اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں
تو ہمیں ہر دوسرا شخص ذہنی تنا ؤ میں مبتلا نظر آئے گا ۔ کوئی مہنگائی سے
تنگ ہے تو کوئی بدامنی و خوف سے لرزا ں ۔کوئی گھر کے ماحول کے باعث ڈپریشن
کا شکار ہے تو کوئی دفتری امور کی وجہ سے پریشان ۔مسائل کی ایک لمبی فہرست
ہے اور خوش رہنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔اس تناؤ کو کم
کرنے کے لئے ہر کسی کو مسکراہٹوں اور قہقوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مسکراہٹوں
اور قہقوں کو عام کرنے کے لیے طنز و مزاح آج کے معاشرے کی اہم ضرورت بن گیا
ہے ۔ ہنسی مذاق،شوخی، ظرافت سب مزاح کی اقسام ہیں جن کا مقصد مسکراہٹیں
بکھیرنا ہے۔ قہقہہ، پھبتی اور فقرہ بازی وغیرہ طنز کی اقسام ہیں ۔ عام طور
پر طنز کے معانی ’’مذاق اڑانے‘‘ یا ’’ جملہ کسنے‘‘ کے طور پر لیے جاتے ہیں
۔ لیکن حقیقت میں طنز نگار ایک مصلح ہوتا ہے جو کسی کی دل آزاری کیے بغیر
بات کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ ناگوار بات کو بھی گوار بنا دیتا ہے ۔ طنز و
مزاح کا مقصد معاشرے میں موجود خامیوں ، کمیوں اور کوتائیوں کو قہقے سے مات
دینا اور یہاں پر چھائی خوفناک سنجیدگی کو ختم کرنا ہے۔مزاحیہ شاعری ہمیں
کچھ دیر کے لئے ہی سہی افسردگی اور تناؤ کے ماحول سے دور کردیتی ہے ۔گزشتہ
دنوں اسلام آباد کے ایپل دی گرومننگ سکول میں ننھے بچوں نے مزاحیہ شاعری کی
ایک خوبصورت بزم سجائی ۔ بیگم لفٹنینٹ جنرل (ر) اعظم تقریب کی مہمان خصوصی
تھیں ۔اسلام آباد جیسے سرد مزاج شہر میں یہ محفل غنیمت تھی اس لیے مشاعرے
میں طلباء و طالبات ،اساتذہ ، والدین اور ادبی و سماجی شخصیا ت نے شرکت کی
۔
مشاعرے کے لئے سکول کی چھت کو بڑے خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا ۔مشاعرے
کے لئے ڈیڑھ ود فٹ اونچا سٹیج بنا یا گیا تھاجس پر مشاعرے میں حصہ لینے
والے تمام بچے برجمان تھے۔ ٹھیک ساڑھے دس بجے سکول کی ایک ننھی طالبہ نے
تلاوت قرآن سے تقریب کا آغاز کیا۔ اس کے بعد جماعت پنجم کی طالبہ فاطمہ
ارشد کو مشاعرے کی نظامت کے لئے مدعو کیا گیا ۔ اس ننھی طالبہ کی صاف آواز
اورپُر اعتماد لہجے کے امتزاج نے مشاعرے کی نظامت کا خوب حق ادا کیا اور
عمدہ نظامت کے لئے حاضرین کی خوب داد پائی ۔ یقین جانیے تواس کے پر اعتماد
لہجے اور صاف آواز سے گمان بھی نہیں گزرتا تھا کہ یہ جماعت چہارم یا پنجم
کی طالبہ ہے ۔میں نے بہت سی محافل مشاعرہ میں شرکت کی ہے اور بڑے بڑوں کو
کرسی نظامت پر برجمان دیکھا ہے لیکن جس طرح ننھی طالبہ نے مشاعرے کی نظامت
کا حق ادا کیا ہے شاید کم ہی لوگ کر سکے ہوں ۔ فاطمہ ارشد نے اس شعر کیساتھ
مشاعرے کا باقائدہ آغاز کیا ۔
