عبیداﷲ عابد
عالمی شہرت یافتہ ماہر آثارقدیمہ ‘ تاریخ داں اور دانش ورڈاکٹراحمد حسن
دانی پنجاب کے ایک گاؤں بسنہ میں20جون 1920ء کو پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں اب
بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں واقع ہے۔وہ دس بہنیں اورتین بھائی تھے۔ ابتدائے
عمر میں انہوں نے اردو عربی اورفارسی کی تعلیم حاصل کی۔ کشمیری النسل احمد
حسن ابھی سکول ہی میں پڑھ رہے تھے کہ آپ کے والد کا تبادلہ ناگ پور(سی پی
انڈیا) میں ہوگیا ۔ یہاں کے سکول میں ذریعہ تعلیم ہندی اورسنسکرت تھا ۔
چنانچہ آپ نے ہندی اورسنسکرت بھی سیکھ لی اور پھراپنے ذاتی شوق سے مرہٹی
زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔
پروفیسر احمد حسن خاندانی طورپر ’’وانی‘‘ تھے۔ وانی کے معنی واعظ کے ہیں۔
ان کا خاندان وید کا حافظ تھا۔ پھر انگریزوں نے انہیں ’’دانی‘‘ کہناشروع
کردیا۔یوں یہ نام اس خاندان کے ساتھ چمٹ کر رہ گیا۔دان کرنے والے کو دانی
کہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بتایا کرتے تھے کہ ان کے بڑے یہاں سے گزرنے والے
لشکروں کو کھانا کھلاتے اوردان کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر دانی نے1944ء میں گریجویشن کی۔ وہ یہاں کے پہلے مسلمان گریجویٹ
تھے۔اس وقت بنارس یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں داخلہ لینے والے وہ واحد
مسلمان طالب علم تھے۔انہوں نے ایم اے کی ڈگری اس شان سے حاصل کی کہ کوئی
بھی ان سے برتری نہ حاصل کرسکا۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور مشہور فلسفی
رادھا کرشنا کی خواہش تھی کہ احمد حسن اسی یونیورسٹی کی ملازمت اختیار کرکے
ہندوستانی ثقافت پر تحقیقی کام کریں لیکن بنارس یونیورسٹی کا دستور تھا کہ
کسی مسلمان کو تدریسی کام پر مامور نہیں کیاجاتا تھا۔ ان دنوں یونیورسٹی کے
بانی اورکانگرسی لیڈر پنڈت مدن موہن مالویہ ابھی زندہ تھے۔ تاہم بعدمیں
جناب احمد حسن کو تحقیقی کام کی اجازت مل گئی۔اسی اثنا میں برطانیہ سے تعلق
رکھنے والے مشہور آثارقدیمہ سرمور ٹیمر ویلر ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ
کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ یہاں آکروہ نوجوان باصلاحیت افراد کی جستجو
میں مختلف تعلیمی اداروں میں گھومتے پھرتے رہے۔ اسی مہم کے دوران وہ ٹیمر
ویلر بنارس یونیورسٹی گئے تو وہاں ان کی ملاقات نوجوان احمد حسن دانی ہوئی۔
پہلی ملاقات ہی میں وہ ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس ذہین و فطین نوجوان
کو اپنے ہمراہ دہلی لے گئے۔1945ء میں جناب دانی نے مورٹیمر ویلر کے
زیرنگرانی ٹرینی کے طورپرکام شروع کیا۔اس دوران انہوں نے ٹیکسلا اور موہنجو
داڑو کی کھدائی میں حصہ لیا۔ اس کے بعدبرٹش انڈیا کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ
