سعودی سلامتی کو درپیش خطرات....پاکستان، برادر اسلامی ملک کے شانہ بشانہ

عالمی افق پر ایک نیا جنگی محاذ کھل چکا ہے۔ یمنی صدر منصور ہادی کی درخواست پر خلیجی ریاستوں نے حکومت پر قابض حوثی باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ یمن کی صورتحال گزشتہ سال ماہ ستمبر سے کافی زیادہ گھمبیر ہے، جب حوثیوں نے یمنی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور پھر اکتوبر میں حوثی باغیوں کی جانب سے یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لینے کے بعد حالات مزید خراب ہوگئے۔ بھرپور کوششوں کے بعد حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکامی پر گزشتہ ماہ یمنی حکومت نے حوثیوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے اقوام متحدہ سے تعاون کی اپیل کی تھی، جس کے بعد اقوام متحدہ نے یمن کے حوالے سے ایک اجلاس بھی طلب کیا تھا، لیکن کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہ آسکا۔ جس کے بعد یمنی صدر منصور ہادی نے باغیوں پر قابو پانے کے لیے سعودی عرب سے تعاون طلب کیا، جس پر سعودی عرب نے یمن میں حوثی باغیوں پر حملہ کیا ہے۔ سعودی ذرائع نے سعودی حکام کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان اور مصر سمیت 5 مسلمان ملک یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری کارروائی میں حصہ بننا چاہتے ہیں، جبکہ دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ یمن میں بحران کے حوالے سے سعودی عرب نے پاکستان سے ہنگامی رابطہ کیا ہے اور مدد طلب کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے وزیراعظم نوازشریف کو فون کیا، جس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان یمن کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، جب کہ اس موقع پر سعودی وزیر خارجہ نے وزیراعظم سے یمن کی صورتحال پر مدد کی بھی درخواست کی۔ یمن کے حوالے سے جمعرات کو وزیر اعظم ہاﺅس میں مشرق وسطیٰ کے حالیہ واقعات پر غور کرنے کے لیے وزیراعظم میاں نواز شریف کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا، جس میں وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیراعظم کے مشیر برائے سلامتی سرتاج عزیز، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور پاک فضائیہ کے سربراہ ائیرچیف مارشل سہیل امان نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سے قریبی اور برادرانہ تعلقات ہیں اور ہم ان کی سیکورٹی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ سعودی عرب کی علاقائی سلامتی کو خطرہ ہوا تو پاکستان بھرپور ردعمل پیش کرے گا۔ جبکہ جمعے کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے واضح کیا کہ یمن آپریشن میں حصہ لینے کا فیصلہ نہیں کیا گیا، لیکن اگر سعودی عرب کی جغرافیائی حیثیت کوخطرہ لاحق ہوا تو پاکستان دفاع کرے گا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم نے سعودی عرب کو اس صورتحال کو دیکھنے کی پیشکش کی، لیکن عرب لیگ نے یہ معاملہ اپنے ذمے لے لیا ہے۔ اب حکومت عرب لیگ کے اجلاس کا انتظار کر رہی ہے اور امید ہے کہ عرب لیگ یمن کے معاملے کو حل کرلے گی۔ اگر ضرورت پڑی تو اس معاملے کو او آئی سی میں بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہم کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے، جس پر 15 سال بعد افسوس ہو اور جس کے اثرات مسلم امہ پر پڑیں۔ وزیر دفاع نے مسلم امہ میں تنازعات کے خاتمے کے لیے بحیثیت ”سہولت کار“ پاکستان کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ان تنازعات کے خاتمے کے لیے کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ پاکستان کسی ایسے تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا جو مسلم امہ میں اختلافات کا باعث بن کر فرقہ واریت کو جنم دے اور جس کے نقصانات پاکستان کو برداشت کرنا پڑیں۔ موجودہ حالات میں نفاق کی بجائے اتحاد اور اتفاق کی ضرورت پر زور دیا۔ خواجہ آصف نے واضح کیا کہ کسی بھی فوجی اقدام سے پہلے پارلیمنٹ کواعتماد میں لیا جائے گا۔

