یمن کے حوثی باغیوں پر سعودی عرب
کی قیادت میں اتحادی ممالک کے فضائی حملوں کی خبریں آپ کی نظر سے گزر رہی
ہوں گی۔ یہ جنگ راتوں رات نہیں چھڑی ہے، بلکہ اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی
ہے، اس کہانی کو سمجھے بغیر اس معاملے کو بھی سمجھا نہیں جاسکتا۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، شام، عراق، کویت، بحرین، قطر، عمان، یمن،
فلسطین، لبنان اور اردن، یہ بارہ ملک مشرق وسطی میں آتے ہیں۔ یہ سب مسلمان
اور عرب ملک ہیں اور تیل کی دولت سے مالامال ہیں۔ اس خطے میں شیعہ سنی کی
واضح تفریق موجود ہے، جو صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ اس بنیاد پر فسادات بھی
ہوتے رہے ہیں مگر 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد شیعہ سنی کی تفریق نے نیا
رخ لیا۔ ان 12میں سے 11 ممالک کے حکمران سنی ہیں جبکہ وہاں بسنے والے شیعہ
اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہیں، باقی رہا شام تو وہاں حکومت اہل تشیع کی ہے
جبکہ سنی اپوزیشن میں ہیں۔ حکومتی سازی کے معاملے میں کئی ممالک میں بہت
زیادہ عدم توازن پایا جاتا ہے۔ بحرین میں اکثریت اہل تشیع کی ہے مگر حکومت
اہل سنت کے پاس ہے، شام میں سنی اکثریت میں ہیں لیکن حکومت شیعہ اقلیتی
گروہ کے پاس ہے، یہی معاملہ عراق کا تھا، وہاں شیعہ زیادہ بستے ہیں مگر
حکومت سنیوں کی تھی۔
ایرانی انقلاب کے بعد جو لوگ حکمران بنے، انہوں نے انقلاب کو ایران تک
محدود رکھنے کی بجائے پوری دنیا میں شیعہ بلاک بنانے کی پالیسی اختیار کی،
آپ یہ بات نوٹ کریں کہ ایرانی انقلابی سے قبل مسلم ممالک سنی شیعہ تفریق کے
باوجود مذہبی نقطہ نگاہ سے بہت حد تک پرامن تھے، مسلکی بحث مباحثے زیادہ تر
علمی حلقوں تک ہی محدود تھے۔ ایرانی انقلاب چونکہ شیعہ پس منظر رکھتا تھا،
اس لیے دنیابھر میں جہاں بھی اہل تشیع بستے تھے، انہوں نے فطری طور پر اس
انقلاب کو ویلکم کیا، دوسری طرف ایرانی حکومت نے مسلم ممالک میں آباد اہل
تشیع کو منظم کرنا شروع کیا، ان کی اخلاقی، مالی اور سیاسی سرپرستی کی گئی،
بلکہ مستند سرکاری دستاویز سامنے آنے سے یہ بات بھی اب کوئی راز نہیں رہی
کہ ایران نے مسلم ممالک میں اپنے حامیوں کو مسلح بھی کیا۔ اس ساری حمایت
اور کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ اہل تشیع جہاں کہیں بھی بستے ہوں، وہ اپنے
حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ایران کی مدد سے ان کا تختہ الٹ کر شیعہ
حکومت قائم کردیں۔ ایران کی اس پالیسی کے اثرات بہت جلد سامنے آنا شروع
ہوگئے، کئی مسلم ممالک خاص طور پر مشرق وسطی کے عرب ممالک میں اہل تشیع
اپنی حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، بڑے بڑے جلوس نکلنے لگے، جن میں شامل
لوگ ایرانی سپریم کمانڈر خمینی کی تصاویر اٹھائے ہوتے، اس سے صاف پتا چلتا
ہے کہ ان کے احتجاج کا مقصد محض حقوق کا حصول یا حکومت کی تبدیلی نہیں،
بلکہ وہ ایرانی قیادت میں شیعہ بلاک بنانے کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہیں،
چونکہ خلیجی ممالک میں حکمرانوں کی گرفت بہت مضبوط ہے اور وہ مخالفین کو
