سیاست میں تشدد....کس کا فائدہ؟

گزشتہ روز راولپنڈی کے حلقہ این اے 55 سے قومی اسمبلی کے امیدوار اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے انتخابی دفتر پر کچھ شرپسندوں نے حملہ کیا جس میں شیخ صاحب بال بال بچ گئے۔ پہلے خبر آئی کہ ان کو بھی گولی لگ گئی ہے، ان کے پی اے صاحب بضد تھے کہ شیخ صاحب کے پاﺅں پر گولی لگی ہے اور وہ شدید زخمی ہیں لیکن ”ذرائع“کے مطابق شیخ صاحب کو گولی نہیں لگی تھی بلکہ وہ فائرنگ سے ہونے والی بھگدڑ میں پاﺅں پر زخم لگوا بیٹھے اور یہی بات بعد میں ثابت ہوئی۔ بہر حال متذکرہ بالا واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ پوری قوم کی ہمدردیاں (حملہ کی مذمت کی حد تک) شیخ صاحب کے ساتھ ہیں۔ کوئی بھی ذی شعور کسی بھی طرح فائرنگ کے گھناﺅنے اور شرمناک واقعہ کی مذمت کئے بنا نہیں رہ سکتا اور اس واقعہ کی کوئی بھی توضیح یا توجیح نہ صرف کم عقلی ہوگی بلکہ اس ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے بارہا پولیس کے اعلیٰ آفیسرز کو اپنی سکیورٹی کے لئے کہا لیکن سب نے ان کی بات ہنسی میں اڑا دی، جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ شیخ صاحب سمیت تمام امیدواروں سے کہا گیا تھا کہ اپنی نقل و حرکت سے پولیس کو مطلع کردیا کریں تاکہ ان کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام ہوسکے، نیز شیخ صاحب کا اس انتخابی دفتر کا دورہ باقاعدہ طے شدہ نہیں تھا بلکہ وہ کہیں جاتے جاتے راستہ میں رک گئے تھے۔ جو بھی وجوہات ہوں، یہ واقعہ پولیس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پولیس کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافہ کے حساب سے اس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ پنجاب حکومت جو پہلے ہی گورنر کی شکل میں ایک ”ولن“ کو بھگت رہی ہے، جو آئے دن دھمکیاں بھی دیتا ہے اور گیدڑ بھبکیاں بھی، اس کی ”گڈ گورننس“ کے لئے پنڈی والا واقعہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اب ذرا شیخ صاحب کی پچھلے دس سال کی سیاست کا ہلکا پھلکا جائزہ لیتے ہیں۔

