جدید سیاسیات میں فلسفے کی ضرورت ؟

موجودہ دور میں حکمرانی کا وہ تصور نہیں رہا جو ماضی ٔبعید میں ہواکرتاتھا ،جب ایک بادشاہ کی ذات کے اردگردتمام سیاسیات گھومتی تھیں ، وہی عقل کُل ،وہی حاکم ، وہی سیاستداں ،وہی قاضی اور وہی جرنیل ،اب عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ تین بڑے شعبے ایک دوسرے سے آزاد لیکن باہم مربوط انداز میں کام کرتے ہیں ،پھر بھی کہیں عدلیہ ،کہیں مقننہ ،کہیں انتظامیہ پاور فل نظر آتی ہیں ،میڈیا نے بھی ایک ستون کی حیثیت حاصل کرلی ہے ،سیکورٹی فورسز،انٹیلی جنس ادارے ، بیوروکریسی اور اسٹبلیشمنٹ کی اپنی دنیا ہے ،صوبے اندرونی خودمختار علاقے اور لوکل گورنمنٹس میں انتظامی ،قانونی اور انتظامی ڈھانچے س کے علاوہ ہیں ، اوپر ملٹی نیشنل کمپنیاں ،ادارے ،تنظیمات ،اقوام متحدہ اور ورلڈبینک وغیرہ اس پر مستزاد ہیں ، گوکہ بظاہر ممالک اور حکومتیں آزاد نظر آتی ہیں ، لیکن وہ بین الاقوامی حدود وقیود میں جکھڑی ہوتی ہیں ، ایسے میں عملی سیاست ایک مشکل مضمون بن گیاہے ، جس کے لطائف ودقائق سمجھنے کے لئے فلسفے کی دانش بھی ضروری ہے ، فلسفے کی جو تعریفیں کی گئی ہیں ،ان میں سب سے جامع تعریف یہ ہے :’’ التفکیر في التفکیر‘‘ یعنی افکار ونظریات میں غور وفکر۔ فلسفے کی تین قسمیں ہیں ،ان میں سے پہلی دونوں نظری ہیں۔مشائیہ ،اشراقیہ اور عملیہ ،مشائین عقل وادراک کے تناظرمیں فکر ونظرکی تحقیق کرتے ہیں ، اشراقیین مراقبے اور ریاضتیں کر کے مکاشفات والھامات سے استفادہ کرتے ہیں ، چنانچہ قدیم یونانی مناطقہ، متکلمین ،فلاسفراور اسلام میں باطنیہ مشائین ہیں ۔ہند کے قدیم فلسفی،نیز عام اسلامی صوفیا ء اشراقیین کے زمرے میں آتے ہیں۔تیسری قسم اسلام میں ظاہریہ ،یورپین اور دور جدید کے اکثر فیلسوف جو اشیاء میں ظاہری یامعنوی جوڑ توڑ کرکے نئی ایجادات کرتے رہتے ہیں ، اسے عملی یاظاہری فلسفہ کہاجاسکتاہے ، ہمارے پاس اس وقت ان تینوں فلسفوں میں بحیثیت فلاسفہ قحط الرجال ہے ، امہ میں او آئی سی کی بنیاد بطور تھنک ٹینک اسی لئے رکھی گئی تھی ، وہ مگر ’’عُنقا‘‘پر ندے کی طرح ہے ، جس کا نام ہے اور وجود ندارد۔

