سعودی عرب اور اخوان المسلمین دو نئے اتحادی

کچھ ہفتہ قبل ارکان حزب اصلاح یمن(اخوان المسلمین ) نے سعودی عرب کا غیر متوقع دورہ کیا کہ جو سعودی عرب کی واضح بدلتی اسٹراجٹی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس تنظیم کو مارچ 2014 میں سعودی عرب ایک دہشت گرد تنظیم ڈکلیر کر چکا تھا، وہی تنظیم اس دورہ میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر مستقبل کے لیے لائحہ عمل بنانے میں مصروف تھی، اس لائحہ عمل میں خطے کے بدلتے ہوئے حالات بلخصوص شام، عراق اور یمن میں اس ملاقات کا اہم ایجنڈا تھے، کہ جو سعودی عرب میں بھی حالات بدلنے کا اہم عامل سمجھےجاتے تھے۔

منطقے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات میں سے سال ہا سال اچھے تعلقات ہونے کے باوجود یمن سعودی عرب کے لیے پریشانی کا اہم عنصر ہے ، ملک عبدالعزیز آل سعود، سعودی عرب کے بانی کی وصیت کے مطابق جو کہ یہ تھی" تمھاری عزت یمن کی ذلالت میں اور یمن کی عزت تمھاری ذلالت میں ہے" سعودی عرب ہمیشہ اس کوشش میں رہا ہے کہ یمن ہمیشہ مشکلات اور ایک کمزور ملک کی صورت میں باقی رہے۔

ممکن ہے ایک طاقتور اور متحد یمن سعودی خاندان کے لیے مشکلات ایجاد کرے کیوں کہ یمن اپنے علاقے میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہےاور تقریبا اڑھائی کروڑ آبادی پر مشتمل کہ جسکاایک بڑا حصہ مسلح اور مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ جب سعودی عرب نے بہت سے یمنی قبائل نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا تو یہ مرکزی حکومت کے لیے ایک بڑا بوجھ ثابت ہورہے تھے۔

جب بھی یمن نے استقلال اور ترقی کی جانب قدم بڑھائے، تو اسکی سب سے بڑی رکاوٹ سعودی عرب بنا تھا ، اور سو دی عرب دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ ملکر یمن پر دباو بڑھا دیتا تھا کہ اگر یمن نے ایسا کوئی قدم اٹھایا تو باقی ممالک اس کے ساتھ تعلقات ختم کر دیں گے،اسی طرح سعودی عرب نے تقریبا 10 لاکھ کے قریب یمنی باشندوں کو کہ جو کہ سعودی عرب میں زندگی گزار رہے تھے ، انکو سعودی عرب سے نکال دیا گیا ۔
موجودہ صورتحال میں سعودی عرب یمن سے اپنا تسلط اور اثر و رسوخ کھو بیٹھا ہے، جیسا کہ موجودہ حالات میں سعودی عرب کی یمن کے ساتھ کوئی اہم قرار داد بھی نہیں ہے، البتہ یہ مسئلہ علی عبداللہ صالح کے اتحاد اور جنرل علی محسن الاحمر کے یمن سے فرار ہو کر سعودی عرب میں پناہ لینے کے بعد شروع ہوا۔ اور اسی طرح یمنی تنظیم انصاراللہ کے نفوذ کے بعد اس مسئلے نے اہمیت اختیار کی۔سعودی عرب مضطرب نظروں سے انصاراللہ کی طرف نگاہ کیے ہوئے تھا، کیوں کہ سعودی عرب جانتا ہے کہ یہ گروہ یمن اور پورے خطے میں ایک پاورفل عسکری تنظیم کے طور پر اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کی بھی طاقت رکھتا ہے۔ اور انصار اللہ کی خود مختار پالیسی یمن میں دوسرے ممالک کا عمل دخل کم کر دے گا لہذا یہ امریکا کے خلاف کہ جو کہ سعودی عرب کا اتحادی ہے ، مہم کا آغاز کر دے گا، اور یہ بھی ممکن کہ کہ انصار اللہ ایران کی زیر نظر رہے کہ جو سعودی عرب کا روایتی دشمن سمجھا جاتا ہے۔