میں تعینات ہوئے۔ اب ان کا مسکن تاج محل‘ آگرہ تھا۔
جناب احمد حسن دانی پورے ملک میں ان تمام مقامات پر گئے جہاں اثری کھدائیاں
ہورہی تھیں۔ برصغیر پاک وہند کی تقسیم ہوئی تو آپ پاکستان آگئے ۔ آپ کی
پہلی تقرری مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ 1948ء میں سرمورٹیمر ویلر بھی انڈیا کے
محکمہ آثار قدیمہ سے سبک دوش ہوکر پاکستان آگئے اوریہاں محکمہ آثار قدیمہ
کے مشیر مامور ہوئے۔ سرمور ٹیمر اورڈاکٹر پروفیسر دانی نے مل کر ایک کتاب
تصنیف کی: ’’پاکستان کے پانچ ہزار سال۔‘‘ ڈھاکہ یونیورسٹی سے بارہ سالہ
وابستگی کے دوران آپ نے تاریخ پڑھائی اور آثارقدیمہ کے میوزیم کی نگرانی کی
اور ایشیاٹک سوسائٹی قائم کی جو اب بنگلہ دیش میں کام کررہی ہے۔
ڈاکٹر دانی 1947ء سے1949ء تک محکمہ آثار قدیمہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے
طورپر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔اسی دوران انہوں نے راج شاہی میں ویرندرا
عجائب گھر کو بحال کیا۔بعدازاں 1950ء میں وہ پروموٹ ہوکرمحکمے کے سپرنٹنڈنٹ
انچارج بن گئے۔ جناب دانی12برس تک( 1950-62ء) ڈھاکہ یونیورسٹی میں تاریخ کے
شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طورپرتدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے۔اس کے
ساتھ ہی ساتھ وہ ڈھاکہ کے عجائب گھر میں ذخیرے کے محافظ بھی رہے۔مشرقی
پاکستان میں اپنے ابتدائی دور میں انہوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کا
آثارقدیمہ کے حوالے سے جائزہ لیا۔ تحقیق کے اس باب میں ان کے سوا کوئی
دوسرا نام نظرنہیں آتا۔
پھر جنرل محمد ایوب خان فوجی انقلاب برپا کرکے اقتدار پر قابض ہوئے۔ انہیں
آثارقدیمہ سے گہراشغف تھا۔انہوں نے پشاور یونیورسٹی میں شعبہ آثارقدیمہ کے
نام سے ایک نیا شعبہ قائم کیا۔ اس کی سربراہی پروفیسراحمد حسن دانی کو دی
گئی ۔ پروفیسر دانی نے اس حیثیت میں وادی پشاور اورسوات میں جس کا قدیم نام
گندھارا تھا‘ اثری کھدائیوں کاکام شروع کیا۔انہوں نے ضلع مردان کے گاؤں’’
شنگھاؤ‘‘ کے قریب ایک بڑے غار کی کھدائی کرائی۔ یہاں سے مدفون وسطی حجری
انسان کے اوزار اوردوسری چیزیں ملیں۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے زیرنگرانی دریائے
سندھ کے کنارے واقع شہر چلاس کی کھدائی کرائی۔ اس کام میں پانچ سال کا عرصہ
لگا۔ پھر آپ نے مشہور تمر گڑھا کی قبروں کی اثری کھدائی کرائی۔ انہوں نے
قدیم پاکستان میں آریاؤں کی آمد اورلوہے کے زمانے کے بارے میں نتائج اخذ
کئے۔اپنے ان تمام میدانی کاموں کی رپورٹیں آپ نے کتابوں کی صورت میں شائع
کرائیں ۔آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ کہ جس مقام پر بری امام کا مزار ہے وہ
دراصل زمانہ قدیم میں بدھ سٹوپا تھا۔آپ نے شمالی علاقہ جات میں گلگت
