ٹیلنٹ اور ’’بیوقوف حکومتیں‘‘
(Farrukh Shahbaz, Lahore)
یہ 2012کے وسط کی بات ہے کہ ایک
نوجوان کا اچانک سے خوب چرچا ہونے لگا تھا۔ ریاست کیرالا کے ضلع کوٹایم کے
علاقے منی مالا کے رہائشی ارون وجے کمار کے بارے میں بتایا گیا کہ اسے
امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے بہ طور سائنس داں کام کرنے کی پیش کش کی ہے
مگر اس ملازمت کے لیے اسے بھارتی شہریت ترک کرنا ہوگی جس کے لیے وہ تیار
نہیں ہے۔ارون کمار کے لیے ناسا کی پیش کش کو جہاں ملک و قوم کے لیے اعزاز
قرار دیا گیا وہیں وطن سے اس کی محبت کو بھی سراہا گیا۔ یوں یہ نوجوان
راتوں رات ہندوستان میں مشہور ہوگیا۔ ارون کی ذہانت، قابلیت اور حب الوطنی
کے اتنے چرچے ہوئے کہ وزیراعظم نریندر مودی بھی اس سے ملاقات کے متمنی
ہوگئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستانی شہریت ترک کرنے میں ارون کے تذبذب
کو دیکھتے ہوئے امریکی خلائی ایجنسی ’ ہونہار ‘ بھارتی سپوت کے لیے شہریت
سے متعلق اپنے قواعد و ضوابط میں بھی ترمیم کرنے پر راضی ہوگئی تھی۔
26 سالہ ارون نے دعویٰ کیا تھا کہ ناسا نے اسے ریسرچ سائنٹسٹ کی حیثیت سے
ملازمت کی پیش کش کی ہے۔ جنوری 2013 ء میں ارون نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے
معروف سائنس داں باربرا لسکوف کے زیرنگرانی تحقیقی مقالہ مکمل کرنے کے لیے
میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( ایم آئی ٹی) میں داخلہ بھی مل گیا ہے۔
بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ارون کو اسٹینفرڈ یونی
ورسٹی اور کورنل یونی ورسٹی کی جانب سے بھی پی ایچ ڈی کرنے کی پیش کش ہوئی
تھی مگر اس نے ایم اآئی ٹی کا انتخاب کیا اور وزارت دفاع کی جانب سے ناسا
میں ملازمت کی پیش کش قبول کرلی۔روزنامہ ’’ دی ہندو‘‘ نے اس نوجوان ’سائنس
داں‘ کا انٹرویو بھی کیا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ ناسا میں ریسرچ سائنٹسٹ کی
حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے
خلائی مخلوق کا کھوج لگائے گا۔ انٹرویو کے دوران ارون نے کہا کہ اسے
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اداروں میں کام کرنے سے کوئی دل چسپی نہیں۔ ارون نے
سابق صدر اور انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے سائنس داں عبدالکلام کو اپنی
پسندیدہ شخصیت قرار دیا۔ ارون کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کرنے کے
دوران اس نے عبدالکلام کے ساتھ باہمی دل چسپی کے موضوعات پر تبادلہ خیال
بھی کیا تھا۔وزیراعظم نریندر مودی نے جب اپنے ملک کے اس ’ جینیئس‘ اور ’
محب وطن ‘ نوجوان کے بارے میں سنا تو وہ اس سے ملنے کے مشتاق ہوگئے اور
ملاقات کے لیے اسے اپنی رہائش گاہ پر طلب کرلیا۔ وزیراعظم نے ارون سے یہ
بھی کہا کہ بھارتی خلائی ادارے کے دروازے اس کے لیے ہمیشہ کھلے رہیں
گے۔ابھی چند روز پہلے کی بات ہے جب یہ انکشاف بھارت کے لیے برا ثابت ہوا ہے
کہ ارون نہ تو ناسا کا ملازم ہے اور نہ ہی اسے خلائی ایجنسی کی جانب سے
کبھی ایسی کوئی پیش کش ہوئی تھی۔ بھارت کا یہ ’ قابل فخر‘ سپوت دو سال سے
پوری قوم کو بے وقوف بنا رہا تھا۔ ارون کا بھانڈا کیرالا کی پولیس نے پھوڑا۔
کیرالا کے پولیس ڈپارٹمنٹ میں آن لائن دھوکا دہی کے کیس نمٹانے کے لیے ایک
خصوصی شعبہ قائم ہے۔ مذکورہ شعبے کے اہلکار ارون کے دعووں کی جانچ پڑتال
کرنے کے لیے ایم آئی ٹی پہنچے۔ وہاں ان پر انکشاف ہوا کہ یہاں ارون وجے
