یمن میں محصور پاکستانیوں کا انخلا تیز کرنے کی ضرورت
(عابد محمود عزام, karachi)
یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف
سعودی عرب کے فضائی حملوں کے بعد یمن کے حالات دن بدن کشیدہ ہوتے جارہے
ہیں۔ سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحادی ممالک کے یمن میں حوثی باغیوں کے
خلاف فضائی حملے چوتھے روز بھی جاری رہے۔ بمباری سے دارالحکومت صنعا کے بین
الاقوامی ایئرپورٹ کا رن وے تباہ ہو گیا۔ دارالحکومت صنعا حوثی باغیوں کے
قبضے میں ہے اور صنعا ایئرپورٹ کے رن وے کو نا قابل استعمال بنانے کا مقصد
حوثیوں کی جانب سے اس ایئرپورٹ کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے روکنا
ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے یمن میں باغیوں پر سعودی حملوں کی حمایت کی ہے
اور سعودی عرب کے تعاون طلب کرنے پر سعودی حکومت کو تمام فوجی اور دیگر
وسائل فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ حوثی باغیوں کے خلاف سعودیہ
کی حمایت کرنے پر یمن میں مقیم پاکستانیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
یمن میں تین ہزار پاکستانی ہیں، جن میں سے ایک ہزار پاکستانی شورش زدہ
علاقوں میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے مشکلات میں گھر گئے۔ ذرائع کے مطابق
یمن کے زیادہ تر حصے مےں قابض شیعہ حوثی باغیوں نے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر کے
ذریعے پاکستانیوں کو دھمکاتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں، جس سے
محصور پاکستانی شدید خوف وہراس کا شکار ہوگئے۔ حوثی باغیوں کی جانب سے
دھمکیاں ملنے پر یمن میں مقیم پاکستانیوں نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا
کہ ان کی فوری اور بحفاظت واپسی کا انتظام کیا جائے۔ ہفتے کے روز صنعا میں
موجود شاہ زین کا پاکستانی حکومت کے نام پیغام میں کہنا تھا کہ پاکستانیوں
کو دیکھتے ہی فائرنگ کی جارہی ہے، حوثی باغیوں کی جانب سے سنگین دھمکیوں کے
بعد پاکستانیوں کا با حفاظت فوری انخلا ضروری ہوگیا ہے۔ جبکہ یمن میں محصور
پاکستانی لڑکی نے اپنے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ اس وقت ان کے ساتھ بہت سے
لوگ محصور ہیں، ان میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں، لیکن انہیں سفارت خانے
کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ زمینی راستے کے ذریعے حدیدہ سے باہر نکل
جائیں، لیکن وہ یہاں پر آدھا کلومیٹر بھی نہیں چل سکتیں، ہر طرف حوثی موجود
ہیں اور مسلسل بمباری ہورہی ہے۔ انہیں یہاں کھانے پینے سے زیادہ عزتوں کا
خطرہ ہے۔ ہماری مدد کی جائے، ہمیں یہاں سے نکالا جائے، اس سے پہلے کے تمام
تر اقدامات معطل ہو جائیں، ہمیں یہاں سے نکالنے کے لیے اقدمات کیے جائیں۔
انہوں نے کہاکہ ان کے پاس یہاں سے نکلنے کے لیے صرف دوراستے ہیں، ایک سمندی
راستہ اور دوسرا ہوائی راستہ ہے، اس کے علاوہ زمینی راستہ محفوظ نہیں ہے،
ہر طرف بمباری ہو رہی ہے اور باہر حوثی موجود ہیں، اس لیے زمینی راستے کے