دین کا تعلق عشق سے ہوتاہے کہ باری تعالی سے جذباتی تعلق ہو ، اسی لئے دین عمومی طور پر قلوب اور دلوں کو مخاطب کرتاہے ،دین میں روحانیت اور نظام کی جامعیت ہے ،پیغمبر اس کا عملی نمونہ ہے،جبکہ فلسفے کاتعلق دماغی فکر ونظرسے ہے ،نیز دینی احکام قطعی اور یقینی ہوتے ہیں ، جن میں احتمالِ خطأ نہیں ہوتا،فلسفے میں سفسطے اور اغلوطے کی بناء پر احتمالِ خطأ بہت ہوتاہے ، یہی وجہ ہے کہ دینی احکام کے پیامبر کبھی سرگرداں وپریشاں فکر نہیں ہوتے ، جبکہ فلاسفہ شعراء کی طرح ہمیشہ سرگرداں ہوتے ہیں ، خیالات پر عمارت کھڑی کی ہوتی ہے ، جہاں صدیوں میں بڑی مشکل سے کوئی ایک فلسفی اپنے بعض افکار میں حقائق تک رسائی حاصل کرتاہے،لیکن بزعمِ خویش ہر کوئی اپنے کو افلاطون سمجھتا ہے،علامہ اقبال مرحوم نے اسی لئے توکہاہے :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ۔ بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا

حضرات ِانبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام اسی لئے عقلی دلائل کے بجائے معجزات سے اپنے زمانے کے لوگوں کو قائل کرتے ہیں، وہ فنافی اﷲ ہوتے ہیں ، عشق الہی میں وہ ظاہری اسباب کی پرواہ نہیں کرتے ،انہیں اپنے رب کے احکامات پر قلبی تیقُّن، سکون اور اطمینان ہوتاہے ،
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھئے :
بے خطر کو دپڑا آتشِ نمرود میں عشق۔عقل ہے محوِتماشائے لب ِبام ابھی۔

بے عملی کی زندگی ہو ، اﷲ رسول ﷺ سے عشق نہ ہو اور دعوے مشیخت اورد انائی وحکمت کے ہوں ، ایسوں کے متعلق اقبال نے کہا:
خرد نے کہہ بھی دیا لاالٰہ ،توکیا حاصل ۔ دل ونگاہ مسلماں نہیں، تو کچھ بھی نہیں ۔
مرد ِخدا کا عمل ،عشق سے صاحب ِفروغ ۔ عشق ہے اصل حیات ،موت ہے اس پر حرام
عشق دم ِ جبرئیل ،عشق دمِ مصطفی ۔ عشق خدا کا رسول ،عشق خدا کا کلام
عشق کے تقویم میں عصر رواں کے سوا ۔ او رزمانے بھی ہیں ،جن کا نہیں کوئی نام
عقل عیارہے ،سو بھیس بدل لیتی ہے ۔ عشق بے چارہ ،نہ ملاّہے نہ زاہد نہ حکیم
تازہ میرے ضمیر پر معرکۂ کہن ہوا۔ عشق تما م مصطفی ،عقل تمام بولہب