ؔ ؔیہ لغزش احتراماََ ہو گئی تھی
جوانی کو بڑھاپا کہہ دیا تھا
وہ بی بی آج تک ہم سے خفا ہے
جسے بھولے سے ’آپا‘ کہہ دیا تھا
اس کے بعد اس نے ننھی گڑیا کو نظم سنانے کے لئے مدعو کیا جس نے نظم ـ’’
ثریا کی گڑیا‘‘ سنائی ۔
ؔسنو اِک مزے کی کہانی سنو
کہانی ہماری زبانی سنو
ثریا کی گڑیا تھی چھوٹی بہت
نہ دبلی بہت اور نہ موٹی بہت
جو دیکھو تو ننھی سی گڑیا تھی وہ
مگر اِک شرارت کی پڑیا تھی وہ
جو سوتی تو دن رات سوتی تھی وہ
جو روتی تو دن رات روتی تھی وہ
نہ امی کے ساتھ اور نہ بھیا کے ساتھ
وہ ہر وقت رہتی ثریا کے ساتھ
ننھی طالبہ کا معصوم انداز ہر دل کو بھایا ۔حاضرین نے اس نظم پر دل کھول کر
اس کی داد دی ۔اس کے بعد طالبہ ہادیہ خرم کی نظم ’’ کبھی ہم خربو ز تھے اب
ہم آلو بخارا ہوگئے ‘‘ نے ماحول کو پر لطف بنا دیا ۔ہادیہ خرم کے بعد عمار
شہزاد کو مدعو کیا گیا جس نے قہقہ انگیز اشعار سناکر محفل کا رنگ ہی بدل
دیا
ؔ آہ بھرتی ہوئی آئی ہو سلیمنگ سنٹر
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
ڈائیٹنگ کھیل نہیں چند دنوں کا
اک صدی چاہیے کمرے کو کمر ہونے تک
عمار شہزاد کے ان اشعار نے محفل میں موجود لوگوں کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ
کردیا ۔
طالبہ رامین بابر کی نظم’’ خاتون ، اپنا نام خدمت گزاروں میں رکھ لینا ‘‘
کو حاضرین نے بے حد پسند کیا ۔
ؔ جب تھکن سے ٹیچر چور ہوتے ہیں
تو وہ پڑھنے پڑھانے سے دور ہوتے ہیں
تب سب کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے
چائے کی طلب شدید ہوتی ہے
جب خاتون سب کے نزدیک ہوتی ہے
بولیں میم سائقہ آہستہ سے ،خاتون دزا ادھر آنا
روٹھے ہوئے انداز میں میم افشاں نے کہا
میری بات بھی سن جانا
بولیں میم صباء
میری بات سنی ان سنی نہ کر جانا
دوڑ کے دو رول اور پراٹھے لے آنا
بلایا میم مریم نے
خا تون ذرا کنٹین تک چلی جانا
میرے لئے ایک پلیٹ چپس لے آنا
بھر کے آنسو آنکھوں میں خاتون نے کہا
کب تک رہے گا میرا یہ آنا جانا
کیا آپ لوگوں نے کلاس روم میں جاکر نہیں پڑھا نا
آواز آئی میم فاریہ زیدی کی
خاتون جلدی سے نیچے آنا
بار بار تم اوپر نا جانا
ذرا ان برتنوں کو صفائی سے دھونا
کوئی ڈانٹے ، تو بالکل بھی نہ رونا
ملے وقت تو کلاسوں کی صفائی بھی کر لینا
تم پیاری سی خاتون ہو اپنا نام خدمت گزاروں میں رکھ لینا
ننھی طالبہ رامین بابر کا انداز دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔اس نے جس انداز
سے نظم میں اپنی ٹیچرز کی پیروڈی کی اسے سب حاضرین نے بے حد پسند کیا ۔اور
تالیوں کی گونج بتا رہی تھی کہ حاضرین کس قدر محظوظ ہوئے ۔
عتیق احمد خان کی نظم ’’آرٹ کے پریڈ میں گانے گانے کا جی چاہتا ہے ـ‘‘