کچلنے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں، اس لیے ایرانی حمایت یافتہ اہل
تشیع کو کسی بھی ملک میں اقتدار پر قابض ہونے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔
صدام حسین کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد مشرق وسطی کی سیاست نے اچانک نیا رخ
اختیار کرلیا۔ امریکا نے جب عراق پر حملہ کیا تھا تو وہاں کی اکثریتی شیعہ
آبادی نے اسے خوش آمدید کہا تھا، یہی وجہ ہے کہ پوری جنگ کے دوران امریکا
نے کسی اہل تشیع رہنما کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، سب اپنی اپنی جگہ موجود
اور معمول کی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ ایران نے بھی اس جنگ میں کھل کر
امریکا کا ساتھ دیا، صدام حسین کے بعد امریکا اور ایران کی سرپرستی میں جو
حکومت قائم ہوئی، وہ مکمل طور پر شیعہ حکومت تھی، اس نے صدام حسین کی
غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے اس کی طرح مخالفین کو کچلنا شروع کردیا،
ایران نے نوری المالکی حکومت کو اہل سنت کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے
روکنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ الٹا اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اس انتقامی
پالیسی نے عراق میں شیعہ اور سنی کو ایک دوسرے سے لڑوادیا، اس طرح ملک خانہ
جنگی کا شکار ہوگیا۔
2011ء میں عرب بہار آئی تو تیونس، لیبیا اور مصر کے ساتھ ساتھ اس نے دیگر
عرب ملکوں میں بھی اپنا رنگ دکھایا، سعودی عرب، بحرین اور عرب امارات میں
ایک بار پھر اہل تشیع اٹھ کھڑے ہوئے، ایران نے حسب توقع ان کی بھرپور
سرپرستی کی، کچھ دن جلسے، جلوسوں اور جلاؤگھیراؤ کا سلسلہ چلا، مگر آخرکار
ان تینوں ممالک کی حکومتوں نے مخالفین پر قابو پالیا، البتہ شام کی صورت
حال کچھ مختلف تھی، وہاں سنی اپوزیشن شیعہ حکومت کے خلاف اٹھی تو بشارالاسد
نے ماضی کی طرح مخالفین پر ٹینک چڑھادیے، بات بڑھی تو خلیجی ممالک نے سنی
اپوزیشن کی پشت پر ہاتھ رکھ دیا، اسے مالی اور عسکری مدد فراہم کی، ادھر
ایران بھی بھاگتا ہوا شام پہنچ گیا، کیونکہ بشارالاسد اس کا اہم اثاثہ ہے،
بشار کو اہم اثاثہ خود ایرانی وزارت خارجہ اور دیگر اعلیٰ حکومتی ارکان نے
قرار دیا ہے۔ ایران سے یہاں ایک بڑی غلطی ہوئی، اسے بشارالاسد اور اپوزیشن
میں صلح کرانے کی کوشش کرنا چاہیے تھی، اسی طرح بشار کی شام پر گرفت مضبوط
رہتی مگر ایران نے اپوزیشن کو کچلنے میں بشارالاسد کی بھرپور مدد کی، اپنے
فوجی کمانڈر اور سپاہی وہاں بھیجے، حزب اﷲ کے جنگجوؤں کو وہاں بلوایا گیا،
صرف یہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے اہل تشیع کو شام آنے کی دعوت دی گئی، جس پر
ہزاروں شیعہ نوجوان وہاں پہنچ گئے، پاکستان سے بھی بہت سے نوجوان وہاں گئے،
جن میں سے کئی ایک کی لاشیں واپس لائی گئی ہیں۔
شام میں ایران اور خلیجی ممالک کے درمیان جنگ جاری تھی کہ ایک اور
دھماکاخیز صورت حال پیدا ہوگئی۔ شام میں اپوزیشن کو امریکا اور خلیجی ممالک