سعودی عرب کی اپیل پر یمن میں پاکستان کی مداخلت کے حوالے سے خارجہ امور کے ایک پاکستانی ماہر طارق پیر زادہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان سے تعاون کی درخواست متوقع تھی۔اس امر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے تعاون مانگا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان انتہائی قریبی سٹریٹجک تعلقات ہیں تو اب پاکستان کو بس یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس تعاون کی نوعیت کیا ہو گی۔ پاکستان کو اس معاملے میں اپنے زمینی حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ جبکہ فارن پالیسی کے ایک ماہر مشرف زیدی کا کہنا ہے پاکستان کو اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ دیرینہ قریبی مراسم ہیں۔ جب1999 میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو گرفتار کیا تو انہیں سعودی حکمرانوں کی مبینہ مداخلت کے سبب ملک سے باہر جا کر سعودی عرب میں قیام کی اجازت دے دی گئی تھی اور پاکستان نے جب مئی1998میں بھارت کے جواب میں جوہری دھماکے کیے تو بین الاقوامی پابندیوں کے دور میں سعودی عرب نے تیل کی بلا معاوضہ رسد کے ذریعے پاکستانی معیشت کو سہارا دیے رکھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ ہر موڑ پر تعاون کیا ہے، کبھی پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا، لہٰذا اب سعودی عرب اگر پاکستان کو تعاون کے لیے بلاتا ہے تو پاکستان کو بھی سعودی عرب کی حمایت کرنی چاہیے۔ واضح رہے کہ پاکستان یمن میں فضائی کارروائی میں شرکت نہیں کر رہا اور نہ ہی فضائی کارروائی میں شریک ہونے کا ارادہ ہے، جبکہ سعودی عرب نے پاکستان سے زمینی کارروائی کے لیے تعاون طلب کیا ہے، جس کے بعد پاکستان اور مصر کی فوجوں کا یمن میں زمینی کارروائی کرنے کا امکان ہے۔ پاکستان کی فوج چونکہ زمینی کارروائی میں مہارت بے مثال ہے، اسی لیے سعودی عرب نے زمینی کارروائی کے لیے پاکستان سے مدد طلب کی ہے۔

دوسری جانب ذرائع کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے فضائی حملوں سے یمن میں خون ریزی میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے پورا خطہ اس کی زد میں آجائے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ یمن پر بیرونی قوتوں کی جانب سے حملے اس کی علاقائی سلامتی کے خلاف ہیں اور جس کا نتیجہ سوائے یمن کے لوگوں کے زیادہ خون بہنے کے اور کچھ نہیں نکلے گا، جب کہ فضائی حملے یمن میں خون خرابے میں اضافے کا باعث بنیں گے، اس لیے فوری طور پر حملوں کو روکا جائے۔ ذرائع کے مطابق ایران نے سعودی عرب میں بھی مداخلت کے عزائم ظاہر کردیے ہیں۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی ساتھی بااثر رکن پارلیمان علی رضاذکانی نے کہا ہے کہ تین عرب ممالک عراق، شام اور لبنان ہماری جیب میں آچکے ہیں۔ یمن بھی ہمارے کنٹرول میں آگیا ہے، جس کے بعد ہم سعودی عرب کی طرف بڑھیں گے۔ برطانوی خبرایجنسی نے ایران کے حوالے سے بتایا کہ ذکانی کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایرانی جنرل قاسم سیلمانی نہ ہوتے تو بغداد اور شام ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے۔ انہوں نے یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کے قبضے کو ”ایرانی انقلاب“ کی فطری توسیع قراردیتے ہوئے کہا کہ جلد اس کے بیس میں سے چودہ صوبے حوثیوں کے کنٹرول میں ہوں گے۔ایرانی رکن پارلیمان نے کہا کہ یمن کے بعد یہ سلسلہ رکے گا نہیں، بلکہ سعودی عرب کی طرف بڑھے گا۔ برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق عرب ممالک میں ایرانی مداخلت اور عرب سرزمین پر ایک نئی ”فارس اور شیعہ سلطنت“ کے قیام کی کوششوں کے پیچھے ایران کی القدس بریگیڈ کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہیں، جو ایک طرف عراق میں داعش کے سنی جنگجوﺅں کے خلاف لڑائی کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف شام اور بیروت میں ان کے قدم نظر آتے ہیں۔ عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصے سے ایرانی حمایت یافتہ حوثی تحریک یمن میں دہشت گردانہ دخل کی مرتکب ہو رہی تھی۔ جنگ سے پہلے مسائل کے حل کے لیے ہرممکن سیاسی اور پرامن ذرائع اختیار کیے جانے چاہئیں، لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اب ہر کوئی محسوس کررہا ہے کہ یمن کے مسئلے کے حل کے لیے جنگ کو صرف آخری آپشن کے طور پر ہی لیا جانا چاہیے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کو یمن کے برطرف شدہ صدرعلی عبداللہ صالح کی بھی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی جن میں اومان کے سوا سارے خلیجی ممالک، مصر، مراکش، سوڈان اور پاکستان شامل ہیں ،نے صدر ہادی کی اس اپیل کا جواب دیا اور سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر قیادت آپریشن فیصلہ کن طوفان شروع کردیا گیا۔ یمنی عوام کی اکثریت نے بھی دہشت گردی کے خلاف وسیع تر سعودی آپریشن کی مسلسل حمایت کی ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حوثی باغیوں کا یمن میں ایک منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرنا کسی طور بھی قبول نہیں ہوسکتا، یہ عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے اور ایران کے توسیع پسندانہ خیالات اوراسی تناظر میں حوثی باغیوں کی حمایت مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں کے لیے کسی درست ہیں۔ ایران کے توسیع پسندانہ کاررائیوں کو روکنے کے لیے سعودی عرب کی جانب سے یمن میں باغیوں کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700643 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.