اقبال کے اس کلام سے ہرگز یہ نہ سمجھاجائے کہ وہ جہاں بانی میں عقل وخرد کو یکسر مسترد کررہے ہیں ،ایسانہیں ہے ، بلکہ وہ امامِ غزالی اور شاہ ولی اﷲ کے مانندیہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہی دونوں ارتقا کی چوٹیوں پر ہیں ، بس الٰہیات میں وہ عقل کے بجائے عشق کو اس سے بلندوبرتر سمجھتے ہیں ،اسی سے کام لینے کا مشورہ دے رہے ہیں ،جس کی ایک جست سے سارا قصہ تمام ہوجاتاہے ، یعنی جس فاصلے کو انسان لامحدود وبیکراں سمجھتاہے ، عشق ایک ہی چھلانگ میں وہاں اسے عبور کرادیتاہے ، یادرہے یہ ساری باتیں عشق حقیقی کی ہورہی ہیں ، عشق مجازی یا عشق کاذب میں یہ صفات نہیں ہیں ،عشق مجازی کا تعلق زیادہ تر بصارت سے ہوتاہے جبکہ عشق حقیقی کا تعلق بصیرت وادراک سے ہوتاہے ،اقبال کاارشادہے :
عالم ہے فقط مؤمن جانباز کی میراث ۔ مؤمن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے
کوئی اندازہ کرسکتاہے اس کے زورِ بازوکا۔ نگاہ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اقبالیات کے بہت سے ماہرین یہاں ’’مرد مؤمن‘‘ سے کبھی اس بارے میں مولانا ئے روم کا تخیل مراد لیتے ہیں ، کبھی مشکوَیہ کا ، کبھی عبدالکریم البجیلی کا ، اور کبھی جرمن فلاسفر نطشے کے ’’سپرمین ‘‘کا ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کایہ تخیل قرآن وسنت کی تعلیمات سے مستعار ہے، کہیں اور سے نہیں ، کیونکہ ان کا اس حوالے سے بہت عمیق اور وسیع وعریض مطالعہ تھا ، اقبال اولاً عاشق ثانیاً فلسفی تھے،آ ج لوگ شیطان کی طرح پہلے فلسفی پھر عشق کا دعواکرتے ہیں،بہرحال وہ خودہی اپنے اس تخیل کی تعریف یوں کرتے ہیں :
اس کی امیدیں قلیل ،اس کے مقاصد جلیل
ا سکی ادا دلفریب ، اس کی نگہ دلنواز
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو ،پاک دل وپاکباز
ہوحلقہ ٔ یا راں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ ِحق وباطل ہو تو فولاد ہے مؤمن
سجس سے جگرِ لالہ میں ٹھندک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
ہر لحظہ ہے مؤمن کی نئی شا ن نئی آن
گفتار میں کردار میں اﷲ کی برہان
قہاری وغفاری وقدوسی وجبروت
یہ چارعناصر ہوں تو بنتاہے مسلمان

پاکستان میں ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘بنیادی طورپر امریکن ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ کے طرز کا ایک ادارہ تھا،جہاں ماضی میں بد قسمتی سے ڈاکٹر فضل الرحمن اور خالد مسعود جیسے دین پر دنیا وی مفادات کو اور عشق پر عقلِ محض کو ترجیح دینے والے نام نہاد مفکرین براجمان رہے، جنہوں نے ادارے کی روح کوبری طرح مجروح کیا،فقہی پہیلیوں میں اسے الجھائے رکھا، نتیجہ یہ ہوا کہ اب اس موقر ادارے کو اپنے قبلے تک کی صحیح معلومات نہیں ہیں،اﷲ کرے موجودہ چیئرمین شیرانی صاحب کچھ کر جائے، ہونا یہ چاہئے کہ عقل کو نقل کے تابع کیاجائے ، نظریاتی فلسفے کو یقینیات ِدین کا خادم بنایا جائے ، قیادت ،سیادت اور سیاست کے سپرمین حضرات میں مرد مؤمن کی نگاہِ عشق ہو اور ان کے ِاتِّباع میں چلنے والے ادارے اور رجال ِ کا رجدید سیاسیات کی جدید فلسفوں اورنظریوں سے مقارنہ کرکے نچوڑ اس کے سامنے پیش کیاکریں ، اس کی نگاہ ِ انتخاب جہاں ٹہرے اس پر عمل در آمد ہو ، ملک وملت کے لئے 23مارچ 1940کو جوواضح نصب العین دیاگیاتھا،اسی کو ہمیشہ کے لئے روڈ میپ سمجھا جائے ،خامخواہ کے جدلیاتی مباحث میں طے شدہ امور کو باربار نہ ڈالا جائے ،کلیات کا تعین پہلے سے ہو ، جزئیات طے کرنے کیلئے زمان ومکان کی ضرورتوں کو مدنظر رکھاجائے ،فلسفے اور نظرئے کے ساتھ ملک وملت کے خلاف دشمنوں کی سازشوں پر بھی گہری اور تاریخی نگاہ ہو ، اگر ایسا ہوجائے ،تو عین ممکن ہے کہ ہمارایہ ملکِ خداد’’اسلامی جمہویہ پاکستان‘‘ اور عالم اسلام تیزترترقی کی راہوں پرگامزن ہوں۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877996 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More