کراچی میں 45دنوں میں5 بم
دھماکوں سے 68 افراد شہید اور 200 زخمی ...
کیا دہشت گرد عناصر اپنی مذموم کاروائیوں سے خو د کو پھانسی کے پھندے سے
بچا پائیں گے....؟
کراچی میں 5فروری کو حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چہلم کے موقع پر
دو گھنٹے کے دوران ہونے والے یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں کے نیتجے میں
28افراد کی شہادت اور 100سے زائد کے زخمی ہونے کے واقعات پر کراچی سمیت
پورا پاکستان شدید غم سے نڈھال ہے ابھی عاشور کے روز ہونے والے بم دھماکوں
کے نتیجے میں ہونے والی شہاتوں سے پاکستان کی عوام سنبھلنے بھی نہ پائی تھی
کہ گزشتہ جمعے کے روز پہلا دھماکہ نرسری اسٹاف کے قریب شارع قائدین فلائی
اوور پر عزاداروں کی اُس بس پر ہوا جب یہ عزادار نواسہء رسول حضرت امام
حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چہلم کے مرکزی جلوس میں شرکت کرنے کے لئے ملیر
سعود آباد سے ایک کنڑیکٹ کی بس نمبرP-0081 میں سوار ہوکر جا رہے تھے۔ اور
جیسے ہی بس میں سوار 65 سے 70 نواسہء رسول حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے دیوانوں اور جانثاروں کا یہ کارواں3بجکر02منٹ پرنرسری بس اسٹاپ کے
قریب شارع قائدین فلائی اوور پر پہنچا تو خبروں کے مطابق عین سڑک کے کنارے
کھڑی موٹر سائیکل میں 20کلو کا نصف بم زور دار دھماکے سے پھٹ گیا جس سے
متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ یہ دھماکہ اِس قدر شدید تھا کہ اِس کی آواز کئی
میل دور سُنی گئی اور جس سے بس مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی اور اِس کے
پھٹتے ہی یہاں جائے وقوعہ پر قیامت صغریٰ برپا ہوگئی تھی جس سے ہر طرف
معصوم انسانی جانیں بکھری پڑیں تھیں اور زخمیوں کی آہ و فغاں سے زمین تھرا
رہی تھی اور آسمان رو رہا تھا اور یوں اِس پہلے بم دھماکے کے نتیجے میں بس
میں سوار 12عزادار شہید اور ایک اندازے کے مطابق درجنوں شدید اور جزوی زخمی
ہوگئے تھے جنہیں جناح اسپتال لے جایا گیا اَبھی اِس پہلے بم دھماکوں کے
زخمیوں اور شہداء کو جناح اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں طبی امداد دی جارہی
تھی کہ وہاں زخمیوں اور شہداء کے لواحقین سمیت زخمیوں کو خون دینے والوں کی
آمد جاری ہی تھی کہ پہلے بم دھماکے کے ٹھیک 2 گھنٹے بعد ہی 4بجکر53منٹ پر
جناح اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے سامنے غریب نواز ہوٹل کے قریب پارکنگ زون
میں کھڑی موٹرسائیکل نمبر KBE-5995بھی ایک زوردار دھماکے سے اڑ گئی جس کے
نتیجے میں انسانی خون اور اعضا چاروں جانب دور دور تک بکھر گئے تھے اور
امرجنسی وارڈ میں زخمیوں کی آہیں بلند تھیں اور اِس طرح اِس دوسرے بم
دھماکے کے نتیجے میں جناح اسپتال میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف کارکن اور
شہداء و زخمیوں کے لواحقین میں سے 15افراد شہید اور 50سے زائد زخمی ہوگئے
جن میں یہاں موجود میڈیا پرسنز بھی شامل ہیں جبکہ جناح اسپتال میں ہلاک اور
زخمی ہونے والوں میں ایم کیو ایم کے وہ افراد بھی شامل تھے جو اپنی جماعت
کے قائد الطاف حسین کی اپیل پر زخمیوں کو خون کا عطیہ دینے اور زخمیوں کی
مدد کرنے کے لئے جناح اسپتال پہنچنے تھے وہ بھی اِس دھماکے کی نظر ہوگئے ۔
اِس دھماکے میں ایم کیو ایم کے شدید زخمی ہونے والے یوسی ناظم محمد خلیل
اور لائنز ایریا سیکٹر کے دو کارکنان غلام مرتضیٰ اور جمیل احمد بھی زخموں
کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے اِس طرح ایک خبر یہ بھی ہے کہ جناح اسپتال
میں ہونے والے بم دھماکے میں دس کلو گرام کا دھماکہ خیز مواد استعمال کیا
گیا تھا جبکہ اِس دھماکے کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے شہید ہونے والے
کارکنوں کی تعداد 8بتائی جاتی ہے۔ جبکہ اِن دونوں بم دھماکوں کے شہداء کی
