مایوسی کفر ہے
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
دہشت گردی ،بھتہ خوری ،ٹارگٹ کلنگ ،خودکُش حملوں،بم دھماکوں اور بارودکی
بُوسے رچی فضاؤں کے باوجودوطنِ عزیزمیں امیدوں اور آشاؤں کی تواناکرنیں
پھوٹ رہی ہیں۔گھٹنوں کے بَل رینگتی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہورہی ہے ،مہنگائی
کے طوفانِ بلاخیزکے آگے بندباندھنے کی کوششیں ثمرآور ہورہی ہیں۔دہشت گردی
کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جری جوان اپنے خون سے عزم وہمت کی لازوال
داستانیں رقم کررہے ہیں اورعالمی اعتمادآہستہ آہستہ بحال ہورہا ہے ۔یہ سب
کچھ اِس لیے ممکن ہوا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ حکومت اورفوج ایک
صفحے پرہے ۔افہام وتفہیم کی اِس فضاء میں اُمید ہوچلی ہے کہ بوستانِ وطن
میں بہارآنے کوہے۔لاریب اُمیدکے دیپ جلانے میں کچھ حصہ ہمارے پرنٹ
اورالیکٹرانک میڈیاکا بھی ہے ۔ہمارامیڈیاآزاد بھی ہے اوربے باک بھی ۔یہ بے
باکی اکثر اپنی حدوں سے تجاوزبھی کرجاتی ہے لیکن اِس کے باوجودبھی تسلیم
کرناپڑے گاکہ اسی میڈیانے اذہان وقلوب کے آئینوں کی دھندلاہٹ کویوں صیقل
کیاہے کہ اب اِن میں’’رہبروں‘‘کا ظاہری نہیں باطنی عکس دکھائی دینے لگاہے ۔ابھرتے
ہوئے شعورکی روشنی شبِ تارمیں دراڑیں ڈال رہی ہے اورعوامی شعور آگہی کے
زینے ایک ایک کرکے طے کرتا جارہاہے ۔جب عوامی شعوراِس منزل تک پہنچ جائے
توپھر مایوسیاں ہوا ہوجاتی ہیں اورآشاؤں کی تتلیاں فضائے بسیط میں رقص کناں
ہو جاتی ہیں۔
ابو العلا معری نے کہا ’’بھیڑیے کی سب سے بڑی تمنایہ ہوتی ہے کہ وہ
چرواہابن جائے‘‘۔ ایسی ہی خواہش ہمارے لندن میں بیٹھے الطاف بھائی نے بھی
پال رکھی ہے لیکن وقت بدل چکا۔ اب عنانِ حکومت اُن لوگوں کے ہاتھ میں جو
کراچی کی روشنیاں لوٹانے کاعزم کرچکے ہیں ۔کیاکبھی کسی نے تصوربھی کیاتھا
کہ کوئی نائن زیروکی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھ سکے گا؟۔کیاکوئی سوچ بھی
سکتاتھا کہ شہرِقائد کے’’ نوگوایریاز‘‘ ختم اورساری رکاوٹیں دورکردی جائیں
گی ؟۔پتہ سب کوتھا لیکن زبانیں گُنگ ۔وزیرِداخلہ چودھری نثارنے بہت پہلے
کہہ دیاکہ ایجنسیوں کی رپورٹس موجودہیں ،ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوروں کی شناخت
کرلی گئی ہے ،اُنہیں معلوم ہے کہ کون کِس کی سرپرستی کررہا ہے ۔اُنہوں نے
تویہاں تک کہہ دیا کہ عسکری ونگزکی رپورٹس موجودہیں ۔پھرپتہ نہیں کس مصلحت
کے تحت اُنہوں نے یہ بھی کہہ دیا’’یہ رپورٹس سپریم کورٹ کے لیے نہیں‘‘۔سبھی
جانتے تھے کہ نوگو ایریاز ،عقوبت خانے اورٹارگٹ کلنگ سب اُسی دَورکی
پیداوارہیں جب مہاجرقومی موومنٹ نے جنم لیااور ہرکسی کواپنی آغوشِ محبت میں
سمیٹ لینے والاکراچی لسانی ،نسلی اورگروہی منافرتوں میں یوں تقسیم ہواکہ
ایک کراچی کے اندرکئی کراچی بن گئے ۔وقت کے ساتھ ساتھ ہرجگہ عزیربلوچ
اوربابالاڈلا جنم لینے لگے اورکراچی یوں خونم خون ہوتاچلاگیا۔ جتنی لاشیں
مصر اورشام میں ایک سال میں گرتی رہیں اُتنی کراچی میں ایک ماہ میں لیکن