اورہنزہ وغیرہ میں اثری مشاہدہ و مطالعہ کیا۔
ڈاکٹر دانی پشاور یونیورسٹی میں1971ء تک تعینات رہے۔اس دوران انہوں نے
لاہور اور پشاور کے عجائب گھروں کو بہتر بنانے کے لئے غیرمعمولی خدمات
سرانجام دیں۔1971ء میں وہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد منتقل ہوگئے۔یہاں
آپ نے شعبہ بشریات کے نام سے ایک نیا شعبہ اور وسط ایشیائی تہذیب کے مطالعے
کامرکز قائم کیا۔ڈاکٹر دانی چاہتے تھے کہ وہ یونیورسٹی میں اپنے شاگردوں کی
ایک کھیپ تیارکریں لیکن وہ ایسا نہ کرسکے ۔ ڈاکٹر دانی کہاکرتے تھے کہ
بدقسمتی سے وہاں ان باتوں کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی مثلاً جب میں
نے قائداعظم یونیورسٹی میں جاب شروع کی تو اس وقت کے وائس چانسلر نے مجھے
بلوایا اورکہاکہ پروفیسردانی! ہم نے تمہیں نوکری دے د ی ہے مگر ہماری ایک
شرط ہے کہ تم یہاں آرکیالوجی کا مضمون نہیں پڑھاؤ گے‘‘۔ ان تمام مشکلات اور
رکاوٹوں کے باوجود پروفیسر دانی آگے بڑھتے چلے گئے۔
1978ء میں جب شاہراہ قراقرم کو کھولا گیا تو شمالی علاقہ جات میں اثریات
اور انسانیات کے تحقیقی کام کوتحریک ملی۔ پاکستان اور جرمنی کی ایک مشترکہ
ٹیم نے احمد حسن دانی اورہائیڈل برگ یونیورسٹی کے پروفیسر کال جٹمر کی
قیادت میں قدیم شاہراہ ریشم کے بارے میں مفید نسلی‘ لسانی‘اثری اورتاریخی
معلومات حاصل کیں۔ ان میں قدیم زبانوں کے کتبے ‘رسم الخط کے نمونے‘ معبد‘
ہندسی نقوش‘ زمانہ قبل ازتاریخ کی بستیاں ‘روایتی طرز تعمیر میں بنی ہوئی
لکڑی کی مساجد نظر آئیں۔ ایک جرمن ماہر ای ایس ناسا نے ڈاکٹر دانی کے جوہر
قابل کو دیکھتے ہوئے انہیں پیشکش کی کہ وہ ٹیکسلا میں یونیورسٹی بنائیں۔وہ
اس میں بھرپور تعاون کریں گے۔ ڈاکٹر دانی یہ قصہ یوں بیان کرتے ہیں
ـ:’’جرمن پروفیسر ای ایس ناسا کی بڑی دلچسپی تھی کہ چترال یا نادرن ایریا
میں یونیورسٹی بنے۔ میری ان سے پہلے ملاقات نہ تھی۔ ایک دفعہ وہ یہاں آئے۔
ان کو پتہ چلا کہ فلاں شخص ہے جو پرانی زبانوں کو جانتاہے ۔ وہ میرے پاس
آئے اورمجھ سے کہا:پروفیسردانی! چیلاس میں ایک کتبہ ہے آپ اس کو ڈی سائفر
(خفیہ زبان کی تفہیم) کردیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ایک کتبہ ہے۔ ایک آدھ
گھنٹے میں ہوجائے گا ۔ ہم وہاں پہنچے تو شام ہوگئی۔ میں نے کہاکہ رات میں
سولیا جائے۔ صبح اٹھ کر دیکھ لیں گے۔ صبح اٹھے۔ ایک کتبہ دیکھا۔دودیکھے ‘
تین دیکھے۔ میں نے کہاپروفیسر صاحب! آپ تو کہتے تھے کہ ایک کتبہ ہے۔مجھے تو
یہاں سینکڑوں کتبے نظرآرہے ہیں۔ کہنے لگا: ہم توانہیں پہچان نہیں سکتے۔ہم
کیا کریں؟ پھر اس نے کہا: آپ پاک جرمن ریسرچ سوسائٹی بنائیں اور پاکستانی
حکومت کو کہیں کہ بے شک آپ ہمیں پیسہ نہ دیں لیکن پروفیسردانی کو ہمارے
حوالے کردیں۔ پیسہ ہم جرمنی سے لائیں گے اورناردرن ایریاز میں کام کریں گے۔