نماز جنازہ آر سی ڈی گراؤنڈ ملیر اور ایم کیو ایم کے مرکزی جناح گراؤنڈ پر
ادا کردی گئی ہے۔
جبکہ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ دہشت گردوں نے اپنی دوسری بم دھماکے کی
کاروائی جو جناح اسپتال میں دوسرے بم دھماکے کی صورت میں کی تھی اِس دھماکے
میں مسیحی خاندان کے 5افراد جن میں منظور، اہلیہ روزی، بیٹی کرل، رشتہ دار
پروین اور12سالہ نرمن بھی شامل ہیں وہ بھی آنجہانی ہوگئے جبکہ ایک 8سالہ
بچی رومیکا اِن سطور کے تحریر کرنے تک بھی لاپتہ بتائی جاتی ہے۔ اِسی طرح
یہ بھی ایک انتہائی افسوس ناک خبر ہے کہ اَبھی جناح اسپتال میں پہلے اور
دوسرے بم دھماکے کے زخمیوں کو طبی امداد دی جارہی تھی کہ جناح اسپتال کے ہی
ایک وارڈ میں ایک ایسا مانیڑ رکھا ہوا ملا جس میں 20سے25کلو گرام کا دھماکہ
خیز مواد سے بھرا بم نصف تھا جبکہ یہاں انتہائی تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ
جناح اسپتال میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے اور
رینجرز نے بھی اپنی اپنی چیکنگ کرکے جناح اسپتال کو ہر قسم کے بم سے کلیئر
قرار دے دیا تھا۔
جبکہ اِس نقطے پر یہاں حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے
اور رینجرز کی کارگزاری کے بعد کیا بموں اور دھماکہ خیز مواد کو سونگھ کر
بتانے والے کُتے بھی اِس مانیٹر میں نصب بم کا پتہ نہیں لاسکے....؟ جس میں
20سے25کلو گرام کا دھماکہ خیز مواد موجود تھا اور اگر یہ بھاری بھرکم بم
بھی پھٹ جاتا تو اندازہ کیجئے کہ جناح اسپتال میں کتنی انسانی جانی لقمہ
اجل بن جاتیں اور اِس کے پھٹنے سے جناح اسپتال کی جو تباہی ہوتی اِس کا
اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا تھا کہ یہ بم کتنا تباہ کن ثابت ہوتا اِس کا
تصور کرکے بھی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کیا یہ ہمارے سیکورٹی اداروں کی
نااہلی نہیں ....؟کہ اِنہوں نے سامنے پڑے اِس مانیٹر نما بم کو نظر انداز
کرکے جناح اسپتال میں ایک نئی تباہی کا سامان پیدا کردیا تھا اور اُن
ناکارہ کتوں کی کارکردگی بھی اِس بم کا پتہ لگانے میں صفر رہی جو روزدہ
تازہ اور مہنگا ترین گوشت تو کھاتے ہیں مگر اپنی کارکردگی کا مظاہر ایسی
نہیں کرسکے جس کے لئے اِنہیں خصوصی طور پر ہر قسم کی آسائش اور آرام مہیا
کیا جاتا ہے اور اِسی کی تربیت دی جاتی ہے وہ بھی اِس مانیٹر نما بم کو
سونگھنے کے باوجود بغیر بھونکے اور ناک منہ چڑھائے اِس کے سامنے سے یوں گزر
گئے کہ جیسے اِس بم میں انسانوں کے لئے موت کا سامان نہیں بلکہ آب حیات
رکھا تھا۔
بہرحال ! اَب کچھ بھی ہے مگر میں اور مجھ سمیت اور بہت سے یہ بات پورے یقین
سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری حکومت ملک میں سیکورٹی مقاصد کے لئے آئے روز
اخبارات اور سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز پر بڑے بڑے دعوے تو بہت سے کرتی ہے
کہ ہم نے ملک میں سیکورٹی کے لئے یہ کرلیا......؟تو وہ کرلیا..... ؟مگر
دراصل یہ کچھ نہیں کرتی ورتی سوائے بیانات دینے کے اگر واقعی ہماری اِس
حکومت اور اِسے پہلے والی حکومتوں نے بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے اور سیکورٹی
فورسز کوبم کا پتہ لگانے والے جدید آلات مہیا کئے ہوتے تو شائد بم کا پتہ
لگانے والے یہ تمام لوگ جناح اسپتال میں مانیٹر نمابم کا فوری پتہ لگا لیتے
اور اپنی چیکنگ کے بعد بھی جناح اسپتال کو کلیئر قرار نہیں دیتے ۔
یہاں حکومت اور عوام کو یہ بات اچھی طرح سے مان لینی چاہیئے کہ حکومت نے
سوائے سیکورٹی فورسز کے تنخواہوں اور اِن کی مراعات میں اضافہ کرنے کے
اِنہیں جدید ترین آلات سے آراستہ نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے بعض دفع ہونے
والے خودکش اور پلانٹڈ بموں کے دھماکوں سے عام شہریوں کے ساتھ ساتھ اِن کی
سیکورٹی پر معمور فورسز کے اہلکار بھی نشانہ بنتے ہیں ۔ میں یہ سمجھتا ہوں
