یہ بات تو واضح ہے یمن کی جنگ کے
اصل فریق ایران اور سعودی عرب ہیں۔ مشرق وسطی کے دیگر ممالک جہاں جہاں بھی
کشیدگی یا جنگ ہورہی ہے، وہاں کے بھی اصل فریق یہی ممالک ہیں۔ اس خطے میں
امریکا تیسرے فریق کے طور پر موجود ہے، یہ اپنا وزن کبھی ایک پلڑے میں ڈال
دیتا ہے تو کبھی دوسرے پلڑے میں، یہ سعودی عرب کا دوست ہے اور نہ ایران کا
دشمن، اگر اس کا فائدہ ایران کی سرپرستی کرنے میں ہوتو وہ ایک لمحے کی دیر
کیے بغیر ایران کا سرپرست بن جاتا ہے، جیسے عراق میں ہم نے دیکھا، دونوں
ملک صدام کے خلاف متحد تھے، اسے اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد بھی دونوں
ملک مل کر کام کرتے رہے اور اب بھی ایران اور امریکا مل کر داعش کے خلاف
لڑرہے ہیں۔ عام طور پر امریکا کو سعودی عرب کا دوست سمجھا جاتا ہے، یمن کی
جنگ میں اس نے سعودی عرب کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے مگر ہم نے دیکھا ہے
کہ امریکا کی سعودی عرب سے متعلق پالیسی بھی صرف اپنے ہی مفاد کے گرد
گھومتی ہے۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی خواہش تھی کہ امریکا
بشارالاسد کی حکومت گرانے کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کرے مگر اس نے ایسا
نہیں کیا۔
مشرق وسطی کے تین ممالک میں اس وقت جنگ جاری ہے۔ شام، عراق اور یمن، یہ تین
ملک دھماکوں سے گونج رہے ہیں۔ شام اور عراق جنگ میں کوئی بھی فریق پاکستان
سے تعاون کی درخواست نہیں کررہا ہے، اس معاملے میں صرف اخلاقی حمایت یا
مخالفت کرکے پاکستان کام چلالیتا ہے لیکن یمن کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔
یہاں سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد پاکستان سے خاص قسم کے کردار کی
توقع رکھتا ہے۔ یمن جنگ میں پاکستان کا کردار کیا ہو؟ اس معاملے پر نا صرف
پاکستان میں بحث گرم ہے، بلکہ مشرق وسطی اور اس خطے سے دلچسپی رکھنے والے
دیگر ممالک بھی پاکستان پر فوکس کیے ہوئے ہیں۔
یمن کے معاملے پر پاکستان کے پاس کئی آپشن ہیں۔ ملکی مفاد اور قومی سلامتی
کو سامنے رکھتے ہوئے ان پر غور کیا جاسکتا ہے۔ پہلا آپشن تو یہ ہے کہ
پاکستان اس جنگ میں غیرجانبدار رہے، بہت سے لوگ حکومت سے اس آپشن کو اختیار
کرنے پر اصرار کررہے ہیں، ان لوگوں کا موقف ہے کہ پاکستان کو کسی بھی فریق
کا ساتھ نہیں دینا چاہیے، یہ ایک علاقائی تنازع ہے، لہٰذا علاقے کے ملکوں
کو ہی یہ تنازع حل کرنے دیا جائے۔ بظاہر یہ بات بڑی خوب صورت ہے اور دل کو
بھاتی ہے مگر یہ رائے رکھنے والے دوست ایک اہم نکتے کو نظرانداز کرگئے ہیں۔
کسی بھی لڑائی میں غیرجانبدار اس وقت رہا جاسکتا ہے جب فریقین سے آپ کا
کوئی زیادہ لینا دینا نہ ہو، بہت گہری یاری دوستی نہ ہو۔ یمن جنگ میں ایسا
نہیں ہے، وہاں پاکستان کا سب سے گہرا دوست اور سب سے بڑا محسن ملک سعودی
عرب ایک فریق کے طور پر موجود ہے۔ اسے میدان جنگ میں تنہا چھوڑکر محض دور
کھڑے ہوکر صرف بیان بازی کافی نہیں ہوسکتی۔ غیرجانبداری مشکل وقت میں دوست
سے دغا کے مترادف ہوگی۔ پاکستان اس جنگ میں غیرجانبداری افورڈ نہیں کرسکتا،
اگر یہ پالیسی اختیار کی گئی تو پاکستان اپنے سب سے اچھے دوستوں کا اعتماد
کھو بیٹھے گا۔
دوسرا آپشن یہ ہے، پاکستان جنگ میں حصہ لینے کی بجائے ثالثی کی کوشش کرے
تاکہ خطے میں آگ بجھ سکے۔ بہت زبردست تجویز ہے، یہ ہر شخص کے دل کی آواز
ہے، ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ تمام مسلم ممالک اپنے اختلافات بھلاکر متحد
ہوجائیں۔ پاکستان اگر یمن میں لگی آگ بجھا سکتا ہے تو اس سے اچھی بات بھلا
اور کیا ہوسکتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ثالثی کرنے کی بات اتنی سادہ نہیں
ہے جتنی سمجھی جارہی ہے یا بیان کی جارہی ہے۔ دراصل یمن کا مسئلہ پورے مشرق
وسطی کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ گزشتہ کالم میں اس پر تفصیل سے بات کی ہے،
خلاصہ یہ ہے کہ ایران مشرق وسطی کے مختلف ممالک میں آباد اہل تشیع کی مدد
سے خطے پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے، اہل تشیع کو منظم اور مسلح
کرکے عرب حکمرانوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جارہی ہے، دوسری طرف عرب