ہم نے ان سے مل کر دس سال تک کام کیا۔پرانی زبانوں میں جتنے بھی کتبے وہاں
موجود تھے۔ میں نے ان کو ڈی سائفر کیا اوران کا ترجمہ کیااور اس خطے کی
پہلی تاریخ’’ہسٹری آف ناردرن ایریا آف پاکستان‘‘ کے نام سے لکھی ۔ اس سے
پہلے اس خطے کی تاریخ نہیں لکھی گئی‘‘۔
ڈاکٹر دانی مختلف ذمہ داریاں اداکرتے ہوئے 1980ء میں ریٹائرہوئے۔اس کے بعد
انہیں اعزازی پروفیسر قراردے دیاگیا۔آثارقدیمہ کی تلاش میں ان کی شاندار
خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تاجکستان یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی
اعزازی ڈگری عطا کی۔ یہ ڈگری انہیں 1993ء میں دوشنبے میں دی گئی۔ اسی سال
دانی نے اسلام آباد میں عجائب گھر قائم کیا۔-96 1992ء تک کے دوران وفاقی
حکومت نے انہیں وزارت ثقافت میں آثار قدیمہ کے مشیر بنادیا۔ 1994-98ء کے
دوران وہ نیشنل فنڈ فار کلچرل ہیریٹیج کے چیئرمین بنادئیے گئے۔1997ء کے بعد
ڈاکٹر دانی ٹیکسلا انسٹی ٹیوٹ آف ایشین سویلائزیشن کے اعزازی ڈائریکٹر بھی
رہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طورپر ذمہ داریاں اداکرتے ہوئے
دانی لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورئینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز میں (1958-59ء)
ریسرچ فیلو کے طورپر بھی کام کرتے رہے۔ بعدازاں 1969ء میں کینبرا کی
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ایشین فیلو کے طورپر کام کرتے رہے۔ 1974ء میں
وہ امریکی ریاست فلاڈلفیا کی پنسیلوانیہ یونیورسٹی میں وزیٹنگ سکالر کے
طورپر وابستہ رہے۔ 1977ء میں وہ یونیورسٹی آف وسکونسن میڈیسن میں وزینٹنگ
پروفیسر رہے۔1969ء میں دانی کو بنگلہ دیش کے رائل ایشیاٹک سوسائٹی
میں‘1981ء میں جرمن آرکیالوجیکل انسٹی ٹیوٹ میں ‘ 1986ء میں روم اور 1991ء
رائل ایشیاٹک سوسائٹی میں اعزازی فیلوشپس سے نوازا گیا۔ انہیں جنوبی ایشیا
کی آثار قدیمہ اور تاریخ پر گہراعبور حاصل تھا۔ ان کی اہلیہ بھی اپنے شوہر
کی طرح باہمت تھیں۔ جب وہ اوائل عمری میں تھیں تو اس دور میں مسلمان اپنی
لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے کے بجائے گھر پر ہی پڑھاتے تھے۔ ان کی
اہلیہ بھی اپنے بھائیوں سے تھوڑا بہت ہندی ‘ اردو اور کچھ انگریزی سیکھتی
رہیں۔ شادی کے بعد ڈاکٹر دانی بیوی سمیت لندن گئے۔ اپنے شوہر کے مشورے پر
انہوں نے وہاں نائٹ کلاسز جوائن کرلیں اور انگریزی باقاعدہ سیکھی۔خودڈاکٹر
دانی 22مقامی اور بین الاقوامی زبانوں اور لہجوں پر عبور رکھتے تھے۔یہ بلند
مرتبت انسان 26جنوری2009ء کو اسلام آباد میں خالق حقیقی سے جاملے۔
ممتاز صحافی جناب محمودالحسن روزنامہ ایکسپریس میں ڈاکٹر احمد حسن دانی کے
بارے میں لکھتے ہیں کہ ماضی کی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی بھی عدم
