میں کئی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ
پاکستان میں فوجی حاکمیت کی حامی سیاسی جماعتوں اور اس کی مخالف سیاسی
جماعتو ں سے متعلق صورتحال کو اپنا موضوع بناؤں۔بعض مصروفیات کی وجہ سے اس
تحریر میں تاخیر ہوئی۔گزشتہ روز آزاد کشمیر کے ’منی لندن ‘ کہلائے جانے
والے میر پور کے ضمنی الیکشن سے متعلق ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔میر پور
کے ضمنی الیکشن میں بڑی ڈرامائی تبدیلی اس وقت واقع ہوئی جب مسلم لیگ(ن)
آزاد کشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر خان نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ارشد
محمود غازی کی الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کیا۔مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس
دستبرداری کو پیپلز پارٹی کے امیدوار چودھری اشرف کی حمایت میں اور عمران
خان کی پی ٹی آئی کے امیدوار بیرسٹر سلطان محمود چودھری کی مخالفت میں
سمجھا جا رہا ہے۔اس سے پہلے مختلف خبروں میں بتایا گیا تھا کہ چند وفاقی
شخصیات اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو اس بات
کا فیصلہ کرے گی کہ ’پی ٹی آئی‘ کے امیدوار کا مقابلہ چودھری اشرف اور ارشد
غازی میں سے کون کرے گا۔اس کالم کی اشاعت تک میر پور کے انتخابی دنگل کا
فیصلہ ہو چکا ہو گا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پاکستان کی سیاست میں جو ’مفاہمت
کی سیاست‘ جاری ہے،وہ ابھی تک آزاد کشمیر میں شروع نہیں کی جا سکی۔اس کے
نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کو مرکزی رہنماؤں کی ہدایات پر ایسے فیصلے قبول
کرنا پڑے ہیں جس سے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے مایوسی کا
اظہار کیا گیا۔سفارشی ہدایت پر پنجاب اسمبلی کے ایک رکن کی اہلیہ کو مسلم
لیگ(ن) کی طرف سے آزاد کشمیر اسمبلی کی رکن بنوانے سے وزیر اعظم چودھری
عبدالمجید کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے اور اب میر پور کے ضمنی
الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کو پیپلز پارٹی کے امیدوار کے حق میں
دستبردار کرانے تک کی ہدایات نے مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے کارکنوں اور
رہنماؤں کو بڑے سیاسی نقصانات سے دوچار کیا ہے۔یہاں مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر
کے رہنماؤں کے سامنے ایک بڑا سوال یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا وہ اپنی مرکزی
قیادت کی پالیسی دیکھتے ہوئے آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اسی طرح
کا باہمی تعاون پر مبنی روئیہ اپنا لیں جس طرح مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی
نے پاکستان میں ایک دوسرے سے تعاون کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے؟آزاد کشمیر
میں لیگی کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ مرکزی رہنما انہیں بار بار قربانی کا بکرا
بنا رہے ہیں۔بعض ’’ ظالم لوگ‘‘ یہ بھی کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر متنازعہ خطہ
ہے ،اس لئے اس کی قربانی جائز نہیں ہے،قربانی اپنی ملکیتی چیز کی ہی دی جا
سکتی ہے۔آزاد کشمیر کے لیگی کارکن یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وفاق اور پنجاب میں
مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہونے کے باوجود آزاد کشمیر کی مسلم لیگ(ن) کو وفاقی
اور پنجاب حکومت کی سطح پر بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے تا ہم قربانی
دینے کے لئے ہی آزاد کشمیر کا مظلوم خطہ یاد آ جاتا ہے۔کارکنوں کا یہ بھی
کہنا ہے کہ وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے
کہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کو مضبوط بنایا جائے اور نہ ہی ان کی طرف سے
اس بات کا کوئی احساس نظر آتا ہے کہ کشمیریوں کو وزیر اعظم نواز شریف سے
بڑی توقعات ہیں لیکن موجود صورتحال اس تعلق کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔اس
تمام صورتحال سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر
کی کمزوریوں کی وجہ سے مرکزی رہنماؤں کی ہدایات کو من و عن تسلیم کرنا
مجبوری بن چکی ہے۔کئی مسلم لیگی اس بات کے شاکی ہیں کہ آزاد کشمیر میں اب
تک مسلم لیگ (ن) کے عہدیداران کا ایک بھی اجلاس منعقد نہیں ہو سکا ہے۔مسلم
لیگ(ن) کے رہنماؤں کو ان تمام عوامل اور صورتحال کا ادراک کرنا ہو گا
کیونکہ ان کے فیصلوں کے نتائج تمام خطے کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔
پاکستان کا سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ سول حکومت پر فوج کی بالادستی محیط تو
تھی ہی،اب آئین و قانون کا حصہ بھی بن چکی ہے۔’ملٹری ڈیمو کریسی ‘ کے حامی
سیاسی گروپوں کی تعداد درجنوں کو پہنچ چکی ہے۔اگلی کوشش یہی نظر آتی ہے کہ
تابعدار اور احسان مند سیاسی گروپوں کی صورت عوام کو ’نئے پاکستان ‘ کا
سپنا دکھایا جائے۔ایسے سیاسی مفاد پرستوں کی ایک مثال آزاد کشمیر کے ایک
سیاستدان ہیں جو یہ قرار دینے کی کوشش میں ہیں کہ ’’ افواج پاکستان ہی
درحقیقت مملکت پاکستان ہیں‘‘،اس طرح کے’’ مائینڈ سیٹ‘‘ کی ترویج ملک و عوام
کو برباد کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔یوں مارشل لاء لگائے بغیر ملک کا
نصیب لکھ دیا گیا ہے۔لیاقت علی خان کے قتل سے لیکر مارشل لاء کی کارگزاریوں
تک جو بیج بوئے گئے اس کی فصل مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت بھگتنا پڑی
اور اس کے بعد کی آمرانہ حکومتوں نے ملک اور عوام کو جن راہوں پہ گامزن
کیا،آج ملک و عوام کو اسی کے بدترین نتائج کا سامنا ہے ۔یعنی جن کی
پالیسیوں نے ملک و عوام کو خراب اور نامراد کیا ،انہی کی پالیسیوں کا
اختیار اب آئین و قانون کا حصہ بن چکا ہے۔حقیقی سیاسی جماعتوں کے عدم وجود
سے ملک شخصی،خاندانی،علاقائی اورفرقہ وارانہ گروپوں میں تقسیم ہے۔پاکستان
کی سیاسی جماعتوں پر ملک میں سیاست کے دروازے بند کر کے
شخصی،خاندانی،علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپوں کی ترویج جنرل ایوب نے شروع
کی اور اس کے بعدجنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے اس چلن کو مضبوط بنایا۔آج یہ
بات اکثر سننے میں آتی ہے کہ ’’ کوئی کردار والا لیڈر ہو تو اسے تسلیم کیا
جائے‘‘،سویلین راج کو کسی صورت قبول نہ کرنے والے یہ تو دیکھیں کہ اب عوام
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا سا کردار کہاں سے لائیں،آپ نے تو ان کو بھی
نہیں بخشا۔بلاشبہ ملک کو سوچ و عمل کے کسی راستے پہ سیاسی جماعتیں ہی چلاتی
ہیں لیکن ہمارے ملک میں حقیقی سیاسی جماعتیں نہ ہونے کہ وجہ سے
شخصی،خاندانی،علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپ ہی سیاسی جماعتوں کا لبادہ
اوڑھے ہوئے ہیں۔
جس بات کو میں اپنے کالم کا موضوع بنانا چاہتا تھا وہ یہی تھا کہ جس بات کو
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مفاہمتی سیاست کہا جاتا ہے ،وہ ملٹری
ڈیموکریسی کے خلاف ایک کمزور، علامتی مفاہمت ہے۔نا معلوم کیوں میرے ذہن میں
کئی دنوں سے یہ بات آ رہی ہے کہ کیا وہ وقت آ گیا ہے کہ جب پاکستان میں
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)ملکر آئندہ عام انتخابات میں حصہ لیں گی،یا ان
دونوں کے درمیان ’سیٹ ایڈجسمنٹ‘ کا اتفاق ہو گا؟ اور کیا اس کی ابتداء آزاد
کشمیر کے اگلے سال ہونے والے عام انتخابات سے ہو گی؟ |