آخر کب تک ناحق لوگوں کا خون بہتا رہے گا
(mohsin shaikh, hyderabad)
یوحنا آباد گرجا گھر میں ہونے
والا حملہ قابل مذمت ہے۔ اور اس سے زیادہ قابل مذمت شک کی بنا پر دو افراد
کو زندہ جلائے جانے کا واقعہ ہے۔ شک کی بنا پر دو بے گناہ افراد کا قتل
پوری انسانیت کا قتل ہے۔ 16 دسمبر سانحہ پشاور ملکی تاریخ کا سب سے بڑا
سانحہ تھا۔ جس میں 132 ننھے معصوم بچوں سمیت 150 افراد شہید ہوئے شہدہ کے
لواحقین نے تو شک کی بنا پر کسی کو نہیں جلایا نہ کسی کو مارا نہ کوئی توڑ
پھوڑ کیں۔ ان ننھے شہید بچوں کی مائيں تو آج تک اپنے جگر گوشوں کی نشانیوں
انکی تصویروں کو دیکھ کر اور اپنے پھولوں کی خوشبوں کی کمی کو محسوس کرکے
آج بھی خون کے آنسو رو رہی ہیں۔ کیا ان مائوں نے شک کی بنا پر کسی ماں کے
ٹکڑے کو بے دردی سے جلایا تھا کسی ماں کی گود کو اجاڑا تھا۔ اپنے قیمتی
اثاثوں کو ہمیشہ کے لیے کھو کر بھی شہدہ کی مائوں نے اف تک نہیں کیں آج تک
صبر کے دامن کو نہیں چھوڑا۔ حالانکہ آج تک ان مائوں کے سینے زخموں سے چور
ہیں۔ سلام پیش کرتے ہیں ایسی عظیم شجاعت کے جذبوں سے سرشار مائوں کو جنہوں
نے اپنے ننھے بہادر سپوتوں کو کمسنی میں ہی وطن کے لیے قربان کردیا۔
اپنا سب کچھ کھونے کے بعد بھی نہ ملک کی املاک کو نقصان پہنچایا نہ کسی کی
جان و مال کو ہذا پہنچائی۔ تو یہ کس مٹی کے بنے لوگ تھے۔ جنہوں نے دو افراد
کو زندہ جلا کر ظلم بربریت کی انتہا کردی اور اس بے دردی کے ساتھ جلایا گیا
جیسے کسی لکڑی کو جلایا جاتا ہے۔ کیا یہ ماں کے دودھ کی جگہ سانپوں کا خون
پی کر پلے ہیں۔ جلائے جانے والے ایک شخص کی شناخت نعیم کے نام سے ہوئی ہے،
جو ایک محنت کش انسان تھا۔ شیشے کاٹنے کا کام کرتا تھا۔ مشتعل مظاہرین کے
ہتھے چڑھا اور موت کے منہ میں چلا گیا۔ مشتعل درندوں نے پہلے بد ترین تشدد
کرکے قتل کیا اور پھر انکی لاشوں کو جلا دیا گیا۔ یہی نہیں جلاتے وقت
درندوں کے ہجوم نے تصویریں بھی بنائیں۔ ان تصویروں میں آپ آخری سانس لیتی
انسانیت کو دیکھ سکتے ہیں۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو شک کی بنا پر قتل
کردینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ یہ پہلا واقع نہیں ہے، آج سے چند برس پہلے
سیالکوٹ میں بھی طاقت کے زور پر غریب متوسطہ گھرانے کے دو بھائیوں کو بھرے
ہجوم میں ڈنڈے مار مار کر قتل کیا گیا تھا۔
سیالکوٹ واقع کے موقع پر جب انسانیت کو ڈنڈوں سے ختم کیا جارہا تھا۔ عین
موقع پر قانون کے محافظ با وردی ہوکر کھڑے تھے۔ جنہیں میڈیا کی آنکھوں نے
شفاف طریقے سے دنیا بھر میں دیکھایا تھا۔ مگر صد افسوس کہ قانون کے رکھوالے
طاقت کے زور پر انسانیت کو بچا نہیں سکے۔ یہ تاریخ کا سیاہ ترین دل دہلا
دینے والا واقع تھا۔ میڈیا نے عوام نے اس پر بہت شور وا ویلا کیا مگر نتیجہ
وہی صفر رہا۔ اس کے بعد شازیب قتل کیس کا واقع ہوا جس میں وڈیرے کے بیٹے نے
طاقت کے نشے میں اعلی پولیس افسران کے مظلوم بیٹے کا بیمانہ قتل کیا۔ اس پر
سول سوسائٹی میڈیا نے بہت احتجاج کیا مگر قانون عدالت ایک اعلی پولیس
افسران کو بھی انصاف فراہم نہیں کرسکی۔ اور کچھ ماہ پہلے ایک مسیحی جوڑے کو
توہین مذہب لگا کر بھی زندہ جلا دیا تھا۔ اس پر بھی میڈیا نے خوب شور مچایا
ہر ایک ماتم کناں نظر آیا۔ بات یہ ہے کہ قانون انصاف کی فراہمی ہمارے