ذریعے آدھا کلومیٹر بھی سفر نہیں کر سکتیں۔ یمن میں محصور پاکستانی سید
ریحان نے پاکستانی حکومت سے اپیل کی کہ پاکستانی حکومت یمن سے پاکستانیوں
کے محفوظ انخلا کے لیے یمن کی حکومت سے رابطہ کرے اور ان کو یہاں سے نکالنے
کے لیے عملی اقدمات کرے۔ سید ریحان کا کہنا تھا کہ رات بھر طیاروں کی
بمباری اوراینٹی ایئرکرافٹ گنیں چلتی رہی ہیں اور وہ رات بھر اپنے کمرے
تبدیل کرتے رہے ہیں، تاکہ محفوظ رہ سکیں اور رات بھر جاری رہنے والی جہازوں
کی پروازوں اور فائرنگ وبمباری کے باعث انہیں ایک پل بھی نیند نہیں آئی۔ ان
کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے کھانے پینے کی چیزیں اور دوائیاں وغیرہ گھر
میں اسٹاک کر لی تھیں، تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹا جا سکے۔یمن
میں جیل میں قید 11قیدیوں نے حکومت پاکستان سے اپیل کی ہے کہ ہمیں بھی فوری
یمن سے نکالا جائے کیونکہ ہماری جان کو خطرات لاحق ہیں۔
وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ہفتے کی رات میڈیا کو بتایا کہ یمن
میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو یمن کے بحران زدہ علاقوں سے محفوظ علاقوں میں
منتقل کیا جا رہا ہے، جہاں سے انہیں پی آئی اے کے طیاروں کے ذریعے وطن واپس
لایا جائیگا۔ مجموعی طور پر یمن میں 3 ہزار پاکستانی مقیم تھے، جن میں سے
کئی پاکستانی اپنے طور پر پہلے ہی نکل چکے ہیں۔ ہم نے پہلے ہی ایک ٹریول
ایڈوائزری جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی یمن سے نکل جائیں۔
ذرائع کے مطابق یمنی دارلحکومت صنعا میں محصور 600 پاکستانیوں کا قافلہ
الحدیدہ شہر میں ہفتے کے روز پہنچا۔ صنعا سے الحدیدہ کے راستے میں پاکستانی
قافلے کو یمنی فوج اور حوثی قبائل کی جانب سے چیکنگ کا سامنا کرنا پڑا،
جبکہ قافلے کو راستے میں دیگر کئی رکاوٹیں بھی پیش آئیں۔ یمنی دارالحکومت
سے نکلنے کے بعد پاکستانیوں کے قافلے کو راستے میں پہلے یمنی فوج نے روک کر
دستاویزات چیک کیں اور تلاشی کے بعد آگے جانے کی اجازت دی گئی۔ قافلے میں
موجود 600 پاکستانی شہریوں کو رات گئے الحدیدہ پہنچنے پر ایک اسکول میں
قیام کروایا گیا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق صنعا سے حدیدہ کے زمینی سفر میں
پاکستانی شہریوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ جو تھوڑی بہت دشواری ہوئی وہ
صرف سیکورٹی کلیئرنس کے دوران ہوئی۔ دوسری جانب یمن میں پاکستان کے
سفیرعرفان یوسف کا کہنا تھا کہ یہاں محصور ایک ہزار پاکستانی آئندہ دو روز
میں یہاں سے نکل جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں پاکستانی خواتین اور بچوں کو ملک
واپس بھیجا جائے گا۔جبکہ پاکستانی سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے میڈیا کو
بریفنگ کے دوران بتایا کہ یمن میں کل تین ہزار پاکستانی موجود ہیں، جن میں
سے 900 سے 1000 کے قریب پاکستانی وطن واپس آنا چاہتے ہیں۔ عدن میں جاری
لڑائی کے باعث پاکستانیوں کو وہاں سے نکالنے کا لائحہ عمل طے کرنے میں
مشکلات کا سامنا ہے۔ سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ فروری کے تیسرے ہفتے میں