حکمران ایران کی بالادستی روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں، اسی
وجہ سے کئی عرب ملکوں میں لڑائیاں ہورہی ہیں، یمن کا مسئلہ بھی یہی ہے،
وہاں ایران نے اپنے ہم مسلک حوثیوں کے ذریعے سنی حکومت کا تختہ الٹ دیا، جس
کی وجہ سے ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ یمن سمیت پورے
مشرق وسطی میں امن تب آئے گا جب ایران اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو ترک
کرکے خطے میں مداخلت بند کردے، پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ایران
کو توسیع پسندانہ عزائم سے دستبردار کراسکے، اس لیے وہ ثالثی کیسے اور کس
بات کی کرے گا؟ یمن جنگ تو مشرق وسطی کی سیاست کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے،
اگر وہاں جنگ بندی ہوگئی، حوثی باغی دارالحکومت خالی کرکے اپنے گھروں کو
لوٹ گئے، قانونی حکومت دوبارہ بحال ہوگئی تب بھی خطے میں مستقل امن نہیں
ہوگا، سال دو سال بعد یہ جنگ پھر کسی اور علاقے میں چھڑ جائے گی۔ مسئلے کا
مستقل حل وہی ہے جو پہلے عرض کرچکا ہوں یعنی ایران جب تک اپنی مداخلت کی
پالیسی ترک نہیں کرتا، خطے میں گڑبڑ جاری رہے گی۔ پاکستان سعودی عرب اور
دیگر خلیجی ممالک کو تو اس بات پر قائل کرسکتا ہے کہ وہ یمن پر حملے روک
دیں، شام اور دیگر علاقوں میں ایران مخالف قوتوں کی فنڈنگ بھی بند کردیں
مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ایران عرب ملکوں میں مداخلت کرنا بند کرے،
ایران کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ توسیع پسندانہ پالیسی اس کے
انقلاب کے مقاصد کا اہم جز ہے، اس لیے پاکستان کو ثالثی کے چکر میں پڑنے سے
کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان نہ تو غیرجانبدار رہ سکتا ہے اور نہ ثالثی کرنے کی پوزیشن میں ہے،
پھر کیا کرے؟ پاکستان کو اپنے قومی مفاد کے لیے یمن جنگ کا حصہ بننا چاہیے،
اب دو سوال ہیں، کس کا ساتھ دیا جائے اور کس حد تک دیا جائے؟ ایک طرف حوثی
باغی ہیں، جنہوں نے دارالحکومت پر قبضہ کیا ہوا ہے، سوائے ایران کے دنیا کا
کوئی بھی ملک اس قبضے کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ ایران کھل کر ان باغیوں کا
ساتھ دے رہا ہے، اس کے فوجی کمانڈر اور پائلٹ بھی یمن میں موجود ہیں۔ لازمی
بات ہے پاکستان باغیوں اور ان کے سرپرست ایران کا تو ساتھ دینے سے رہا، وہ
اپنے بھائیوں سے بڑھ کر دوست سعودی عرب ہی کا ساتھ دے گا، یہ تعاون کس
نوعیت کا ہو اور کس حد تک ہو، اس پر مختلف آراء ہیں۔ اس معاملے میں اصل چیز
دیکھنے کی یہ ہے کہ سعودی عرب ہم سے کیا تعاون چاہتا ہے، سعودی عرب کی یمن
سے سرحدیں ملتی ہیں، اس لیے حوثی بغاوت کی وجہ سے اسے براہ راست ملکی
سلامتی کے مسائل کا سامنا ہے، اسی وجہ سے اس نے باغیوں پر حملے کیے ہیں
تاکہ وہ بھاگ جائیں اور قانونی حکومت بحال ہوجائے، اس سے سعودی سرحدیں بھی
محفوظ ہوجائیں گی۔ ابھی تک جو صورت حال سامنے آئی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ
سعودی عرب یہ جنگ صرف عرب ممالک کی مدد سے ہی لڑنا چاہتا ہے، وہ پاکستان
سمیت کسی اور ملک کو جنگ میں شمولیت کی دعوت نہیں دے رہا۔
سعودی عرب لڑائی کے لیے پاکستان سے فوج مانگ ہی نہیں رہا مگر یہاں ایک
مخصوص لابی نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ صورت حال کا دوسرا رخ یہ ہے کہ
ابھی تک ایران نے باغیوں کی حمایت میں کسی مسلح ردعمل کا اظہار نہیں کیا،
اگر ایران اس جنگ میں کود پڑتا ہے یا حوثی باغی سعودی عرب کا رخ کرلیتے ہیں
تو اس صورت میں سعودی عرب کو اپنے دفاع کے لیے پاکستان کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
یہی وہ نقطہ ہے جس پر حکومت نے کہا ہے کہ ایسی صورت حال ہوئی تو پاکستان
برادر ملک کا دفاع کرے گا، میرے خیال میں حکومت اور پاک فوج نے بہترین حکمت
عملی اختیار کی ہے، پاکستان جنگ کا حصہ ہے اور نہ ہی وہ غیرجانبدار ہے، اس
کی ساری حمایت عوامی خواہشات کے عین مطابق برادر ملک سعودی عرب کے ساتھ ہے،
ہم نے ہر جنگ میں یہی توقع رکھی کہ سعودی عرب پاکستان کا ساتھ دے اور اس نے
بھرپور ساتھ دیا، اب پاکستان کی باری ہے، اچھی بات یہ ہے کہ حکومت اور
افواج اپنے محسن کے ساتھ کھڑی ہیں۔ |