حاضرین کے گوش گزار کی ۔ اس نظم کاا ٓخری شعر حاضرین کو بے حد پسند آیا
۔شعر کچھ یوں تھا
ؔ جب پھنس جائے شرارتوں میں ساری کلاس
پھر رحیم پر الزام لگانے کا جی چاہتا ہے
اس کے بعدننھے طالبعلم عبداﷲ عامر حاضرین کی توجہ ایک اہم مسلئے کی طرف
منذول کروانے کی کو شش کی
عبداﷲ عامرکی نظم
ؔجماعت کا کمرہ کچھا کھچ بھرا ہے
ادھر کو ئی بیٹھا اور کھڑا ہے
یہ تتلی ہے
پنکھا پروں سے جھول رہی ہے
ہوا میں اِ دھر سے اُدھر اُڑ رہی ہے
کٹہرے میں ٹیچر کے بچہ کھڑا ہے
اور بچے کے ہونٹوں پر تالا پڑا ہے
یہی پاس اک بچی رو رہی ہے
آنسوؤں سے وہ بے حال ہو رہی ہے
جماعت کا کمرہ کچھا کھچ بھرا ہے
یہاں کوئی بیٹھا اور کھڑا ہے
اس کے بعد ننھے طالبعلم علی احمد کے خوبصورت اشعار
ؔنرسری کا داخلہ بھی سرسری مت جانیے
آپ کے بچے کو افلا طون ہونا چاہیے
اس حسبِ حال شاعری کو حاضرین نے بے حد پسند کیا ۔ آج کل بچے کے لئے منا سب
سکول کا انتخا ب اور اس میں داخلے کے لئے والدین اور بچے کو جن مراحل سے
گزرنا پڑتا ہے وہ ایک بچہ یا اس کے والدین ہی بہتر جانتے ہیں ۔ ا س کے بعد
ننھی شاعرہ ہمنا کی سیاست دانوں کے حوالے سے کہی گئی نظم ’’ اے مطلب کی
زندہ مثالو‘‘ کو بے حد پذیرائی ملی ۔ لفظوں کی ملکہ نبا نے طالبعلموں کا
دکھ شعروں کی صورت میں بیان کیا ۔
اس کے بعدمشاعرے کے آخری شاعرہ نسرین کو مزاحیہ کلام سنانے کی دعوت دی گئی
ننھی نسرین نے یہ نظم سنا ئی
ؔ صبح ہو یا شام ہو
گیٹ پر ہے برجمان
یہ ہے چچا اجمل خان
مصب، علی اور ایمان
سب چھڑکتے ہیں ان پر جان
یہ ہے چچا اجمل خان
بارش ہو، بادل ہو ، یا ہو طوفان
کسی سے پیچھے نہیں ہیں یہ جوان
یہ ہیں ہمارے چچا نثار خان
گھنٹی بجانی ہو یا دھونا ہو گلدان
ہر جگہ حاضر ہیں ہمارے چچا نثار خان
یہ ہیں سکول کے نگہبان اور سکو ل ان پر مہربان
یہ ہیں چچا اجمل اور چچا نثار خان
میرے خیال میں اس مشاعرے کا اس سے بہتر اختتام نہیں ہوسکتا تھا ۔ کسی بھی
سکول کے لئے چوکیدار اور مالی حضرات کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔لیکن
ان کی خدمات کا کبھی اعتراف نہیں کیا جاتا ۔ننھی نسرین نے جس انداز میں ان
حضرات کو خراج تحسین پیش کیا وہ قابل تحسین ہے ۔
سکول کی وائس پرنسپل خدیجہ ذرین خان کے بقول انہیں بچوں کو مشاعرے کے لئے
تیار ی کروانے میں بہت مشکل آئیں ۔ شاید انہیں بچوں کا تلفظ اور ادائیگی
ٹھیک کرنے میں وقت لگا ہو ۔لیکن بچوں کے چہرے بتارہے تھے کہ انہیں مزاحیہ
سنانے اور سننے کا کس قدر اشتیاق ہے۔ کیونکہ بلا شبہ مزاحیہ شاعری کا اپنا
ایک مقام ہے ۔ آج بھی خالد مسعود کی نظم ’’ بھیڑا لگتا ہے ‘‘ کو ہزاروں
لطیفوں ، جگتوں اور مزاحیہ ویڈیوز سے زیادہ پذیرائی حاصل ہے ۔ |