بگوش ہوش سنو، ہم سنائے دیتے ہیں
(Masood Akhter Hazarvi, )
ایک عیسائی نژاد’’ ابراہیم
‘‘نامی مسلمان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے اور پیدائشی مسلمانوں سے
متعلق خوبصورت تبصرہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ہماری اور آپ لوگوں کی مثال
ایسے ہے جیسے ایک بچہ کسی بہت امیر فیملی میں پیدا ہو۔ بچپن میں اس کے
کھلونے قیمتی ہیرے اور جواہرات ہوں۔ بڑا ہونے کے بعد اگر کوئی قیمتی ہیرا
اسے بطور تحفہ دے گا تو اس کی نظروں میں زیادہ وقعت نہ ہو گی کیونکہ وہ
جانتا ہے کہ یہ تو وہی ہے جسے وہ بچپن میں بطور کھلونا استعمال کرتا تھا ۔
لیکن دوسری طرف انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والے کو اگر کوئی قیمتی ہیرے
جواہرات بطور تحفہ دے گا تو بہت قدر دان ہو گا اور اسے سنبھال کے رکھے گا۔
اس نے کہا کہ اسلامی عقائد اور عبادات وہ ہیرے اور جواہرات ہیں جو آپکو
بچپن سے ہی دیکھنے سننے اور اپنانے کو ملے۔ شاید اسی لئے زیادہ قدر نہیں
ہے۔ لیکن خدا بیزار زندگی کے نتیجے میں بہت الجھنوں اور بے سکونیوں کے بعد
ہمیں جب یہ نعمتیں ملیں تو ان کی قدر کی اور زندگی کو پرسکون بنایا‘‘
اسی کی روشنی میں اگر بحیثیت مسلمان جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر
انسان کی شخصیت کے بنیادی طور پر دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک پہلو وہ ہے جو
لوگوں سے میل جول اور رہن سہن کے دوران نمایاں ہوتا ہے لیکن دوسرا پہلو وہ
ہے جو اہل خانہ اور عوام الناس بلکہ قریب ترین دوست احباب سے بھی پوشیدہ
ہوتا ہے اور ہرشخص ’’من آنم کہ دانم ‘‘ (میں جو کچھ بھی ہوں خود ہی جانتا
ہوں) کی مصداق اپنی خوبیوں اور کمزوریوں سے اپنی حیثیت میں فقط خود ہی آگاہ
ہوتا ہے۔ بعض اوقات اپنی خوش لباسی، جبہ و دستار یا حسن گفتگو کے پردے میں
ہم لوگوں کے سامنے اپنے اندر کے انسان کو چھپا لیتے ہیں لیکن ذاتی طور پر
ہمیں ضرور احساس ہوتا ہے کہ اصل میں ہم ہیں کیا؟ ہمارا گوشہ تنہائی میں
کردار کیا ہے اور ظاہر بین نگاہوں کے سامنے اپنے آپکو کس طرح مصنوعی طور پر
نمایاں کیا ہوا ہے۔ خالق کائنات نے انسانی وجود میں ایک خود کار اصلاحی
نظام تخلیق فرمایا ہے جو ہر لمحہ مصروف عمل رہتا ہے۔ کوئی انسان کسی بھی
سوچ یا نظریہ کا حامل ہو یا کسی بھی ماحول اور معاشرے میں زندگی گزار رہا
ہو، اپنے نہاں خانہ دل کے کسی نہ کسی پہلومیں طلب حق کی جستجو ضرور رکھتا
ہے۔ کیونکہ وہ انسان ہے۔ اس کی رگوں میں خون آدمیت محو گردش ہے۔ اور یہ خون
اُسی وجود آدم ؑخا کی کا تسلسل ہے جسے بوقت تخلیق بالفاظ قرآنی ’’ و نفخت
فیہ من روحی‘‘ کا مژدہ سنایا گیا تھا۔ کہ خالق کائنات نے فرمایا کہ وجود
آدم ؑخاکی میں مَیں نے اپنی روح پھونکی (جس طرح اس کی قدرت کاملہ ہے)۔اگر
ضمیر زندہ اورہوش و حواس برقرار ہوں تو انسان اپنی کوہتاہیوں اور لغزشوں سے
سبق حاصل کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو پہچاننے اور مقصد زندگی سے آگاہی کی کوشش
کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی مسلسل خدا فراموشی کے نتیجے میں یہ صلاحیت زنگ
آلود ہوتے ہوتے اپنی افادیت کھو بھی دیتی ہے۔
روز اول سے انسان کی ان صلاحیتوں کو اجاگر کرکے اسے صحیح منزل کا پتہ دینے
کیلئے اﷲ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت کا ایک انتہائی مربوط اور مضبوط سلسلہ
شروع فرمایا جو حضرت آدمؑ سے شروع ہو کر اﷲ کے آخری نبی محمدﷺ پر اختتام
پزیر ہوا۔دین حق کوماننے اور نہ ماننے کے حوالے سے انسان دو گروہوں میں
تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک وہ جو آخرت کی جواب دہی کا تصور دل میں جاگزیں کیے
اپنا ہر قدم اٹھانے سے پہلے انجام کی فکر کرتے ہیں ۔اور دوسرے وہ جنہیں
ایسی کوئی فکر لاحق نہیں بلکہ اس دنیوی زندگی کی رنگینیوں کو ہی سب کچھ