آباد روانہ ہوئے ۔وہ ایک سچے عالم کی طرح ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ
کے بغیراپنے کام میں مگن رہے ، ان کی تحقیقی و علمی مساعی کا عالمی سطح پر
اعتراف ہوا اور لوگوں نے جانا کہ اس خطے میں بھی کوئی بھی آثار قدیمہ میں
ایسا بے مثل کام کرنے کے صلاحیت رکھتا ہے ۔علمی وتحقیقی منصوبوں سے ہمارے
اہل اقتدار کی بے اعتنائی اظہر من الشمس ہے لیکن یہ بات ایک حقیقت ہے کہ اس
غفلت کے باوجود اس خطہ زمین پر بہت سے ایسے افراد نے جنم لیا جنھوں نے تن
تنہا ہی وہ کام کئے جو اداروں کے کرنے کے تھے ۔ یہ وہ عبقری تھے جن کو ان
کے نا م اور کام کی بدولت بیرون ممالک سے بھی پیشکشیں ہوئیں لیکن انہوں نے
وطن عزیز کی محبت میں سرشار ہوکر باہر جانے کے بجائے یہیں رہنے کو ترجیح دی
اور ملک کا نام روشن کیا۔آج اس قحط الرجال میں ان کی موت ہمیں اور بھی
آزردہ کرتی ہے کہ ’’ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘ ۔ذیل میں ہم
احمد حسن دانی کی کچھ باتیں قارئین کی نذر کررہے ہیں۔
احمد حسن دانی کے پسندیدہ آرکیالوجسٹ سر مارٹیمر وہیلر تھا جن کو انگریزوں
نے برطانیہ سے دلی بلایا اور آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں بطور ڈائریکٹر جنرل
تعینات کیا۔ وھیلرنے Five thousand years of pakistanکے نام سے کتاب بھی
لکھی ۔ احمدحسن دانی کا کہنا تھا کہ ان کی کتاب کا جو حصہ مغربی پاکستان کے
بارے میں ہے وہ تو اس نے خود لکھا لیکن چونکہ وہ مشرقی پاکستان کے بارے میں
نہ جانتے تھے اس لیے یہ حصہ انہوں نے تحریرکیا یعنی کتاب کا آدھا حصہ ان کے
قلم سے تھا لیکن مارٹیمر وھیلر نے کتاب اپنے نام سے ہی چھپوائی اور ان کا
تذکرہ صرف پیش لفظ تک ہی محدود رہا۔ اس کے باوجود وہ بطور آرکیالوجسٹ وہیلر
کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
احمد حسن دانی کوآکسفورڈ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک سے کام کرنے کی پیشکش
ہوئی لیکن وطن کی محبت ایسی پیشکشوں کو قبول کرنے میں مانع رہی۔ اس بارے
میں ان کی بیگم کا موقف بھی ان سے مکمل طور پر ہم آہنگ تھا جو ان سے کہتیں
’’ ہم امریکیوں کے بجائے اپنے بچوں کو کیوں نہ پڑھائیں۔‘‘
بنارس یونیورسٹی میں ایم اے کے داخلے کے لیے گئے تو اس زمانے میں رادھا
کرشنا وائس چانسلر ہوا کرتے تھے جن کا کہنا تھا کہ ہم یہاں کسی مسلمان کو
داخلہ نہیں دیتے ، احمد حسن دانی نے استفسار کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ
مسلمانوں کو داخلہ نہیں دیتے تو وائس چانسلر نے کہا کہ یہاں داخلے کے لیے
سنسکرت جاننا ضروری ہے جس پر احمد احسن دانی نے جواب دیا کہ میں سنسکرت
پڑھا ہوا ہوں انہوں نے امتحان کے طور پر کچھ سنانے کو کہا تو انہوں نے کالی
داس کا اشلوک سنا دیا جس پر ان کا داخلہ ہو گیا۔اور یوں وہ پہلے مسلمان
ٹھہرے جس کو ہندو یونیورسٹی بنارس میں داخلہ ملا۔ ایم اے کے امتحان میں ان