دوسری طرف سعودی عرب کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ جن دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی خود سعودی عرب کرتا رہا ہے اور اپنے مخالف ممالک پر دباو بڑھانے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے اور بلخصوص یہ گروہ آج سعودی عرب کے تسلط سے نکل چکے ہیں حتی اس ملک کے دشمن کے طور پر پہچانی جاتی ہیں انھی میں سے ایک داعش ہے کہ جس نے آشکار سعودی عرب کو دھمکی دی ہے اور داعش نے عراق میں سعودی عرب بارڈر کے نزدیک بھی آپریشن کیا ہے اور اس میں سعودی عرب کے باشندوں کو بھی قتل کیا ہے، حتی کہ انھوں نے مکہ اور مدینہ کے لیے بھی اپنے امیر کا اعلان کر دیا ہے، لہذا اگر یمن میں مشاہدہ کریں تو القاعدہ نے داعش کی بیعت کر لی ہے اور آج اخوان المسلمین کو سعودی عرب کی پناہ گاہ کے طور پر تعین کیا گیا ہے۔
یمن میں سعودی عرب کو اخوان المسلمین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں تنبیہ

حقیقت میں سعودی عرب کا اخوان المسلمین کا روایتی دوشمن رہا ہے مخصوصا مصر میں بر سر اقتدار ہونے کے بعد۔ ریاض حزب اصلاح کے ساتھ ارتباط قائم کرنے میں بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتا تھا، لیکن یمن کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر اس جماعت کی مدد ضروری ہے، اور ایک دوسرے کے ساتھ ملکر ہی وہ انصاراللہ کو شکست دے سکتے ہیں، اگر اس سے بھی ریاض کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تا خلیج فارس، امریکا، اور دیگر ممالک کی مدد سے اس کاروائی کو یمن کے خلاف انجام دیں گے۔

سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل جدید سیاسی مقدمات فراہم کرنے کے لیے بیان دیا تھا کہ " ہمیں اخوان المسلمین سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، مشکل صرف ان چند لوگوں سے ہے کہ جنہوں نے اپنے مرشد اور رہبر کی بیعت کی ہے"

البتہ اخوان المسلمین اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پُر خطر ہیں کیوں کے یہ دونوں ہمیشہ ایک مختلف تاریخ اور فکر کے مالک رہے ہیں۔ یمنی حزب اصلاح کو کسی بھی صورت میں سعودی عرب اور یمن کی تاریخ اور انکے تعلقات اور سعودی حکام کی یمن سے متعلق نظر کو بھولنا چاہئیے۔اور انصار اللہ نے یمن میں تمام جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دی تھی اور کسی ایک گروہ کو بھی مستثنی قرار نہیں دیا تھا، اس لیے انہیں سعودی عرب کی اس سیاست کہ یمن میں شام جیسے حالات پیدا کیے جائیں سے دور رہنا چائیے تھا، کیوں کہ اس صورت میں یمن خونی اور دردناک انجام سے بچ سکتا تھا۔

دوسری طرف سعودی عرب کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے سوچا تھا کہ انصار اللہ پر دباو بڑھانا انکے لیے سود مند ہو گا جبکہ انصاراللہ کو یمن میں لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کی حمایت حاصل ہےکہ جو داعش کے خلاف خلیجی ممالک میں داخلہ کے لیے سیسی پلائی دیوار کی طرح ثابت ہوئی ہے۔ اور اسکا اثر یمن کے جنوبی علاقوں پر بھی ہو گا کہ جسکا اثر مستقیم سعودی عرب پر ہوگا۔
rizwan haider sherazi
About the Author: rizwan haider sherazi Read More Articles by rizwan haider sherazi: 3 Articles with 2021 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.