سمجھ بیٹھے اور فقط ان سے لطف اندوز ہونا ہی ان کے نزدیک’’ زندگی‘‘ ہے۔
الہی تعلیمات کی روشنی میں اصل مقصود ظاہر بیں سے زیادہ اندر کے انسان کی
اصلاح ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہو گا تو بات بنے گی وگرنہ ساری زندگی خود بھی الجھے
رہے اور لوگوں کو بھی الجھائے رکھا۔ اگر مشاہدات کی روشنی میں ہم جاننا اور
سننا چاہیں کہ یہ نظریاتی اختلاف اپنی اپنی ذات، سماج اور گھریلو حالات پر
کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں تو۔۔۔
بگوش ہوش سنو ہم سنائے دیتے ہیں جو کچھ حجاب ہے، وہ بھی اٹھائے دیتے ہیں
کسی بھی عمل کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ایک نظریہ، فکر یا تصور کسی ذہن
میں جنم لیتا ہے۔ یہی سوچ تبدیلی لاتی ہے اور اسی کے مطابق انسان کے لئے
جانب منزل رستے متعین ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک بہت خوبصورت عمارت یا دیدہ
ذیب محل بعد میں بنتا ہے پہلے اس کا خیالی تصور اور نقشہ کسی ماہر تعمیرات
کے ذہن میں ابھرتا ہے۔ مذہب حقیقی معنوں میں آدمیت کو شرف انسانیت سے آگاہ
کرتا ہے۔
اگر تاریخی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو انسان اور مذہب لازم اور ملزوم ہیں۔
تخلیقی مراحل طے کر کے پہلے مادی وجود میں تخلیق ہونے والے انسان حضرت آدمؑ
ہیں اور وہی اﷲ تعالی کی طرف سے بھیجے ہوئے پہلے نبی محترم بھی۔ مذہب بیز
ار بڑے بڑے ذہین لوگوں نے انسان کے تعارف اور شناخت کیلئے کئی اندازے اور
تخمینے ہر دور میں لگائے لیکن سمجھ نہ پائے کہ انسان ہے کیا اور اس کی
ابتدا کیسے ہوئی؟ لیکن بالآخر انسانی شرف و عظمت کی دھجیاں بکھیرنے کے بعد
کبھی بندر اور کبھی کیڑے مکوڑوں کے مقام پر انسان کو لے آئے۔ لیکن جو تعارف
اسے تخلیق کرنے والی ذات نے بتایا وہی اس کے اصل مقام و مرتبہ کی نشاندہی
کرتا ہے۔اور اس کے حقیقی شرف و کرامت کو برقرار رکھتا ہے۔ ہمیں واضح نظر
آرہا ہے کہ آج مادیت پرستی میں گم ہو کر اولاد آدم مذہب بیزار ہوتی چلی جا
رہی ہے۔ عبادت خانے برائے فروخت ہیں اور دل اندھیروں کے گھر۔ لیکن تعجب یہ
کہ مسلمانوں پر آفات اور مصائب کا دور ہونے کے باوجود کوئی مسجد برائے
فروخت نظر نہیں آتی بلکہ آئے روز نئی اور خوبصورت مساجد نئے نئے ڈیزائن اور
رنگوں میں بن رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو مذہب اس زمین پر جس دور میں
بھی منجانب اﷲ لاگو اور قابل عمل رہا وہی خصوصی برکات کا منبع اور محور بھی
رہا۔ بعثت مصطفویﷺ کے بعد جب نبوت کے دروازے کو بند کردیا گیا۔ خاتم النبین
کا تاج اور رحمۃاللعالمین کا اعزاز لیے جب آپ ﷺ تشریف لائے تو حقیقی معنوں
میں انسانیت نے پنجہ ظلم و استبداد سے چھٹکارہ پا یا۔ میری اور آپ کی وجہ
سے نہیں بلکہ ایک سچا مذہب ہونے کی وجہ سے اسلام میں وہ چاشنی اور لذت ہے
جو اپنے قریب ہونے والوں کو ذہنی سکون اور قلبی اطمینان عطا کرتی ہے۔ آج کے
انسان کی یہی تو وہ متاع گم گشتہ ہے جسے ڈھونڈنے کیلئے پب اور کلب آباد
ہیں۔ شیشہ پینے اور سگریٹ کے کش لگانے والے بھی اسی سکون کی تلاش میں ہیں۔
دولت کے انبار اکٹھے کرتے ہوئے غریبوں کا خون چوسنے والے اور حلال و حرام
کے فرق کو بھول جانے والے بھی اسی وہم و خیال میں ہوتے ہیں کہ سامان راحت
خریدیں گے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان رستوں کواختیار کرکے سکون کی
تلاش کی مشق بھی سوائے وقت کے ضیاء کے اور کچھ بھی نہیں۔آج تک کوئی ایسے
سکون تلاش کر نہ پایا بلکہ مزید بے سکون ہوا۔ معاشرے حیوانیت کی قبیح حرکات
پر اتر آئے اور شرف انسانیت خاک میں مل گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قلب و
ذہن کو شکوک و شبہات سے خالی کرکے مکمل یقین کے ساتھ اندر کے انسان کو
مطمئن اور پابند کریں کہ اسلام کی بابرکت تعلیمات پر مبنی رستہ ہی وہ رستہ
ہے جو مجھے دین و دنیا کی سعادت مندیوں کے ساتھ اپنی منزل مقصود تک پہنچائے
گا ۔ |
|