کی فرسٹ کلاس فرسٹ آئی ۔ کلکتہ یونیورسٹی کے ایک استاد کے پاس ان کا ایک
پیپر گیا جس میں ان کو سو میں سے ننانوے نمبر ملے ۔ بعد میں جب ایک مرتبہ
ان کی ملاقات اس استاد سے ہوئی تو انہوں نے ایک نمبر کاٹنے کی وجہ دریافت
کی تو اس نے بتایا کہ میں تو اور بھی نمبر کاٹنا چاہتا تھامگر جگہ ہی نہ
ملتی تھی ایک نمبر بس ہینڈ رائٹنگ کا ہی کاٹ سکا۔
احمد حسن دانی کے بقول موجودہ پاکستان میں جو لوگ ہیں ان میں سے ساٹھ فیصد
وسط ایشیا سے آئے ،عرب سے نہیں ۔ اُن کی تحقیق کے مطابق محمد بن قاسم صرف
سندھ تک آیا جبکہ یہاں آباد لوگوں کی غالب اکثریت کا نسلی تعلق وسط ایشیا
سے ہے ۔اسلام بھی ہمارے ہاں عرب کے بجائے وسط ایشیا سے آیاجہاں کے صوفیوں
نے اسلام پھیلایا۔
تقسیم سے قبل جب وہ آگرہ میں تعینات تھے جہاں انہوں نے دنیا کے بہت سے
حکمرانوں کو تاج محل کی سیر کرائی۔ڈیگال کو جب وہ تاج محل دکھانے لے گئے تو
وہ سیدھا تاج محل کے اندر جانے لگا۔ اس پر انہوں نے اسے روک کرکہا کہ آپ
میرے ساتھ مشرقی دروازے پر آئیں وہاں دروازے پر میں آپ کو کھڑا کروں گا اور
بتاؤں گا کہ تاج محل کیسا ہے ۔ دروازے کے درمیان میں ان کو کھڑا کر کے کہا
کہ اب آپ بالکل سامنے دیکھیں آپ کی ناک ممتاز محل کے ناک کے اوپر ہے۔
احمد حسن دانی کا نظریہ تھا کہ جب بھی کوئی تہذیب یا ملک ہوس گیری کے طرف
مائل ہو گا وہ اعلیٰ انسانی اقدار سے محروم ہو گا ۔وہ تہذیبوں کے درمیان
تصادم کے نظریے سے بھی متفق نہ تھے ۔
ان کا کہنا تھا کہ تاریخ کی حیثیت مسلمہ ہے لیکن آثار قدیمہ کی اہمیت اس سے
بڑھ کر ہے کیونکہ تاریخ پر بھی جب تک آثار قدیمہ کی مہر نہیں لگتی اس کی
حیثیت وقیع نہیں ہوتی۔وہ تاریخ کو بھی آثار قدیمہ کے ہی کے ذریعے پڑھائے
جانے کے قائل تھے۔
احمد حسن دانی کہتے تھے کہ پرانے وقتوں میں ایشیا دنیا میں سب سے آگے تھا
یورپ تو دنیا کے سامنے بہت بعد میں آیا لیکن جب ہم اپنے بچوں کو سکول ہی
نہیں بھیجیں گے تو دنیا میں ہم پیچھے تو رہیں گے ۔ بلاشبہ ہمارا ماضی
تابناک سہی لیکن ماضی قریب میں اور حال میں ہم کہاں کھڑے ہیں اس بارے میں
فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ ہزار سال کی تاریخ تو ہمیں یہی بتاتی ہے کہ
کوئی بھی حملہ آور گنگا جمنا سے نہیں آیا بلکہ تمام لشکر وسطی ایشیا سے
ادھر کو آئے ۔کشمیر سے انہیں جذباتی وابستگی تھی۔وہ سمجھتے تھے کہ کشمیر کا
معاملہ کبھی بھی مذاکرات سے طے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ہمیں جنگ ہی کرنا
پڑے گی کیونکہ یہ ہماری زندگی اورموت کا مسئلہ ہے ۔ اُن کی تحقیق سے یہ
حقیقت سامنے آئی کہ بعض محققین کی یہ بات درست نہیں کہ انسانی زندگی کی
ابتدا انڈونیشیا اور سری لنکا سے ہوئی۔ موہنجو درڈو سے جو تحریریں ملی ہیں،
ان کا کہنا تھا وہ آج تک نہیں پڑھی جا سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ خط میخی ہے
