شیخ رشید پر فائرنگ کے واقعے نے
دارلحکومت اسلام آباد میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی ہے،
اور پاکستانی سیاست دانوں کو ایک بار پھر احساس دلا دیا ہے کہ سیاست کھیل
نہیں ہے زنانیاں دا۔۔۔ البتہ بے نظیر بھٹو اس سے مستثنیٰ ہیں۔ کیونکہ انہوں
نے مردوں سے بڑھ کر جی داری کا ثبوت دیا۔اور جان آفریں اس سیاست پر نچھاور
کردی۔شیخ رشید پر اس حملے میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے دو افراد
ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔ ہم ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے میڈیکل
سپرنٹینڈنٹ کا کہنا ہے کہ شیخ رشید گولی لگنے سے نہیں بلکہ گرنے سے زخمی
ہوئے ہیں۔ تہمینہ دولتانہ کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کے پیر میں موچ آئی ہے۔
شیخ رشید بڑے بڑ بولے ہیں۔ شیخ رشید نے جم کر جنرل مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کا
ساتھ دیا اور پانچ سال خوب اقتدار کے مزے لوٹے۔ اس دوران لال حویلی والے
شیخ رشید کے سامنے لال مسجد لال کر دی گئی اور وہ چپ رہے۔ اس لئے شیخ رشید
احمد اِس حلقے سے جہاں سے وہ ۵۸۹۱ ء کے بعد سے اب تک مسلسل چھ بار انتخاب
جیت چکے تھے۔ ۸۱فروری سنہ دو ہزار آٹھ میں ہونے والے عام انتخابات میں
پاکستان مسلم لیگ نون کے سنئیر رہنما مخدوم جاوید ہاشمی سے بری طرح شکست سے
دوچار ہوئے٬ نے شیخ رشید کو شکست دی تھی۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور
سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کو پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ سیاست کا کیا
حال ہوگیا ہے۔ پانچ برس میں ایک ڈکٹیٹر نے اس ملک کا کیا حال کردیا۔ شیخ
صاحب اس وقت بھی اس کے حمایتی تھے۔ جب معصوم بچیوں پر فاسفورس بم استعمال
کئے گئے۔ سیاست میں قاتلانہ حملے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایوب خان کے دور
میں نواب کالا باغ ان کاموں میں خوب شہرت رکھتے تھے۔ مولانا مودودی کے جلسے
میں ان پر گولی چلائی گئی۔ جس میں جماعت کا ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوا۔اس
جلسہ میں کسی نے مولانا سے کہا کہ گولیاں چل رہی ہیں آپ بیٹھ جائیں۔ جس پر
مولانا مودودی نے وہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ اگر آج میں بیٹھ گیا تو کون
کھڑا رہے گا۔ مولانا کی سنت پر ڈاکٹر نذیر شہید ڈٹے رہے۔ اور رتبہ شہادت پر
فائز ہوئے۔ سانگھڑ میں بھٹو پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ تو ان کا ملازم نورا ان
کی ڈھال بن گیا۔ لاہور میں خواجہ رفیق مال روڈ پر شہید ہوگئے۔ نواب احمد
خان قتل ہوئے۔ جن کے قتل کے الزام میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ شیر پاﺅ
پر حملہ ہوا۔ اور وہ شہید ہوگئے۔ ملک کی سیاست میں بعد میں تو گولی اور
گالی کی سیاست ایسی چلی کہ اب بم دھماکے، میزائیل، ڈرون حملے، خودکش حملے
ہورہے ہیں۔ ایک ایک واقعے میں سینکڑوں ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ شوکت عزیز تو ایک
قاتلانہ حملہ سہار نہ پائے اور بھاگ لئے۔ مشرف کئی حملوں میں بھی بچے رہے۔
اور بے نظیر ایک حملے سے بچی تو دوسرے میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ شیخ رشید
پر جو قاتلانہ حملہ ہوا اس کے کیا محرکات ہو سکتے ہیں۔ یہ شیخ رشید پر
منحصر ہے کہ وہ اس قاتلانہ حملے میں کس کو نامزد کرتے ہیں۔ لیکن ہم ان کی
رہنمائی کیلیے اس قاتلانہ حملے پر روشنی ڈال سکتے ہیں تا کہ شیخ رشید کو
مقدمے میں حملہ آوروں کو نامزد کرنے میں آسانی رہے۔ شیخ رشید نے دو چار
علما کے نرغے میں لال مسجد کے واقعے پر معافی مانگی ہے مگر ہو سکتا ہے لال
مسجد کے متاثرین نے انہیں معاف نہ کیا ہو اور انہیں سے بدلہ لینے کی کوشش
کی ہو۔ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لال مسجد کے
متاثرین نے ان پر پہلے حملہ کیوں نہیں کیا اور انتخابی مہم کے دوران ہی
کیوں حملہ کیا۔ یہ شیخ رشید ہی ہیں جنہوں نے اپنے حلقے کے انتخابات کروانے
کیلیے سپریم کورٹ تک دوڑ لگائی اور یہ بات حکومت کو پسند نہیں آئی ہوگی۔ یہ
وفاقی حکومت بھی ہو سکتی ہے اور صوبائی حکومت بھی۔ ان پر حملہ کرنے والا ان
کے مقابلے میں کھڑا کوئی امیدوار بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہماری یہ روایت رہی
ہے کہ جس کے جیتنے کی امید ہو اسے ایسے ہی راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی
ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ شیخ رشید نے خود یہ ڈرامہ رچایا ہو۔ کیونکہ
سیاستدان کیلیے انتخاب جیتنے کیلیے دو چار ساتھیوں کی قربانی کوئی بڑی بات
نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ اگر شیخ رشید کی کسی کیساتھ ذاتی دشمنی ہے تو وہ
خود اس بارے میں بتا سکتے ہیں۔
شیخ رشید احمد کو اب ملک کے عوام کا درد بہت بڑھ گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
ملک میں غریب لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ خود کشیوں کی وجہ حکمرانوں کے
ترقیاتی منصوبوں پر اربوں روپے ضائع کرنا ہے۔ ماضی میں خود شیخ صاحب یہی
کچھ کرتے رہے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک میں
بجلی کا کوئی بحران نہیں لوڈ شیڈنگ مصنوعی ہے مجھے ایک ہفتے کے لیے اختیار
دیا جائے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہ کر دوں تو لال حویلی کے باہر پھانسی لگا
دیں۔۔ |