کئی صدیاں پہلے فاتح بیت المقدس
صلاح الدین ایوبی کاایک تاریخ سازقول ہے کہ:جہاں روٹی مزدورکی تنخواہ سے
مہنگی ہو جائے وہاں دوچیزیں سستی ہوجاتی ہیں،اوّل عورت کی عزت اوردوم مردکی
غیرت۔اگرچہ اس بات کااطلاق کسی بھی خطے، قوم یاملک پرہوسکتاہے لیکن بھارت
پریہ بات جس طرح صادق آتی ہے اس طرح سے دنیامیں اورکہیں شائد دکھائی دے سکے
۔چندروزپیشتربھارت کے ایک چینل نے بی بی سی کی تیارکردہ ایک فلم ''ہندوستان
کی بیٹی''چلائی۔یہ فلم بی بی سی اوربھارتی چینل پربیک وقت دکھانے کافیصلہ
کیاگیاتھالیکن بی بی سی کے بقول بھارتی نیوزچینل پریہ فلم دکھانے پرپابندی
عائد کردی گئی،اس سے لوگوں کااس فلم میں اشتیاق حددرجہ بڑھ گیااوربی بی سی
پرمقررہ دن سے پہلے ہی فلم چلانے کا فیصلہ کرلیا اوربھارتی چینل خسارے میں
اوربی بی سی منافع میں رہا۔
بھارتی چینل نے اپنی حکومت کی جانب سے پابندی عائدکرنے پرکچھ یوں احتجاج
کیا کہ جس تاریخ کوفلم چلانے کااعلان کر رکھاتھااس وقت ناظرین اسکرین پرایک
بڑا ساسیاہ دھبہ دیکھ رہے تھے جبکہ دورفاصلے پرایک شعلہ سادکھائی دیتارہا۔
احتجاج کایہ انوکھا اندازبھارتی عوام میں بے حدپسندکیاگیااوراس سے ناظرین
وسامعین میں حکومت کے الزام پر شدیداشتعال پیدا ہوا۔دوردرازعلاقوں میں لوگ
احتجاج کیلئے سڑکوں پرنکل آئے ۔پولیس نے لاتعدادمظاہرین کوگرفتاربھی کیااس
طرح پوری دنیا نے بھارتی پابندی کومنفی انداز میں دیکھا۔یہ فلم برطانیہ کی
مشہورانعام یافتہ فلمساز ''لیسلی اوون''نے ''بھارت کی بیٹی '' کے عنوان سے
بنائی ہے۔بھارت کی طالبہ اوردارلحکومت دہلی کی ٢٣سالہ لڑکی کی کہانی ہے جسے
اغواء کرنے کے بعدچند بدمعاشوں نے چلتی بس میں اپنی ہوس کانشانہ
بنایا۔اگرچہ۲۰۱۲ ء کاواقعہ ہے لیکن فلم بنانے کے بعداسے چندروزقبل
چلایاجانا تھا۔
بھارتی چینل نے اسکرین کوسیاہ کرنے کے علاوہ کسی اورتبصرے کوضروری نہیں
سمجھا۔چینل کی ایڈیٹوریل ڈائریکٹر نے اپنے پیغام میں کہاکہ ہم شورنہیں
مچائیں گے لیکن ہماری آواز سنی جائے گی۔ایڈیٹوریل ڈائریکٹر سونیاسنگھ کی یہ
بات صدفی صد درست ثابت ہوئی اورچینل کی ایک گھنٹے کی سیاہ اسکرین اورخاموشی
نے بھارت کے بے شماردعوؤں کاپول کھول کردیا۔اس کی جمہوریت،میڈیاکی آزادی
،اظہاررائے کی عام اجازت،عورتوں کے حقوق ،نظام عدل اورحکومتی عملداری سب
کچھ توان کے سامنے عیاں ہوگیا۔ستم بالائے ستم ملاحظہ ہوکہ بھارتی وزیرداخلہ
راج ناتھ سنگھ نے الٹا٢٣سالہ بدنصیب لڑکی کوہی موردِ الزام ٹھہرادیا۔ناتھ
سنگھ کاکہناہے کہ''اس کورات کے وقت یوں گھرسے باہر نہیں آناچاہئے تھا''۔
وزیرداخلہ کے اس بیان کو بھارتیوں نے لائق مذمت جانتے ہوئے خوب لعن طعن کی۔
فلمسازنے اس جرم میں شریک ایک شخص مکیش سنگھ کاانٹرویوکیاتھا۔جیل حکام کے
مطابق فلمسازنے یہ معاہدہ کیاتھاکہ اس انٹرویوکوفلم میں شامل نہیں
کیاجاسکتا جبکہ اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے فلم میں شامل
کرلیا تاہم فلمساز نے وضاحت کی ہے کہ اس نے اس قسم کاکوئی معاہدہ کیاہی
نہیں تھالہندامعاہدے کی خلاف ورزی کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔یہ توایک کیس ہے
جودہلی میں منظرعام پرآگیا جس کی بازگشت پوری دنیامیں سنی گئی۔اس قسم کے
بیسیوں کیس بھارت میں روزانہ ہوتے ہیں جن میں بعض کاتوبالکل پتہ ہی نہیں
