پاکستان میں کچھ روایتیں ایسی
رہیں ہیں جس پر بحث لاحاصل ہی ہوتی ہے ۔ عموماََ یہی دیکھا جاتا رہا ہے کہ
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کا پلان کوئی اور بناتا ہے اور اُن منصوبوں کا
افتتاح کوئی اور کرتا ہے ، سنگ ِ بنیاد کوئی رکھتا ہے تو تکمیل پر شاباشی
کوئی اور لیتا ہے۔اگر بات سیاسی مخالفین کی ہو تو ان کے کاموں کو فنڈز
فراہم نہ کرنے کے سبب التوا میں ڈال دیا جاتا ہے۔یہاں یہ چلن کوئی نیا نہیں
ہے بلکہ ہر صاحب اقتدار یہ عمل دوہراتا رہا ہے تو دوسری جانب اگر کوئی مفاد
عامہ کا منصوبہ مکمل بھی کرلیا جاتا ہے تو اس پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ شروع
ہوجاتی ہے۔کراچی میں ایسے کئی منصوبوں کے حوالے سے جماعت اسلامی نے
اعتراضات اٹھائے تھے کہ مختلف فلائی اوورز اور بائی پاس کے منصوبے ان کے
تھے لیکن ان کے دور حکومت ختم ہونے کے بعد متحدہ کے ناظم نے اپنے نام پر یہ
منصو بیتکمیل کئے اور پھر پرویز مشرف کی جانب سے پورے سندھ کو نظر انداز
کرتے ہوئے صرف کراچی کیلئے اربوں روپوں کے خصوصی پیکچ دئیے گئے۔اسی طرح
خیبر پختونخوا میں اے این پی نے تحریک انصاف پر الزامات عائد کئے کہ ان کے
کئی ترقیاتی منصوبوں کو روک دیا گیا اور کئی منصوبوں کو فنڈز فراہم نہیں
کئے گئے ۔ کچھ اسی طرح کے معاملات ماضی میں بھی رونما ہوتے رہے ہیں لیکن
پنجاب میں جب ملتان ائیر پورٹ کا افتتاح کیا جارہا تھا تو ایسا لگا کہ جیسے
یہ پالیسی صرف پنجاب کیلئے تبدیل کردی گئی ہو۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا
گیلانی نے ملتان میں اربوں روپوں کے خصوصی منصوبے شروع کئے تھے جس میں
ملتان ائیر پورٹ کی توسیع بھی شامل تھا ، ان کی حکومت کی برخاستگی اور پی
پی پی کی حکومت ختم ہونے کے بعد پرانی روش دہرائی جا سکتی تھی لیکن یہاں
وزیر اعظم پاکستان نے ایک اچھی روایت کی بنیاد رکھی کہ مفاد عامہ کے اس
منصوبے کیلئے فنڈز کو جاری کرتے رہے اور بالاآخر ملتان ائیر پورٹ کی پر
شکوہ عمارت کا افتتاح کردیا اور خوش آئند بات یہ تھی کہ اس موقع پرمیاں
نواز شریف نے سابق وزیر اعظم کو بھی دعوت دی جس پرگیلانی بھی اس اہم تقریب
میں شریک ہوئے۔ ملتان ائیر پورٹ کی تعمیر پر نو ارب روپے لاگت آئی ہے جبکہ
جدہ اور مدینہ منورہ جانے والی پروازوں کی تعداد میں بھی اضافہ کردیا گیا
ہے جبکہ ہر سال دس لاکھ مسافر اس ائیر پورٹ کے ذریعے سفری سہولیات سے
مستفید بھی ہونگے، جبکہ ائیر پورٹ پر کارگو ٹرمینل کی سہولیات بھی دی گئی
ہیں۔اس ائیر پورٹ کی تعمیر میں تقریباََ چھ سال کا عرصہ لگا ہے ، نئے
ٹرمینل اور رن وے کی تعمیر کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ روزانہ دو ہزار
مسافروں کی آمد رفت ہوگی جبکہ جنوبی پنجاب کے شہریوں کو اب بیرونِ ملک سفر