شیخ صاحب کے انداز سیاست سے ہزار اختلاف رکھنے کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ وہ سیاست کے ایک اچھے اور زیرک کھلاڑی ہیں۔ مشرف کے نو رتنوں میں سے ایک شیخ رشید بھی تھے۔ یہ بارہ اکتوبر 99 تک نواز شریف کے ساتھی تھے اور جب مشرف نے بندوق کی قوت سے آئینی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور بزور حکومت حاصل کی تو شیخ صاحب نے بھی مشرف کا ساتھ دینے کو ترجیح دی۔ مشرف دور میں ہونے والے ”شفاف“ اور ”بے داغ“ الیکشن میں شیخ صاحب نے پنڈی سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیا۔ انہوں نے اس وقت اپنی انتخابی مہم میں بہت مرتبہ یہ کہا کہ وہ الیکشن جیت کر دونوں نشستیں نواز شریف کی جھولی میں ڈال دیں گے، شائد اس وقت تک انہیں نواز شریف کے دس سالہ معاہدہ کا علم نہ تھا۔ شیخ رشید نے الیکشن جیتنے کے بعد جن اصحاب قاف میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی تو اسی وقت پنڈی کے عوام ان سے نالاں ہوچکے تھے۔ شیخ صاحب مشرف کی کابینہ میں اہم وزارتوں پر براجمان رہے۔ یہ مشرف کی آمریت کے آخری دم تک ”دم“بھرنے والے شخص تھے، انہیں اس وقت بھی مشرف کی مخالفت کی توفیق اور ہمت نہ ہوئی جب پوری دنیا لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے غم میں ڈوبی ہوئی خون کے آنسو رو رہی تھی۔ چند دن قبل اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی تھی جس میں شیخ صاحب کے دائیں بائیں کچھ مولوی حضرات براجمان تھے جن کے جلو میں شیخ صاحب پریس کانفرنس کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ انہوں نے جامعہ حفصہ کے معاملے پر معافی مانگ لی ہے اور ”علماء کرام“ بھی این اے 55 میں ان کی حمایت کررہے ہیں۔ اگر پریس کانفرنس میں شامل تمام ”مولوی حضرات“ کو علماء کرام بھی سمجھ لیا جائے تو پھر بھی کیا معافی مانگ لینے سے معافی مل سکتی ہے؟ کیا شیخ صاحب کی اس وقت کی مجرمانہ خاموشی کا کفارہ لفظ ”معافی“ سے ادا ہوسکتا ہے(اگر شیخ صاحب براہ راست لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے ظلم میں شریک نہ بھی ہوں تو)جب معصوم بچیوں کو فاسفورس بموں کی نظر کیا جارہا تھا، جب ایک مسجد اور مدرسہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی تھی، جب مغربی آقاﺅں کو خوش کیا جا رہا تھا اور اللہ کو ناراض! کیا شیخ صاحب جامعہ حفصہ میں شہید ہونے والی بچیوں سے معافی مانگنے پر قادر ہیں؟ اور کیا وہ معصوم روحیں جو اس وقت اپنے اللہ کے مہربان سایہ میں ہوں گی وہ شیخ صاحب یا اسی قبیل کے دوسرے لوگوں کو معاف کریں گی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے نہ تو آئن سٹائن کی عقل چاہئے اور نہ منوں وزنی دماغ، صرف ایک بار سوچئے اگر ان میں شیخ رشید، چوہدری شجاعت، پرویز الٰہی، اعجاز الحق، فیصل رضا گیلانی وغیرہ کی بیٹی، بہن یا ماں شامل ہوتی تو کیا وہ پھر بھی مشرف کے سامنے بھیگی بلی بنے خاموشی اختیار کرتے؟

شیخ رشید پر ہونے والے حملہ کے بعد مختلف النوع سیاستدانوں کے بیانات کو سامنے رکھیں تو احسن اقبال کی معنی خیز باتوں میں کافی وزن لگتا ہے۔ شیخ رشید جن کی قائد کے بارے میں جلسہ ہائے عام میں ایسے جملے بھی بول دیا کرتے تھے جن کو کوئی عزت دار شخص اکیلے میں دہرانا بھی اچھا خیال نہیں کرتا تھا اب اسی جماعت کے بھاری بھرکم لیڈران شیخ صاحب کے غم میں بیہوش ہونے کے چکر میں ہیں۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ فائرنگ کا واقعہ اور شیخ صاحب کے گارڈز کا جاں بحق ہونا انتہائی گھناﺅنا اور شرمناک ہے لیکن کیا ان رہنماﺅں کے بیانات کم شرمناک ہیں جن کو جامعہ حفصہ میں ہونے والی ظالمانہ کاروائیوں پر کوئی شرم نہ آئی اور وہ اس اندوہناک اور بھیانک ظلم کے باوجود مشرف کی آمریت کی چھتری تلے پرورش پاتے رہے! شیخ رشید پر ہونے والی فائرنگ کے واقعہ سے پنجاب حکومت کی کارکردگی پر جو سیاہ دھبہ لگ چکا ہے اس کو صاف کرنے کے لئے حکومت کو فوری طور پر ہائی کورٹ کے جج سے جوڈیشل انکوائری کروانی چاہئے تاکہ مذکورہ بالا واقعہ کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور کڑی سے کڑی سزا دی جاسکے۔ کیونکہ ایسے کسی بھی اور واقعہ سے فسادات کی چنگاری بھی بھڑک سکتی ہے اور امن و امان کا سنگین مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ قوم امید کرتی ہے کہ اب تشدد کی سیاست نہیں ہوگی اور پنجاب حکومت اس سلسلہ میں فوری طور پر سنجیدہ اقدامات کرے گی کیونکہ اسی میں سب کی بھلائی اور فلاح ہے! تشدد کی راہ سے وقتی فوائد تو حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن اس سے سوائے پاکستان کے دشمنوں کے کسی اور کا فائدہ نہیں ہوسکتا اس لئے مستقبل میں ایسے کسی بھی واقعہ سے بچنے کے لئے انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 208549 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.