کمار نامی کوئی بھارتی پی ایچ ڈی کا طالب علم نہیں ہے۔مزید تفتیش کرنے پر
انھیں یہ بھی علم ہوگیا کہ ناسا میں بھی اس نام کا کوئی شخص ملازم نہیں ہے۔
ارون کی اصلیت سامنے آنے کے بعد جہاں عام بھارتی اسے برا بھلا کہنا شروع کر
دیا وہیں بھارتی میڈیا نے بھی ارون پر برسنا شروع کردیا۔حالانکہ یہ وہی
لڑکا ہے جسے بھارتی میڈیا آسمان کی بلندیوں پر لے کر گیا تھا۔اپنے ہمسایہ
ملک کی بیوقوفی سے مجھے اپنے آغا وقار یاد آگئے،ہوسکتا ہے پاکستانی قوم اب
تک موصوف کو قصہ پارینہ سمجھ کر بھول چکی ہو۔یہی کوئی تین سال پہلے کی بات
ہے جب بھارت میں ارون اپنے دیش کو ’’چونا‘‘ لگانے میں مصروف تھے اس وقت
ہمارے ہاں یہ نیک کام آغا وقار سر انجام دے رہے تھے۔ان دنوں کی میڈیا
رپورٹس ملاحضہ کیجیے۔
’’پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے اور اندرون ملک ایندھن
کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 85 فیصد تیل درآمد کیا جاتا ہے جس کی ادائیگی
غیر ملکی برآمدات اور ترسیلاتِ زر سے حاصل ہونے والی آمدن سے کی جاتی ہے۔ان
حالات میں آغا وقار احمد نامی ایک پاکستانی انجینیئر نے پانی سے گاڑی چلانے
کا حیرت انگیز مظاہرہ کر کے سنگین مالی مسائل کے شکار اپنے ملک کو یقیناً
ایک بڑی خوشخبری دی ہے۔سندھ سے تعلق رکھنے والے انجینیئر وقار احمد نے ایک
روز قبل اسلام آباد میں پاکستانی اراکین پارلیمان اور سائنسدانوں کے سامنے
پیٹرول یا سی این جی کی بجائے پانی سے گاڑی کو چلا کر سب کو ششدر کر دیا
ہے۔وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس پاکستانی انجینیئر نے پانی کو ایندھن
میں بدلنے کی واٹر فیول کٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے اس اعتماد کا اظہار کیا
کہ قومی سطح پر اس منصوبے کو ترقی دے کر ملک کو درپیش توانائی کے بحران سے
نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سرکاری ادارے ’پاکستان کونسل آف سائینٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ‘ کے چیئرمین
ڈاکٹر شوکت پرویز نے انجینیئر وقار کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پانی
کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کی یہ ایجاد ملک کو درپیش توانائی کے
بحران سے نکالنے میں مدد دے سکتی ہے۔اْنھوں نے کہا کہ صرف گاڑی کی حد تک
نہیں بلکہ بجلی کی پیداوار اور ریل انجن چلانے کے لیے بھی اس ٹیکنالوجی سے
استفادہ کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔اس حیرت انگیز کارنامے پر پاکستانی
میڈیا نے آغا وقار پر دادوتحسین کے ایسے ڈونگرے برسائے کہ مت پوچھیے۔ہمارے
ایک صحافی بھائی نے بغیر تحقیق کہ دعوی کر ڈالا گیس کی لوڈشیڈنگ ہے،بجلی کی
لوڈشیڈنگ ہے اور سارے ملکی مسائل جو ہمیں درپیش ہیں وہ اس ایجاد سے ختم ہو
جائیں گے …. ایسی ٹیکنالوجی اس سے پہلے دنیا میں کہیں متعارف نہیں ہوئی کہ
پینے والے پانی سے آپ آٹو انجن چلا سکیں۔‘‘تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ
آج تک اس’’تیس مار خان‘‘ سے کسی نے پوچھنے کی زحمت کی کہ حضور والا آپ نے
پوری قوم کو کیوں الو بنائے رکھا ،جبکہ اس کام کے لیے ہم نے سیاستدان پال
رکھے ہیں۔خیر نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ ابھی بھی ہمارے پاس’’ ٹیلنٹ‘‘ کی
کمی نہیں۔ہمارے ہاں ایسے ’’گوہر نایاب‘‘ موجود ہیں جو حکومتوں تک کو بیوقوف
بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔! |
|