کیلئے دوسرے شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑے گا،ملتانی آم اور سبزی کی عالمی
مارکیٹ تک رسائی بھی ممکن ہوگئی ہے۔ائیرپورٹ کی خاص بات سیکورٹی کے بہترین
انتظامات بتائے جاتے ہیں ، اے ایس ایف کنٹرول روم قائم ، جدید اسکینراور
مانٹرنگ سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے۔ ترجمان ایوی ایشن ڈویژن شیر علی خان نے
بتایا کہ ملتان ائیر پورٹ کی اس نئی عمارت پر بوئنگ 777اور بوئنگ 747بھی
اتر سکیں گے جبکہ 10ہزار میڑک ٹن ایکسپورٹ بھی بیک وقت ہوسکے گی۔ملتان کے
ترقی کے اس سفر میں جہاں شہریوں کو جدید سہولیات پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے
تو دوسری جانب ملتان انٹرنیشنل ائیر پورٹ منصوبہ کیلئے ڈیلی ویجز پر تعینات
ہونے والے ملازمین نے چار سال بعد بھی کنٹریکٹ نہ ملنے پر احتجاج کیا، ڈیلی
ویجز ملازمین کا کہنا ہے کہ عدالت عالیہ نے تین سال قبل ملتان ائیر پورٹ پر
کام کرنے والے ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کرنے کا حکم دیا تھا مگر چار سال
گذرنے کے باوجود ڈیلی ویجزملازمین کو مستقل نہیں کیا گیا، ڈیلی ویجز کے
ملازمین سول ایوی ایشن حکام کو اس بابت متعدد بار درخواستیں ارسال کرچکے
ہیں لیکن ملازمین کے مطابق ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔وزیر اعظم پاکستان
اور سیکرٹری ایوی ایشن کو ڈیلی ویجز ملازمین کی جائز مسائل اور عدلیہ کے
احکامات پر غور کرکے ان کا دیرینہ مسئلہ حل ضرور کرنا چاہیے۔ملتان ائیر
پورٹ کا منصوبہ مکمل ہوچکا ہے لیکن اس کے ساتھ صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیے
کہ ایسی روایات برقرار رکھے ، مثال کے طور پر سندھ اسمبلی کے اراکین نے نئی
عمارت بنا لی لیکن سندھ میں سالوں گزر جانے کے باوجود کئی منصوبے مکمل نہیں
ہوسکے۔ جن میں سہیون شریف منصوبہ جس کا افتتاح 1990ء میں ہوا لیکن پی پی پی
کی حکومت ابھی تک اس منصوبے کو مکمل نہیں کرسکی۔لاڑکانہ میں بے نظیر
بھٹویونیورسٹی کا منصوبہ جو ایک ارب روپے سے2008ء میں شروع ہوا ابھی تک
مکمل نہیں ہوسکا۔نواب شاہ میں دریائے سندھ پر بنائے گئے قاضی احمد آمری پُل
کی سڑک بھی نامکمل ہے ، گھارو کے قریب 20سال پہلے سندھ ویلفیئر بورڈ نے
مکانات بنائے لیکن محنت کشوں کو نہ مل سکے ، چھ کروڑ روپے کی لاگت سے بنی
کالونی سے ٹرانسفارمر ار لوہے کے دروزاے بھی چوری کرلئے گئے۔ حیدرآباد میں
ڈرینج لائن کا منصوبہ 2012ء میں شروع ہوا 91کروڑ مختص کئے گئے دسمبر2013ء
میں شروع ہونے ولا منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا۔میرپور خاص میڈیکل کالج
کیلئے2007ء میں زمین اورچھ کروڑ روپے مختص کئے گئے لیکن پروجیکٹ تعطل کا
ابھی تک شکار ہے۔ملک کو ستر فیصد ریونیو دینے والے کراچی کا حشر ہم سب