، لیکن ابھی تک اس پر پردہ پڑا ہوا ہے، کوششیں ہورہی ہیں،لیکن ابھی تک یہ
بارآور نہیں ہوسکیں۔
تقسیم سے قبل دلی میں سہارنپور کے ایک ڈاکٹر تھے۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ
ان کی بیٹی سے دانی صاحب کی شادی ہوجائے۔لیکن اُن کی جرمن بیوی یہ نہ چاہتی
تھی۔ تقسیم کے بعد بھی ان لوگوں نے شادی کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب
دیا کہ ہم کشمیری مسلمان ہیں اور ہم کشمیریوں میں ہی شادی کرتے ہیں اور
اگرمیں خاندان سے باہر شادی کروں گا تو میرا باپ مجھے مار ڈالے گا۔
احمد حسن دانی کے نزدیک ایشیا میں آریاؤں کے آثار قدیمہ کے بارے میں کوئی
نہ جانتا تھا۔ یورپ میں تو گارڈن چائلڈ نے آریاؤں کو دریافت کیا لیکن ان کا
کہنا تھا کہ پاکستان میں آریاؤں کے آثار کو انہوں نے دریافت کیا۔ان کی
دانست میں ملتان شہر بھی موہنجودڑو جتنا ہی قدیم ہے لیکن فرق یہ ہے کہ موہن
جودڑو اور ہڑپہ آباد ہونے کے بعد مٹ گئے لیکن ملتان کو یہ امتیاز حاصل ہے
کہ یہ پاکستان میں واحد پرانا شہر ہے جو ابھی تک آباد ہے ۔احمد حسن دانی جن
کی زندگی کامیابیوں سے بھری پڑی تھی انہوں نے زندگی میں پروفیسر بننے کا
خواب دیکھا جو پورا ہوا لیکن اس کے باوجود وہ سمجھتے تھے کہ ان کے خوابوں
کا صرف پچیس فیصد حصہ ہی پورا ہوا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں انہیں قائد اعظم یونیورسٹی کا وائس چانسلر
بننے کی پیشکش ہوئی لیکن علم سے محبت کرنے والے اس انسان نے اس پیشکش کو
تسلیم نہ کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ’’ساری دنیا مجھے پروفیسر کے نام
سے جانتی ہے وائس چانسلر بن کر میں کیا کروں گا۔‘‘
احمد حسن دانی کے کریڈٹ پر پچاس سے زائد کتب اور لاتعداد مضامین موجود ہیں۔
وہ اردو ، بنگالی ، فرانسیسی ، ہندی ، کشمیری ،مراٹھی ، پشتو، فارسی ،
پنجابی سنسکرت سرائیکی، سندھی ، تامل اورترکی پر عبور رکھتے تھے۔انہوں نے
ان زبانوں میں بھی کافی مواد شائع کیا۔احمد حسن دانی کی کتابوں کی تفصیل
ذیل میں درج ہے:
٭ہسٹارک سٹی آف ٹیکسلا
٭ ہسٹری آف ناردرن ایریاز آف پاکستان
٭رومانس آف دی خیبرپاس
٭نیولائٹ آن سنٹرل ایشیا
٭سنٹرل ایشیا ٹوڈے
٭ ہیومن ریکارڈز آن قراقرم ہائی وے
٭ پشاور : ہسٹارک سٹی آف دی فرنٹئیر
٭ اے شارٹ ہسٹری آف پاکستان ،بک ون ، پری مسلم پیریڈ
٭ ہسٹری آف ناردرن ایریاز آف پاکستان (ہسٹاریکل سٹڈیز)
٭پرسپیکٹو آف پاکستان
٭ چلاس : دی سٹی آف نانگا پربت
٭ ٹھٹھہ : اسلامک آرکیٹکچر
٭ کلچر اینڈ سویلائزیشن
٭ انڈس سویلائزیشن ،نیو پرسپیکٹو
٭ انڈین پلایو گرافی
٭ ڈھاکہ: اے ریکارڈ آف اٹس چینجنگ فورچونز
٭ پری ہسٹری اینڈ پروٹو ہسٹری آف ایسٹرن انڈیا: ود اے ڈیٹیلڈ اکاؤنٹ آف دی
نیو لیتھک کلچرز
٭ ببلو گرافی آف دی میوزیم انسکرپشنز آف بنگال