ایکشن کی ہمت کسی میں نہ تھی ۔ الیکٹرانک میڈیابھی خوف کی فضاء میں ایم
کیوایم کے قائد الطاف حسین کی تقاریر گھنٹوں بلکہ پہروں نشر کرتا رہا جس
میں سوائے بڑھکوں اور ’’تَڑیوں‘‘ کے کچھ نہیں ہوتا تھا ۔ایم کیوایم کا
سیاسی جماعت ہونے کا حق سبھی تسلیم کرتے ہیں لیکن اگر سیاست میں دہشت کا
عنصر بھی شامل ہو جائے تو پھر کسی کو بھی قبول نہیں ۔ایم کیوایم اگر واقعی
سیاسی دھارے میں شامل ہونا چاہتی ہے تو پھر اسے اپنی اداؤں پر غور کرتے
ہوئے اپنی صفوں سے بھتہ خوروں اور قاتلوں کو نکالنا ہی ہوگا ۔
بعد از خرابیٔ بسیار حکومت نے خون میں نہلائے کراچی کی روشنیاں لوٹانے
کاعزم کرہی لیا ۔اِس عزم میں افواجِ پاکستان برابر کی شریک ہیں ۔رینجرزنے
نائن زیروپر چھاپا مارکر ڈھیروں ڈھیر اسلحہ برآمدکیا اور ٹارگٹ کلرزبھی
گرفتارکیے ۔اِن ٹارگٹ کلرزمیں جیونیوز کے صحافی ولی خاں بابر کے قتل کاسزا
یافتہ مجرم بھی شامل تھا۔نائن زیروسے برآمدکیا گیا جدیدترین اسلحہ اُنہی
نیٹوکنٹینرزسے چرایاگیاتھا جوپورٹس اینڈشپنگ کے وزیرایم کیوایم کے بابرغوری
کے دَورِوزارت میں غائب ہوئے ۔جب اسلحے سے بھرے اِن کنٹینرزکے غائب ہونے
کاالزام اُس وقت کے کراچی کے ڈی جی رینجرزمیجر جنرل رضوان اخترنے براہِ
راست پورٹس اینڈشپنگ کی وزارت پرلگایاتو تب سمجھ میں آیا کہ ایم کیوایم یہ
وزارت ہرحال میں اپنے پاس رکھنے پرکیوں بضدتھی ۔اِن کنٹینرز کی گمشدگی پر
شور توبہت مچالیکن پھر سیاسی مصلحتیں آڑے آئیں اور معاملہ دبادیا گیا۔نائن
زیروپر رینجرز کے ایکشن پرایم کیوایم چیں بہ چیں تو بہت ہوئی اورمحترم آصف
زرداری نے بھی ازراہِ ہمدردی متحدہ کی پیٹھ تھپتھپانا ضروری سمجھا لیکن
ہواؤں کا رُخ دیکھ کرزرداری صاحب مراجعت فرماگئے اورایم کیوایم نے بھی اپنی
آواز دھیمی کرنے میں ہی عافیت جانی ۔اب وزیرِاعظم صاحب سے ملاقات کی بھیک
مانگتی ایم کیوایم کوواضح پیغام دے دیاگیاکہ عافیت اسی میں ہے کہ سارے
ٹارگٹ کلراور بھتہ خورحکومت کے حوالے کردیئے جائیں ۔اُنہوں نے برملا کہہ
دیاکہ وہ عروس البلاد ،روشنیوں کے شہرکراچی کی روشنیاں لوٹا کرہی دَم لیں
گے ۔
کراچی کوفوج کے حوالے کرنے کی ضِد تومحترم الطاف حسین کی ہی تھی لیکن اُن
سے یہ چوک ہوگئی کہ اُنہوں نے چیف آف آرمی سٹاف محترم راحیل شریف صاحب
کوبھی آمرپرویز مشرف جیساہی جانا۔اُنہیں نہیں معلوم تھا کہ شہیدوں کے
خاندان سے تعلق رکھنے والے جنرل راحیل شریف کی نَس نَس حبِ وطن سے لبریز
ہے۔کراچی کوفوج کے حوالے تونہیں کیاگیا لیکن رینجرزکو مکمل اختیارات دے
کرکراچی کاامن لوٹانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی جس میں کامیابی کے واضح
اشارے یوں نظر آتے ہیں کہ گزشتہ کئی دنوں سے ٹارگٹ کلنگ ہوئی نہ تاجروں کو
بھتہ خوروں کی طرف سے پرچیاں موصول ہوئیں۔ اب دیکھنایہ ہے کہ حکمران کراچی
کو ٹارگٹ کلرز ،بھتہ خوروں اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کے عزم پر قائم رہتے
ہیں یا ایک دفعہ پھر سیاسی مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں۔ |
|