کیلئے ایک مثال ہے کہ کئی سال گذر جانے کے باوجود ابھی تک اس شہر کیلئے
کوئی ایک میگا پروجیکٹ مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔بڑی بڑی رقوم مختص رکھی تو
جاتی ہیں لیکن سرکلر ریلوے، گرین بسیں ، کے فور جیسے اہم پروجیکٹ مسلسل
التوا کا شکار چلے آرہے ہیں جبکہ ٹھٹھہ کے تین پراجیکٹ گھارو فلٹر پلانٹ سے
علی بند ننگر پار تک کوسٹل ہائی وے کی تعمیر،گھارو سے کے ٹی بندر تک ڈبل
روڈ ہائی وے کی تعمیر اور گاڑہو سے شاہ بندر تکشہید زوالفقار علی بھٹو
ایکسرپس وے کی تعمیر جیسے اربوں روپوں کے منصوبے سیاست کی نظر ہوگئے۔اسی
طرح گلگت بلتستان کے گورنر نے انکشاف کیا کہ 106ایسے منصوبے ہیں جن کی رقم
ٹھیکدار وصول کرچکے ہیں لیکن کام نہیں کیا گیا وہ ان کی وجہ سیاسی مداخلت
بتاتے ہیں۔گلگت کے تین پل برسوں سے زیر تعمیر ہیں۔ 106 منصوبوں کی رقوم کا
ٹھیکدار کو مل جانے کے باوجود کام نہ کئے جانا اور گورنر بلتستان کی جانب
سے یہ انکشاف معمولی نہیں ہے ، یقینی طور پر اس معاملے پر نوٹس لینے کی
ضرورت تھی کہ گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر کس نے نا
انصافی کی ہے۔جنوبی پنجاب میں پی پی پی گیلانی دور کے متعدد منظور شدہ
ترقیاتی منصوبے ادھورے پڑے ہیں پانچ میگا منصوبوں پر خود ان کی جماعت کے
وزیر اعظم نے گجر خان میں ترقیاتی پیکج کی وجہ سے عمل درآمد روک دیا تھا،
خاص کر جنوبی پنجاب میں احساس محرومی ہے۔ اس طرح خیبر پختونخوا میں 55
ٹھیکداروں کا ایک اسکنڈل سامنے آیا تھا جنھوں نے پیشگی رقوم لینے کے باوجود
ترقیاتی کام مکمل نہیں تھے جس پر گورنر مہتاب عباسی نے سخت ایکشن لینے کا
عزم ظاہر کیا تھا لیکن اس کے بعد کیا ہوا اس کی تفصیلات میسر نہیں۔ملتان
ائیر پورٹ کی تعمیر کی دراصل خصوصیت یہی ہے کہ مفاد عامہ کے اس منصوبے کو
کسی نہ کسی طرح مکمل کرلیا گیا ۔اب چاہیے یہ کسی سابق سیاسی جماعت کے وزیر
اعظم کے شہر کیلئے خصوصی پیکج تھا یا کچھ اور ، اس منصوبے سے جنوبی پنجاب
کی عوام کو یقینی فائدہ پہنچے گا۔لیکن ملتان ائیر پورٹ کے ساتھ جڑے ان تمام
مسائل کو بھی دیکھنا ہوگا جن کا ان سطور میں اجمالی تذکرہ کیا جاچکا
ہے۔مفاد عامہ کے منصوبوں کو کسی بھی سیاسی بنیاد پر روکنا مناسب نہیں ہے ،
اگرسیاسی کلچر پختگی وبلوغت کے معیار کا ہوتو یقینی طور پر کسی حکومت کے
آنے یا جانے سے کسی بھی ترقیاتی منصوبے کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔
صوبائی حکومتیں جہاں وفاق سے شکایتیں کرتی نظر آتی ہیں تو وفاق اپنے کم
وسائل کا رونا شروع کردیتا ہے اگر نیتیں صاف ہوں اور مقصد صرف مفاد عامہ کا
حصول ہو تو اہم ترقیاتی منصوبے مکمل کئے جا سکتے ہیں، ملتان ائیر پورٹ کی
تکمیل یقینی قابل تقلید مثال ہے۔ |