کشیدہ حالات کے باعث یمن میں موجود تمام پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کی اطلاع
دے دی گئی تھی، تاکہ وہ بروقت چلے جائیں۔ یمن میں پاکستانیوں کی مشکلات کے
ازالے کے لیے دفتر خارجہ میں سیل بنا دیا گیا ہے جو پاکستانیوں سے مسلسل
رابطے میں ہے۔ ترجمان دفترخارجہ کے مطابق یہ سیل یمن سے پاکستانیوں کے
انخلا کے لیے چوبیس گھنٹے کام کرے گا۔ وزارت خارجہ میں قائم سیل کے نمبرز
مندرجہ ذیل ہیں، یہ نمبرز 05190569119، 05190569346 ہیں۔ ان نمبرز پر یمن
میں پھنسے پاکستانی رابطہ کرسکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق یمن میں پھنس جانے والے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے
پی آئی اے کا طیارہ کراچی سے یمن کے شہر حدیدہ اتوار کی سہ پہر کو پہنچا
حدیدہ میں موجود پاکستانیوں کو لینے کے لیے پی آئی اے کا جمبو 747 طیارہ
اتوار کی صبح روانہ ہونا تھا، طیارے کے یمن میں اترنے اور وہاں سے دوبارہ
پرواز کی کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ سے اس کی روانگی بھی تاخیر ہوئی۔ اتوار
کی شام قومی ائیر لائن کی پہلی خصوصی پرواز پانچ سو محصور پاکستانیوں کو لے
کر وطن روانہ ہوئی، جو رات کو پاکستان پہنچ گئی، جبکہ دوسری پرواز کو اتوار
کی رات دس بجے پاکستان سے روانہ ہونا تھا، لیکن وہ آج روانہ ہوگی۔ یمن میں
پاکستانی سفیر نے میڈیا کو بتایا کہ یمن میں موجود 95 فیصد پاکستانیوں کا
انخلا جلد مکمل ہو جائے گا۔پاکستانی سفارت خانے کی کوششوں سے ہفتے کے روز
600 پاکستانی حدیدہ شہر پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ترجمان پاک بحریہ کے
مطابق پاکستان بحریہ کا ایک جہاز خلیج عدن میں پوری تیاری کے ساتھ موجود
ہوگا جو کہ ضرورت پڑنے پر یمن میں موجود پاکستانی شہریوں کے انخلا کا کام
انجام دے گا۔ ذرائع کے مطابق فریگیٹ جہاز کراچی کی بندرگاہ سے بحیرہ احمر،
خلیج عدن کے لیے روانہ ہونے والا بحری جہاز یمن میں پہنچ رہا ہے، تاکہ یمن
میں محصور پاکستانیوں کو باآسانی نکالا جاسکے، جبکہ دوسرا بحری جہاز منگل
کے روز روانہ ہوگا۔ واضح رہے بحری جہاز میں صرف دو سو افراد ہی سوار ہوسکتے
ہیں، جبکہ یمن میں محصور پاکستانیوں کی تعداد تین ہزار ہے، جو پاکستانی
حکومت کی جانب سے خصوصی بحری اور فضائی جہازوں کی گنجائش سے زیادہ ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یمن میں مقیم پاکستانیوں کی واپسی کے لیے حکومت
پاکستان کی جانب سے فوری انتظامات کیے جانا قابل داد ہے، لیکن یہ انتظامات
ناکافی ہیں، کیونکہ ابھی بھی یمن میں بہت سے پاکستانی محصور ہیں، حکومت
پاکستان کو جلد از جلد یمن سے پاکستانیوں کے انخلا کا انتظام کرناچاہیے،
کیونکہ وہاں پاکستانیوں کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔پاکستانیوں کی جان کو
بھی خطرات لاحق ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانی حکومت کو یمن میں پاکستانی سفارت
خانے کو فعال کرنا ہوگا،تاکہ یمن میں محصور پاکستانی فوری اور سلامتی کے
ساتھ وطن واپس پہنچ سکیں۔ |
|