چلتا بعض میں ملزموں کے خلاف مقدمات درج ہوجاتے ہیں مگراکثرملزم بچ نکلتے
ہیں۔
نیشنل کرائمزریکارڈبیوروآف انڈیاکے مطابق ٢٠١٢ء میں زیادتی کے٢٤٩٢٣ واقعات
ہوئے ۔اگراس قسم کے واقعات کاپچھلے پانچ سال کا جائزہ لیاجائے تو١٢۔٢٠٠٧ء
میں اوسط ٢٢٠٠٠واقعات ہرسال بھارت کی روسیاہی کاموجب بنے۔ دہلی شہرمیں اس
قسم کے واقعات کی تعداد ملک کے باقی حصوں سے زیادہ رہی۔ دہلی میں غیرملکیوں
کے ساتھ اکثر اوقات اس قسم کے واقعات ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ خواتین عام طور
پراپنے مقدمات کی پیروی کیلئے بھارت میں لمبے عرصے تک قیام کی متحمل نہیں
ہوپاتیں اوران کے اکثرملزمان بری ہوجاتے ہیں ۔ نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو
کے ٢٠١٣ء کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں زیادتی کے ٣٣٧٠٧ واقعات کے
مقدمات درج ہوئے ،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ واقعات پچھلے برسوں سے مسلسل
بڑھ رہے ہیں اوران کے تدارک کیلئے بھی کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے۔
یہ کثیرتعدادتوان مقدمات کی ہے جن میں عورتوں سے زیادتی ہوئی اورانہوں نے
ہمت کرکے مقدمات درج کروائے جبکہ بیشترتعدادتوان خواتین کی ہے جوخوف اور
بدنامی کی بنا پر مقدمات درج کروانے سے گریزکرتی ہیں یاان کوجان سے مار
دیاجاتا ہے۔ ٢٠١٣ء میں عورتوں کے اغوا کے٥١٨٨١ مقدمات درج ہوئے ۔جہیزنہ
لانے یا اس سے متعلقہ مقدمات کی تعدادتین لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے۔ان میں
غیراخلاقی مقدمات سے لے کر دیگرمقدمات بھی شامل ہیں۔اگرچہ عورتوں کے خلاف
جرائم دنیاکے معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن بھارت سب پربازی لے گیاہے اورافسوس
ناک امریہ ہے کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے مثراقدامات کی ضرورت ہی نہیں
محسوس کی جا رہی۔
بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندرمودی اپنی بیوی کوتیاگ دینے کے باوجود
عورتوں کے حقوق کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔وہ اکثرعورتوں کے حقوق کے سلسلے میں
بڑی بڑی باتیں کرتے سنے گئے ہیں۔چندروزقبل خواتین کے عالمی دن کے موقع
پرموصوف نے اس بات کااعادہ کیاکہ عورتوں کے خلاف کوئی امتیازی سلوک روانہیں
رکھاجائے گااورعورت کے ساتھ ظلم وزیادتی سے ہمارے سرشرم سے جھک جاتے ہیں
۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے مذکورہ فلم کوبھارتی چینل پرنہ چلانے
کے فیصلے پرکوئی بیان نہیں دیا۔بعض مبصرین نے مودی کی خاموشی کواس معاملے
پران کی دوغلی پالیسی کانام دیاہے۔بھارتی حکومت بہت سے دوسرے ایشو ز پر اس
دوغلے پن کی مظہر ثابت ہوچکی ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی کے جوواقعات بھارت میں ہوتے ہیں ان کی مثال نہیں
ملتی۔ طبقاتی فرق اس قدرزیادہ ہے کہ جس نظام پربھارت فخر کرتاہے اورجس کی
بنیادپر جمہوریت کاراگ الاپتاہے اس میں بعض طبقات ایسے ہیں کہ انہیں سانس
لینے میں بھی دشواریاں ہیں۔مذہب،معیشت اوردیگرتمام معاملات پرلوگوں میں
پایاجانے والا طبقاتی فرق انتہائی زیادہ ہے لیکن اس کی طرف حکومت کی کوئی
توجہ ہی نہیں۔ بھارت کی حکومت کوایٹمی پروگرام،جنگ وجدل کیلئے اسلحہ کے