اس کے علاوہ انہوں نے شریک مصنف کے طورپر بھی کتابیں لکھیں جن میں ہسٹری آف
ہیومینیٹی،والیوم تھری ، فرام دی تھرڈ میلینیم ٹو دی سیونتھ سنچری بی سی
٭ دی کشانو ساسانین کنگڈم
پروفیسر احمد حسن دانی لسانیات‘ تاریخ اور آثار قدیمہ کے میدانوں میں ایک
سند کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی صلاحیتوں اور تحقیقی کاوشوں کا ڈنکا عالمی
سطح پر بجتا رہا۔ زندگی کے مختلف ادوار میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف
میں پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک نے بھی انہیں مختلف ایوارڈز اور میڈلز
سے نوازا۔
٭ 1944ء میں بنارس ہندو یونیورسٹی نے ’’ گولڈ میڈل‘‘ سے نوازا۔
٭ 1969ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے ’’ ستارہ امتیاز‘‘ دیا گیا۔
٭ 1986ء میں ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگلہ دیش کی جانب سے ’’ گولڈ میڈل‘‘ دیا
گیا۔
٭ 1990ء میں حکومت فرانس نے ’’ پامز ایکاڈیمکس‘‘ (Palmes Academiques)
ایوارڈ دیا۔
٭ 1992ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے ’’ اعزازِ کمال‘‘ عطا کیاگیا۔
٭ 1994ء میں اطالوی حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں ’’ نائٹ کمانڈر‘‘
(Knight Commander) کے اعزاز سے نوازا۔
٭ 1996ء میں جرمنی کی حکومت کی جانب سے ’’ آرڈر آف میرٹ‘‘ (Order of Merit)
ایوارڈ دیا گیا۔
٭ 1997ء میں یونیسکو نے ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ’’ارسطو سلور میڈل‘‘
(Aristotle Silver Medal) دیا۔
٭ 1998ء میں فرانسیسی صدارتی ایوارڈ ’’ لیجن ڈی آنر‘‘ (Legion d'honneur)
سے نوازا گیا۔
٭ 2000ء میں حکومت پاکستان نے تحقیقی و تخلیقی کاوشوں کے اعتراف میں ’’
ہلال امتیاز‘‘ عطا کیا۔
پروفیسر احمد حسن دانی کو ملکی اور بین الاقوامی اداروں نے اعزازی فیلوشپس
اور ڈگریوں سے نوازنا اپنے لئے باعث افتخار گردانا‘ جن کی تفصیل یوں ہے:
٭ 1944ء میں بنارس یونیورسٹی کی جانب سے جے۔ کے فیلو (J.K Fellow) دی گئی۔
٭1969ء میں ’’ آنریری فیلو آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگلہ دیش‘‘ دی گئی۔
٭ 1981ء میں ’’ آنریری فیلو آف جرمن آرکیالوجیکل انسٹیٹیوٹ‘‘ دی گئی۔
٭ 1982ء میں ’’ آنریری فیلو آف ویسٹرن اینڈ سنٹرل ایشیا‘ کراچی‘‘ دی گئی۔
٭ 1986ء میں روم کی جانب سے ’’ آنریری فیلو آف آئی‘ ایس‘ ایم‘ ای‘ او‘ روم
(Honorary Fellow of ISMEO, Rome) دی گئی۔
٭ 1991ء میں ’’ آنریری فیلو آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف لندن‘‘ دی گئی۔
٭ 1993ء میں تاجکستان یونیورسٹی روشنبے کی جانب سے ’’ آنریری ڈاکٹریٹ‘‘ دی
گئی۔
(یہ مضمون عبیداﷲ عابد کالکھاہوا ہے جو روزنامہ ایکسپریس کی اشاعت 27 جنوری
2009ء میں شائع ہوا تھا ان سے شکریے کے ساتھ یہ مضمون شامل کتاب کیاجارہا
ہے ) |