تباہ کن جنگ سعودی عرب کے مفاد میں نہیں

یمن مغربی ایشیاء میں واقع مشرق وسطیٰ کا ایک مسلم ملک ہے ۔اس کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب ہے ۔یمن میں جاری لڑائی ایک فرقہ وارانہ تنازعہ ہے جس نے پورے یمن کی امن و سلامتی کو برباد کر رکھا ہے جس میں ایک طرف حکومت مخالف گروہ ہیں اور دوسری طرف حکومت ایک عرصہ سے حالت جنگ میں ہے کیونکہ دونوں اطراف سے آپس میں جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ مگر اب اس کشیدگی کا دائرہ بعض وجوہ کی بناء پر بہت وسیع ہو چکا ہے جو کہ اگر ایسی تمام وجوہ کو مد نظر رکھا جائے اور عمیق نظری سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان تواتر سے جاری کشیدگیوں کے بالآخر یہی نتائج اخذ ہونا تھے جو کہ اب سامنے آچکے ہیں ۔چند روز سے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا یمن اور سعودی عرب کے حالات بارے تفصیل سے آگاہ کر رہا ہے اور ہر کوئی جان چکا ہے کہ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر کوئی اصلاحی تجویز یاتدبیر سامنے نہ آسکی تو ہو سکتا ہے کہ اس جنگ کا دائرہ اتنا وسیع ہو جائے کہ قبل از وقت بیان کرنا اچھا نہ لگے،مگر خدا خیر کرے!

وہ کون سا ایسا شخص ہے کہ جسے پتہ نہیں کہ یمن میں ایک عرصہ سے اقتدار اور اختیارات کے لیے کیا کچھ نہیں ہوتا رہا ۔اس خطہ میں مختلف ناموں سے تنظیمیں بنا بنا کر اور منصوبہ سازیاں کر کے حصول اقتدار کیلئے بد امنی کی فضا قائم چلی آرہی ہے ۔پھر وہ وقت بھی آیا کہ مشترکہ مشاورت سے حکومتی نظام جاری کیا گیا مگر امن و سلامتی کا برقرار رہنا پھر بھی ممکن نہ رہا کیونکہ یمن میں کشیدگی اور بد امنی کو پروان چڑھانے کے در پے دھڑوں کے پیچھے وہی اسلام دشمنی اور ذاتی مفادات کی جنگ لڑنے والے پس پردہ عناصر ہیں جو قریباً تمام اسلامی ممالک کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کی باہمی مفاد پرستیاں ،بدگمانیاں اور اقتدار و اختیار کی ہوس انھیں آپس میں شیر وشکر رہنے نہیں دیتی اور پس پردہ اسلام دشمن ممالک منافقت سے اسلامی ممالک میں دھڑے بندیاں اور دہشت گردیاں کر کے مسلمانوں میں فرقہ واریت اور مختلف تعصبات کو ہوا دیتے چلے آرہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اقتدار اور اختیار کی جنگ کے پیچھے فرقہ واریت کے امکان کو بھی قوی سمجھ لیا جاتا ہے ۔

دکھ کی بات ہے کہ مسلمان ہی مسلمان کے مخالف ہو جاتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو مارنے اور ختم کرنے کے لیئے بالآخر انہی پس پردہ قوتوں کو مدد کیلئے پکارلیتے ہیں جو در پردہ طور پر پہلے ہی اولاً بغاوتیں پیدا کر واتے ہیں اور پھر ان کی مدد کرتے ہیں جبکہ ان تمام مذموم کاروائیوں کا مقصد صرف اور صرف اسلامی ممالک کے اقتدار اعلیٰ کو کمزور کر کے بالآخر اسلام دشمنی کے اہداف پورے کرنا اور مسلمانوں کو بالآخر کمزور کر کے انھیں زیر اثر لا کر ان پر حکومت کرنا ہے ۔عراق اور افغانستان جیسے ممالک اس کی منہ بولتی تصویر ہیں ۔موجودہ حالات میں یمن کے صدر چونکہ بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لے چکے ہیں اور انھوں نے سعودی حکمرانوں کو مدد کے لیے پکار لیا ہے اور ویسے بھی سعود ی بارڈر کی یمنی پٹی کے ساتھ دونوں اطراف میں جو لوگ آباد ہیں ان کا اکٹھ ہو چکا ہے ۔وہ اپنے دینی فرقے اور ذاتی مفادات کے پیش نظر سعودی حکمرانوں کے ہمدرد یا ساتھی نہیں ہیں ۔ایسے حالات میں سعودی حکومت کی ذاتی مجبوری بھی تھی کہ وہ یمن کے باغیوں کے خلاف برسر ِ پیکار ہوتی اور اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے اپنے تعلق دار ممالک کو مدد اور تعاون کے لیے پکارا ہے ۔جس کے جواب میں حکومت پاکستان نے بھی سعودی عرب کا ساتھ دینا اپنا فرض سمجھا ہے کیونکہ پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے عوام کے اس جذبہ کو مد نظر رکھا کہ حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس اقتدار اور اختیار کی جنگ کی آگ اگر ختم نہ ہوئی تو اس کے شعلے خاکم بدہن ہر مقدس جگہ پر بھی پہنچ جائیں گے ۔جیسے عراق پر امریکیوں کی بمباری سے کئی مقدس اور اہم مقامات کی بے حرمتی بھی ہوئی اور ان مقامات کی تعمیرات کو بھی نقصان پہنچا ۔تو اس لحاظ سے حکومت پاکستان کا سعودی عرب سے تعاون کرنے کا فیصلہ برا نہیں ہے ۔مگر ہماری حکومت کے برسر اقتدار حکمرانوں کو چاہیئے کہ یمن کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل کروانے میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کریں کیونکہ ہمیشہ ہر طرح کے حالات جنگ و جدل اور اصلاحی بات چیت کے متقاضی ہوتے ہیں ۔