ڈھیرلگانے،خلااور سمندروں میں تحقیق کے نام پرقومی دولت ضائع کرنے اوراپنی
فوج کوپاکستان،چین اوردیگرہمسایہ ممالک کے خلاف کیل کانٹے سے لیس کرنے سے
فرصت ملے تووہ عوامی حقوق پر بھی کوئی دھیان دے ۔ بھارت نے اندرااورسونیا
کے روپ میں حکمران عورتیں توپیداکیں لیکن عام عورت اورلڑکی کو معاشرے میں
مقام نہیں ملا،مقام تودورکی بات ہے ان کی عزت تک پامال ہونے سے بچانے کی
کسی کوفکرنہیں۔ بھارتی عورت بالی وڈمیں عزت کماسکتی ہے مگرگھریلوناری عزت
سے محروم آگ میں جلنے سے پرمجبورہے۔
نریندرمودی جس طمطراق سے اقتدارمیں آئے ان کےکرتوت اسی تیزی سے زوال کی طرف
لیجارہے ہیں۔ بھارت سرکارکے خلاف وہاں کاکسان بھی اٹھ کھڑاہوا ہے۔ بھارت
میں معروف سماجی کارکن انا ہزارے ایک مرتبہ پھردہلی کی سڑکوں پرنکل آئے
ہیں۔انانے ٢٠١١ء میں کرپشن کے خلاف بڑے پیمانے پر چلائی جانے والی تحریک کی
قیادت کی تھی جس نے دہلی کو ہلاکررکھ دیاتھالیکن اب وہ مشتعل کسانوں کے
جتھے کے ہمراہ احتجاج کیلئے نکلے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ سیاست دان اراضی
قانون میں اصلاحات کے نام پرکسانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
اناہزارے نے کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اراضی قانون میں اصلاحات
اصلاًزمینوں پرقبضہ سے پہلے یہ کام انگریزکیاکرتے تھے لیکن آج بھارت میں
انگریز سے بھی بدتر حکومت برسراقتدارہے کیونکہ کسانوں کے ساتھ اتناظلم
توکبھی انگریز نے بھی نہیں کیاتھا۔معاملہ دراصل یہ ہے کہ وزیراعظم
نریندرمودی اوران کی جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی محض ایک سال پرانے اراضی
قانون میں ترمیم کرناچاہتے ہیں تاکہ بقول ان کے اسے مزیدکاروباردوست
بنایاجائے۔یہ قانون کانگرس نے منظورکیاتھا۔ایک عشرے سے بھی زائد عرصے سے
بھارت کویہ تکلیف دہ مسئلہ درپیش ہے کہ صنعت اور انفراسٹرکچرکیلئے زرعی
زمینیں کیسے حاصل کی جائیں کیونکہ اس کام میں انہیں کسانوں کی طرف سے سخت
مزاحمت کا سامناہے جن کاذریعہ معاش ہی ان کی زمین ہے۔پچھلی کانگرس حکومت نے
تحویل اراضی کیلئے قانون کے ذریعے سے تنازع حل کرنے کی کوشش کی تھی۔کانگرس
نے نئے قانون کے بارے میں کہاتھاکہ اس میں کسانوں اورصنعت کاروں،دونوں کے
مفادات کامنصفانہ طورپرلحاظ رکھاگیاہے۔
تاجراورکاروباری حضرات نے اس قانون پرکڑی تنقیدکرتے ہوئے کہاکہ اس نے
زمینوں کاحصول ناممکن بنادیاہے لیکن اب نریندرمودی جو ملک میں صنعت کاپہیہ
تیز کرناچاہتے ہیں، بھارت کے انتہائی حسا س سیاسی مسئلے کوچھیڑرہے ہیں۔
دسمبر کے اواخرمیں ان کی حکومت نے ہنگامی آرڈیننس منظورکرکے کسانوں کی
رضامندی اور سماجی اثرات کاجائزہ لئے بغیرجبری طورپرتحویل اراضی کی اجازت
دے دی ہے۔ اب پارلیمنٹ کابجٹ اجلاس شروع ہونے کے بعدحکومت کے پاس ضروری
قانون سازی کی منظوری لینے کیلئے چھ ہفتے ہیں تاکہ ان ترامیم
کوپائیدارقانون کی شکل دی جاسکے۔کانگرس اوربیشتراپوزیشن جماعتوں نے عزم
کیاہے کہ وہ یہ ترامیم کسی صورت منظور نہیں ہونے دیں گی۔زیادہ ترتجزیہ
نگاروں کاکہناہے کہ بی جے پی کی متنازع ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہونامشکل
ہے،خاص طورپرایوان بالاسے جہاں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں لہذا اسے
خاموشی سےمستردہونے دیاجائے گا۔ |