بنیاد پر ایک ملک قائم ہوا جو آج تک قائم ہے اور ان شاء اﷲ تا
قیامت تک قائم رہے گا۔اس قرار دادا ور اس ملک کا خواب دیکھنے والے اس دور
کے ہی نہیں آج کے دور کے بھی عظیم شاعر ، مفکر، مدبر حضرت علامہ اقبال تھے
۔ یہ ان ہی کی کاوشیں تھیں جن کی بدولت قائد اعظم محمد علی جناح نے کانگریس
کو خیر باد کہہ کر مسلم لیگ کی کمان سنبھالی، یہ انہی کی کاوشیں تھیں جن کے
سبب مسلمانوں میں ایک الگ ملک بنانے کیلئے جدوجہد کی سکت پیدا ہوئی۔
1857کی جنگ آزادی کے بعد جس طرح برصغیر کے مسلمانوں پر مایوسی کے بادل
چھائے، ہندو او ر سکھ جس انداز میں اپنی سات سو سالہ غلامی کا بدلہ لینے
کیلئے بے تاب تھے ، جس انداز میں انہوں نے اپنی منافقت اور چاپلوسی کے سبب
انگریزوں کا اعتماد حاصل کر لیا تھا وہ سبھی مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے
غلام بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ایسے حالات میں علامہ اقبال، مولانا محمد
علی جوہر ، مولانا شوکت علی، سردار عبدالرب نشترو دیگر اکابرین نے مسلمانوں
کو احساس محرومی سے نکالا ان کے اندر خودی کا جذبہ بیدار کیا ،انہیں بتایا
کہ وہ انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے اسلام کے مطابق اپنی زندگیوں
کو نہیں گذار سکتے لہذا اسلام اور اس کے اصولوں پر زندگی کو گذارنے کیلئے
ایک الگ ملک کا قیام ناگزیر ہے۔ ہندو ، اور مسلم دو الگ قومیں ہیں، ان کے
نظریات ، رہن سہن رسم و رواج سبھی الگ ہیں ، اسی بنیاد پر علامہ اقبال نے
دو قومی نظریہ پیش کیا ۔ اس نظرئیے کے بعد ایک الگ ملک کا خواب دیکھتے
علامہ اقبال اس دنیا سے چلے گئے لیکن وہ آج بھی موجود ہیں۔ ان کی شاعری آج
بھی مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔ ان کی شاعری کا دنیا کی سینکڑوں زبانوں
میں ترجمعہ ہوچکا ہے ۔ علامہ اقبال آج پاکستان کے قومی شاعرتو ہیں ہی اس کے
ساتھ انہیں بھارت اور دیگر ممالک میں بھی اتنا ہی پسند کیا جاتا ہے۔
علامہ اقبال کی وفات کے دو سال بعد قرار داد پاکستان منظور ہوئی ، سات سال
بعد اسی قرار داد کی روشنی میں پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔قربانیوں کی
طویل داستانیں ہیں جنہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تیس لاکھ انسانوں
کی قربانیاں ہوئیں ، املاک کا کوئی شمار نہیں، بے شمار معاشی طور پر مستحکم
مسلمان حاندانوں نے اس قائد اعظم کو پاکستان کیلئے اپنی دولت فراہم کی۔
ایسے ہی خاندانوں میں ایک خاندان اس قوم کی بیٹی جو آج ناکردہ گناہوں 86
برسوں پر محیط سزا امریکی جیلوں میں کاٹ رہی ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو تو
یاد نہیں لیکن ان کی والدہ عصمت صدیقی کو تو سب یاد ہے کہ اور انہی کی
زبانی یہ پتہ چلاکہ ان کے خاندان نے قائد اعظم کو کس قدر سونا اور دیگر
معاشی مدد فراہم کی مخص پاکستان کیلئے ۔ کون جانتا تھا کہ آج اسی خاندان کی
ایک بیٹی کڑورں مسلمانوں کی موجودگی میں بھی خود کو تنہا سمجھے گی۔ 18 کڑور
سے زائدآزاد مسلمان اور ان کے حکمران اس کی باعزت آزادی کیلئے بے حسی کی
انتہا کو پہنچیں گے۔ اس کی ضعیف ماں جو آج بھی گھر کے برآمدے میں اس کی راہ
تک رہی ہے اس کے وہ معصوم بچے جو اس کی مامتا کیلئے ترس رہے ہیں، اس کی نڈر
بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کس طرح اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر اس کی رہائی
کیلئے سرگرم عمل ہے۔ آخر کیوں ؟ آج عافیہ اور اس کا خاندان یہ سوال پوچھنے
میں حق بجانب ہے کہ کیا ایسے ہی ملک کیلئے ہمارے اسلاف نے قربانی دی تھی۔
سوال ہی نہیں سوالات تو وہ ضرور پوچھ سکتے ہیں لیکن مقام افسوس ہے کہ اس کا
جواب دینے والا کوئی نہیں ہے۔
آج پاکستان وہ پاکستان قطعی نہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا ، جس
کیلئے سات سال مسلمانوں نے انتھک جدوجہد کی تھی ، جس کیلئے لاکھوں قربانیاں
دی گئیں تھیں۔ جس کیلئے بہنوں کی عصمتیں ، اور سہاگ اجڑے، بچے یتیم ہوئے ،
جس کے لئے دولتمند فقیر ہوئے،جس کیلئے امیر غریب ہوئے اور جس کے لئے اور
بھی بہت کچھ ہوا ، آج کا پاکستان قطعی وہ پاکستان نہیں۔
اگر آج کے پاکستان کو علامہ اقبال کا پاکستان بنانا ہے ، آج کے پاکستان کو
قائد اعظم اور دیگر اسلاف کے خوابوں کے مطابق بنانا ہے تو اس کے لئے
انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو بدلنا ہوگا، سب سے پہلے اپنے اندر مثبت
تبدیلی لانا ہوگی۔ اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ہی سہی آج اپنے اسلاف کے
خوابوں کو پورا کرنے کیلئے کچھ کرنا ہوگا ۔ ہمیں قرآن اور سنت کے مطابق اس
ملک کے نظام کو ڈھالنے کیلئے اپنی ذات سے آغاز کرنا ہوگا، اب بھی وقت ہے ،
اگر ایسا نہ کیا تو یہ وقت بھی گذر جائیگااور پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری
داستاں تک نہ ہو داستانوں میں۔۔۔ |