ملکوں اور قوموں کے ایسے تنازعات کے لیے اقوام متحدہ ایک با وثوق اور اعلیٰ فورم ہے ،چاہیئے تو یہ تھا کہ وہ ادارہ ازخود کوئی فیصلہ کر کے اپنے ہونے کی افادیت کو ظاہر کرتا مگر کیا کیا جائے کہ اس ادارے نے ہمیشہ اپنے آقاؤں کی آشیر باد پر اقدام کئے ہیں ۔جبکہ اس کے سرگردہ ذمہ داروں کے حالات یہ ہیں کہ عراق تباہ و برباد ہوگیا ،بے شمار بے گناہ عوام مارے گئے اور پھر رپورٹ آگئی کہ اس خطے میں کوئی خطرناک یا قابل اعتراض ہتھیار موجود ہی نہیں ہے ۔لہٰذا اب ان کی طرف سے کسی فیصلے کا انتظار کرنا امت مسلمہ کے حق میں بہتر نہیں ہے ۔ہمارے ملک کے سیاسی حالات بھی ایسے قابل تعریف حالات میں نہیں ہیں کہ یہاں آل پارٹیز کانفرنس بلا کر یہ توقع کی جائے کہ تمام لوگ اخلاص پر مبنی آراء اور نیک ارادوں سے کوئی فیصلہ کر پائیں گے ۔لیکن چونکہ حکومت کے اوپر یہ الزام ضرور آنا ہے کہ انھوں نے سعودی حکومت کے ساتھ تعاون کا فیصلہ تنہا اور یکطرفہ کیوں کر لیا ہے ۔لہذا مناسب ہوگا کہ آل پارٹیز کانفرنس بلواکر بہتر تدبیر تلاش کی جائے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب پاکستان کا ہر طرح سے خیر خواہ اور مشکل وقتوں پر کھلے دل سے امداد و تعاون کرنیو الا اسلامی ملک ہے اور سعودی حکمرانوں کی مقدس مقامات اور عبادات کی ادائیگی کے معاملہ میں گہری دلچسپی ،تعمیر و ترقی اور محنت و محبت قابل داد ہے ۔شاہ سلیمان نے پاکستانی حکومت اور عوام کی محبت اور تعاون کا شکریہ بھی ادا کیا ہے ۔مگر حکومت کو چاہیئے کہ ملک میں اس معاملہ میں سیاسی ہم آہنگی کیلئے ضرور اقدام کرے نیز سعودی عرب اور یمن کی جنگ میں کوئی حکمت و تدبیر سے جنگی حالات پر قابوپانے میں معاونت کرے کیونکہ بعض یورپین ممالک تو اسلام دشمنی ،وسائل پر قابض ہونے اور اسلحہ فروخت کرنے کے چکر میں اپنی کاروائیاں بند نہیں کریں گے جس سے سعودی عرب کے حکمرانوں کا استحکام خطرے میں پڑھنے اور عالمی سطح پر جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کا بھی امکان موجود رہے گا ۔اسی وجہ سے یہ تباہ کن جنگ سعودی عرب کے مفاد میں نہیں ہے ۔
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 103021 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.