معاشرے میں نا پید ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر واقع پر عوام کا مشتعل ہونے
کے رجہان میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہر کوئی قانون اپنے
ہاتھ میں لینے لگا ہے۔
پہلے گاڑیوں پٹرول پمپوں املاک کو توڑا پھوڑا جاتا تھا۔ جلائوں گھیرائوں
لوٹا ماری کیں جاتی تھیں۔ یہ سلسلے ختم بھی نہیں ہو پائے کہ اب بے گناہوں
کی جانیں لی جانیں لگیں ہیں۔ کچھ شک کی بنیاد پر تو کچھ طاقت کے نشے میں جس
معاشرے میں انصاف کی فراہمی ہی نہ قانون کی عمل داری نہ حکومتی رٹ نہ ہو۔
تو پھر عوام مشتعل ہوکر قانون کو ہاتھ میں لے گی۔ گرجا گھر پر ہونے والا
حملہ افسوسناک واقع ہے۔ مگر اس سے زیادہ دو افراد کو جلائے جانے کا واقع
زیادہ تشویشناک عمل ہے۔ گرجا گھر پر حملے میں بھی بے گناہ انسان کو مارا
گیا اور دو افراد کو بھی بے گناہ موت مارا گیا تو بھئی دونوں صورتوں میں
قتل تو انسانیت کا ہی ہوا نا۔ ہمارے حکمرانوں کو سوائے اپنی کرسی کے عوام
کے جان و مال کے تحفظ سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ قانون یہاں غریبوں بے گناہوں
پر زیادہ چلتا ہے۔ اصل مجرم پکڑے بھی جائے تو فورا ضمانت پر رہا ہوجاتے
ہیں۔ عدلیہ کہنے کو تو آزاد ہیں۔ مگر شفاف انصاف کی فراہمی میں ناکام ہیں۔
سانحہ پشاور کے بعد حکومت نے سزائے موت پر پابندی کو ختم کیا۔ پھر قومی
ایکشن پلان کمیٹیاں بنائی گئیں۔ مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کا
تہیہ کیا گیا۔ مگر پھر یہی نیشنل ایکشن پلان ست روی کا شکار ہوگیا۔ وزیر
داخلہ چوہدری نثار واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ہم ہر عبادت گاہوں کو
سکیورٹی کی فراہمی نہیں کرسکتے۔ ملک کے ہر سیاستدان کے گھر یہاں تک کہ رشتے
داروں کے گھر پر بھی سکیورٹی کے لشکر کے لشکر کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ اور عبادت
گاہوں پر دو تین گارڈ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے کھڑے نہیں کیے
جاسکتے۔ پاکستان میں اب ہر ایک شیر بن چکا ہے۔ میڈیا کچھ نام نہاد اور روشن
خیال کہتے ہیں کہ لاہور دھماکے کے بعد جو کچھ ہوا وہ فطری رد عمل تھا۔ اسکا
مطلب ہے کہ دھماکے کے بعد جو داڑھی والا شخص نظر آئے اسکو تشدد کرکے زندہ
جلا دیا جائے۔ یہ بھی ایک فطری رد عمل ہوگا۔ یہ عمل اگر مسلمانوں کی فطرت
کا حصہ بن گیا تو پھر امریکہ اور دیگر عیسائی ممالک میں جو کچھ کررہے ہیں
پھر کسی اسلامی ممالک میں عیسائیت زندہ نہیں رہے پائے گی۔ ہم نے تو پادریوں
ملعون کے ہاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی اور گستاخانہ کارٹونسٹس توہین رسالت
کے باوجود بھی اسلامی ملکوں میں بسنے والے کسی عیسائی کو خراش تک نہیں
پہنچائی۔ ہمارے شہروں مسجدوں مزارات اور امام بارگاہوں پر اور تین ماہ قبل
پشاور اسکول میں بم دھماکے ہوئے۔ لاشوں کے انبار لگے خون کی ندیاں بہائی
گئيں۔ کیا کبھی کسی مسلمان نے شک کی بنا پر کسی غیر مسلم سے انتقام لیا
تھا۔ نہیں کیونکہ ہمارا مذہب اسکی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے معاشرے میں بجائے
ظلم بربریت کو لگام ملنے کے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہیں۔ پانچ گھنٹوں تک لاشے
جلتی رہی اس کا ذمہ دار کیسے ٹھہیرایا جائے گا۔ انتظامیہ کو یا قانون نافذ
کرنے والے اداروں کو۔ آخر کب تک نا حق بے گناہ لوگوں کا خون بہتا رہے گا۔ |
|