کی معاونت حاصل تھی، مگر ہوا یہ کہ درمیان میں القاعدہ اور اس کی ذیلی
تنظیمیں آگئیں۔ یہ تنظیمیں تیزی کے ساتھ اٹھیں اور دیکھتے ہی دیکھتے شام کے
بہت سے علاقوں پر قابض ہوگئیں، وہ اپوزیشن جسے امریکا اور خلیجی ممالک کی
حمایت حاصل تھی، وہ بھاگ کھڑی ہوئی، اب صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف
بشارالاسد اور ایران تھے تو دوسری طرف یہ جہادی تنظیمیں تھیں، امریکا اور
خلیجی ممالک کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ان جہادی تنظیموں کی سرپرستی
کریں، اس لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شام کے مسئلے کو درمیان ہی میں
چھوڑ رکھا ہے، بشارالاسد کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے
کارروائی نہ کرنے کا بنیادی سبب یہی ہے، انہیں معلوم ہے کہ اگر ان حالات
میں بشارالاسد کو ہٹایا گیا تو جہادی شام پر قابض ہوجائیں گے، یہی وجہ ہے
کہ آج خلیجی ممالک اور امریکا عملاً شام کے تنازع سے الگ تھلگ ہیں۔
داعش کے ذکر کے بغیر بات مکمل نہیں ہوگی، اصلاً یہ تنظیم عراق سے تعلق
رکھتی ہے، جب امریکا اور ایران کی سرپرستی میں عراقی حکومت نے اہل سنت پر
ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کیے تو اہل سنت میں اس کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ عام
سنی نوجوان اور صدام حسین کی فوج کے سابق سنی اہلکار جہادی کمانڈروں کی
سربراہی میں متحد ہوگئے، دولت اسلامیہ نامی اس تنظیم نے بہت جلد عراق کے
کئی شہروں پر قبضہ کرلیا، اس کے ساتھ ساتھ اس نے شام پر بھی توجہ مرکوز
رکھی، پہلے پہل اس تنظیم کے وہاں پر القاعدہ گروپوں سے اختلافات رہے، یہ
لوگ آپس میں لڑتے بھی رہے مگر اب القاعدہ کے بیشتر گروپ اس تنظیم میں ضم
ہوگئے ہیں یا پھر انہوں نے ضم ہوئے بغیر داعش کی بالادستی کو تسلیم کرلیا
ہے۔ پہلے یہ تنظیم صرف عراق اور شام کی حکمرانی کے نعرے تک محدود تھی لیکن
اب یہ عالمی خلافت کی داعی ہے۔ یہ تنظیم امریکا اور ایران کے ساتھ ساتھ
خلیجی حکمرانوں کی بھی دشمن ہے اور اس معاملے میں یہ کسی رعایت کی بھی قائل
نہیں ہے۔ یہ تنظیم مسلسل پیش قدمی کرتے ہوئے سعودی سرحدوں تک جاپہنچی ہے۔
یمن سنی اکثریتی ملک ہے، وہاں اہل تشیع کے زیدی فرقہ سے تعلق رکھنے والے
حوثی مکتب فکر نے حیرت انگیز طور پر 4 لاکھ افواج کو شکست دے کر دارالحکومت
صنعاء پر قبضہ کررکھا ہے۔ ان باغیوں کو ایران کی کھلی سرپرستی حاصل ہے،
دارالحکومت پر قبضے کے بعد حوثی مسلسل جنوبی یمن کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس کی
وجہ سے یمن میں مسلکی بنیادوں پر خانہ جنگی کا خدشہ سرپر منڈلا رہا ہے۔ یمن
کی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے، اس بغاوت کا اثر سعودی عرب کی سلامتی پر
براہ راست پڑے گا، کیونکہ عراق کے بعد ایران کو سعودی سرحدوں کے قریب یمن
میں بھی پاؤں جمانے کا موقع مل گیا ہے۔ سعودی عرب اتحادیوں کی مدد سے حوثی
بغاوت کو کچل کر ایک طرف تو قانونی حکومت بحال کرانا چاہتا ہے تو دوسری طرف
وہ اپنی قومی سلامتی کا بھی تحفظ چاہتا ہے۔ اس موضوع پر مزید باتیں اگلے
کالم میں ہوں گی، ان شاء اﷲ!
|