کہ حکومت پر یہ بھی لازم ہے کہ جب حکومت سیکورٹی فورسز کی تنخواہوں اور
مراعات میں اضافہ کرے تو پہلے اِن بیچاروں کی جانوں کی حفاظت کے لئے بھی
ترجیحی بنیادوں پر ایسے اقدامات کرے کہ جن سے دوران فرائض اِن کی بھی
زندگیاں ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رہیں۔
اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردوں نے کراچی کو اپنی مذموم کاروائیوں کا
مرکز بنالیا ہے اور یہ اپنی انہیں کاروائیوں سے کراچی شہر کا امن و سکون
اور اِس کی معیشت کو تباہ و برباد کرکے پورے پاکستان کو مفلوج کرنے کا اپنا
ناپاک منصوبہ بناچکے ہیں اور آج اِن کی اِن ہی گھناؤنی کاروائیوں سے کراچی
گزشتہ45دنوں کے دوران یعنی 26دسمبر8محرم،27 دسمبر9محرم اور28دسمبر2009 یوم
عاشور سے لے کر 5فروری 2010یومِ چہلم شہداءکربلا تک ہونے والے 5بم دھماکوں
سے68افراد شہید اور ایک اندازے کے مطابق اِن خودکش اور پلانٹڈ بم دھماکوں
سے 200سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
جبکہ دہشت گردوں کی کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنک کی کاروائیاں اور اِن
کاروائیوں میں ہونے والے ہلاکتیں اِس کے علاوہ ہیں اگر اِن ٹارگٹ کلنگ کو
بھی بم دھماکوں کی ہلاکتوں میں شامل کرلیا جائے تو اِن کی تعداد سینکڑوں تک
جا پہنچتی ہے ۔
اور یوں اگر یہ بھی دیکھا جائے تو اِن دھماکوں کے بعد ہونے والے عوامی
ردِعمل کے باعث کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع ملک کی بڑی ہول سیل کی
مارکیٹوں کی تباہی اور کراچی میں تسلسل کے ساتھ ہونے والی ٹارگٹ کلنک کے
واقعات پر بھی عوامی ردِعمل کے نتیجے میں نجی اور سرکاری املاک کو پہنچنے
والااربوں روپوں کا نقصان اِس کے علاوہ ہے ۔
اگرچہ دہشت گردوں کی اِن ناپاک کاروائیوں سے کراچی کی گلی کوچوں بازاروں
اور سڑکوں پر آج بھی آگ و خون اور موت کا ننگا رقص جاری ہے اور دہشت گردوں
کے دہشت گردی کے اِس کھیل میں اِن دنوں روشنیوں کا شہر کراچی اپنے پیاروں
کی موت اور زخموں سے چُور چُور ہو کر بلکتا اور سسکتا دکھائی دیتا ہے۔ جو
ہر محب وطن پاکستانی کے لئے اِس کے کلیجے پر چھری چلانے کے مترادف ہے ۔اور
آج شہر کراچی جس کرب سے دوچار ہے اِس کا ازالہ حکومت اور مقامی انتظامیہ کی
جانب سے شہید اور زخمی ہونے والوں کے لئے5=5لاکھ روپے معاوضے کے اعلان سے
نہیں کیا جاسکتا ۔
بلکہ اِس موقع پر میں یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا تعلق نہ تو
کراچی اور پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت سے ہے اور نہ کسی مذہبی گروہ سے
پھر بھی میں ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے یہ کہوں گا کہ اگر حکومت
واقعی شہر کراچی میں حقیقی معنوں میں امن وامان برقرار رکھنا چاہتی ہے تو
اُسے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے اُن خدشات اور تحفظات کا سنجیدیگی
سے جائزہ لینا ہوگا جو وہ ( الطاف حسین ) گزشتہ دو سالوں سے حکومت کو کراچی
میں طالبانائزیشن کے خطرے سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان کی کمین گاہوں
کی نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ خودکش حملہ آور کراچی کے کن کن علاقوں میں پناہ
لیتے ہیں ۔
اگرچہ اِن کی اِس آگاہی اور خدشات روشنی میں دیکھا جائے تو شہر میں گزشتہ
45دونوں کے دوران ہونے والے5بم دھماکوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ اِس کے
پیچھے یہ عناصر کارفرما ہیں جو اپنے علاقوں کو چھوڑ کر کراچی میں آ چھپے
ہیں وہ ہی کراچی سے لیکر پشاورتک اپنی دہشت گردی سے معصوم انسانوں کے خون
کے پیاسے بنے ہوئے ہیں اور اَب حکومت پر لازم ہے کہ اِن پاکستان دشمن عناصر
کا کراچی سمیت پورے ملک سے قلع قمع کرے کیونکہ اِس کے بغیر نہ صرف کراچی
بلکہ پورے ملک کو بھی امن و سکون کا گہوارہ نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ |