بھارت پاکستان سے مذاکرات پر مجبور ہوا ..؟یا کیا گیا ہے

بھارت مذاکرات کرے توکرے مگر الزام تراشیاں مت کرے
اچھی بات ہے بھارت آج پاکستان سے مذاکرات کی بات کررہا ہے....
بھارت کو خطے میں امن کے لئے پاکستان کی اہمیت تسلیم کرنی ہوگی......؟

یہ پوری پاکستانی قوم کے لئے ایک انتہائی حوصلہ افزا امر ہے کہ وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنا سینہ ٹھونک کر اِس عزم اور ہمت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پوری پاکستانی قوم سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ بھارت سے ہونے والے مذاکرات میں جھکیں گے اور نہ کوئی ہمارا آسانی سے بھاؤ لگا سکے گا اور اِس کے ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہنا ہے کہ قوم ہم پر پورا اعتماد رکھے کہ ہم بھارت کی جانب سے شروع کئے جانے والے مذاکرات میں مسئلہ کشمیر اور پانی سمیت تمام حل طلب مسائل کا کیس پوری ایمانداری سے لڑیں گے کہ جِسے قوم اور ساری دنیا بھی دیکھے گی کہ ہم نے مذاکرات کے ذریعے دونوں ممالک کو درپیش بہت سے صدیوں کے مسائل کیسے حل کرلئے ہیں مگر اُنہوں نے اِس کے ساتھ ہی انتہائی افسوس کے ساتھ اِس کا بھی اظہار کیا ہے کہ بھارت میں ایک خاص طبقے کی جانب سے مسلسل منفی بیان بازی کی وجہ سے مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

میرے نزدیک اگرچہ ایک بڑے عرصے بعد خود بھارت کا پاکستان سے کشمیر سمیت دونوں ممالک کے اور بہت سے تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لئے یوں اچانک غیر مشروط مذاکرات شروع کرنے کی دعوت دینے کی خواہ کوئی بھی وجہ ہو مگر میرے خیال سے بھارت کو بھی اوروں کی طرح یہ احساس ضرور ہوگیا ہے کہ خطے میں امن کے قیام کے لئے پاکستان کی ایٹمی قوت اِسے بھی ہر صورت میں تسلیم کرنی ہوگی اِس کے بغیر اِس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ تنہا خطے میں امن کا خواب دیکھتا رہے اور امن قائم ہوجائے کیوں کہ بھارت کو یہ بات بھی مان لینی چاہئے کہ پاکستان بھی اِسی خطے کا ایک ایٹمی ملک ہے جس خطے میں بھارت آباد ہے اور اِس کے ساتھ ہی بھارت کو اِس کا بھی احساس ہونا چاہئے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار بھارت سے کئی گنا زیادہ مؤثر اور پاورفل ہیں یوں اِس بنا پر پاکستان کے بغیر اِس خطے میں بھارت اکیلے امن قائم نہیں کرسکتا جب تک اِس امن پروگرام بھی پاکستان شامل ہوکر اپنا کلیدی کردار ادا نہ کرے سو اِس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کئے جانے کے بعد جنوبی ایشیا میں امن کے پائیدار قیام کے عمل کے لئے بھارت کا خود سے پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے کا یہ عمل بہت اچھا ہوگا اور اَب دونوں ممالک کو اِس اچھے عمل کو شروع کرنے میں ذرا بھی ہچر مچر سے کام لیتے ہوئے کوئی دیر نہیں کرنی چاہئے اور ماضی کی تلخیوں کو بھلاتے ہوئے ایک نئے جذبے اور لگن کے ساتھ اِس پیس عمل کو فوری طور پر پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اپنے تئیں تمام تر کوششیں تیز کردینی چاہئیں۔

اگرچہ یہ بات کسی حد سو فیصد ضرور ثابت ہوسکتی ہے کہ بھارت کو اِس کا بھی شدت کے ساتھ احساس ہوگیا ہے کہ جب امریکا جیسی سُپر طاقت افغانستان کے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دے سکتی ہے اور اِس کے لئے لندن اور استنبول میں کانفرنسیں بھی کئی گئی ہیں تو پھر بھارت اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ خالصتاً جذبہ خیر سگالی کے تحت اپنے اچھے تعلقات ماضی کی تمام غلطیوں کو بالائے طاق رکھ کر کیوں نہیں استوار کرسکتا۔

جبکہ بھارت کی جانب سے پاکستان سے مذاکرات کی پیشکش کو امریکا سمیت اور دیگر ممالک بھی جنوبی ایشیا میں امن کے لئے مفید قرار دے رہے ہیں اور وہ اِس بات کا بھی برملا اظہار کررہے ہیں کہ بھارت کی جانب سے پاکستان سے روابط کی بحالی سے متعلق جو تجاویز پاکستان کو موصول ہوئی ہیں بھارت اِن میں مزید لچک کا مظاہر کرے اور اِس میں مزید کچھ ایسے نکات اور تجاویز کا بھی اضافہ کرے کہ جن پر پاکستان کو مذاکرات شروع کرنے میں اپنے کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہ کرنا پڑے اور یہ مذاکرات کا عمل کسی مثبت نتیجے پر پہنچ کر اختتام پذیر ہو۔اور خطے میں دائمی امن قائم ہو جس کے لئے بھارت کو اَب ہر صورت میں اپنا اہم کردار اداکرنا پڑے گا۔

اور اگر بھارت نے اَب بھی اِس جانب پاکستان کے دو قدم آگے بڑھانے کے مقابلے میں اپنے دس قدم آگے نہ بڑھائے تو پھر یہ سمجھ لیا جائے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان سے مذاکرات شروع ہی نہیں کرنا چاہتا اور وہ کسی کے دباؤ میں آئے بغیر جنوبی ایشیا میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے گھمنڈ میں مبتلا ہے اور اِسی وجہ سے وہ پاکستان سمیت دنیا کو اپنی جانب سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا جھانسہ دے کر ہر بار نکل جاتا ہے۔

اگرچہ یہ ایک حوصلہ افزا امر ضرور ہے کہ وہ بھارت جو ممبئی سانحہ کے بعد اِس بات پر بضد تھا کہ اِس سارے واقع میں پاکستان ملوث ہے مگر گزشتہ ہی دنوں بھارتی وزیر داخلہ چدم برم نے اِس بات کا برملا اظہار اور اعتراف کر کے نہ صرف بھارتیوں اور پاکستانیوں کو ششدر کر دیا بلکہ اِن کے اِس اعترافی بیان نے ساری دنیا کو بھی حیران کردیا کہ جو ممبئی حملوں کے بعد سانحہ ممبئی میں پاکستان سے متعلق من گھڑت بھارتی پروپیگنڈوں سے یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث ہے حالانکہ اَب بھارتی وزیر داخلہ کے اِس اعتراف سے کہ سانحہ ممبئی میں پاکستان ملوث نہیں ہے بلکہ اِس سارے واقع میں کوئی اور ملوث تھا جس کا نام ابوجندال ہے اور وہی ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا اور اُس نے ہی سانحہ ممبئی میں اصل کردار ادا کیا تھا ہے۔

اَب اِس کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بھارت نے محض پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے اور اِس کا وقار مجروح کرنے کے لئے ممبئی حملوں میں پاکستان کو ملوث کرنے کا ڈرامہ خود رچایا تھا حالانکہ اِس سارے بھارتی ڈرامے میں پاکستان کا حقیقی معنوں میں کوئی کردار نہیں تھا۔

جبکہ اُدھر اِس سارے مذاکراتی عمل کو شروع کرنے سے پہلے ہی بھارتی بنیے حکمران پلٹا کھا گئے ہیں اور واپس اُسی ڈگر پر چل نکلے ہیں جہاں سے اِن کی نفرت اور بغض کی شروعات ہوتی ہے اِس بھارتی روئے سے متعلق ایک خبر یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے نئی دہلی میں منعقدہ داخلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پر پرانے الزمات کو دہراتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ ممبئی حملوں میں پاکستانی ریاستی عناصر ملوث ہیں اُنہوں نے کہا کہ اگرچہ 2008اور2009میں جموں کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں لیکن اِس سارے عرصے کے دوران دراندازی میں بھی اضاضہ ہوا ہے سرحد پار سرگرم بھارت مخالف عناصر جموں و کشمیر میں دہشت گردی کررہے ہیں جبکہ اِسی اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی بائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں بھی ملک کی داخلی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اِس پریشان کن بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کا یہ خطاب اِس طرف اشارہ کرتا ہے یہ پڑھنے والے خود اندازہ کرلیں کہ بھارتی حکمرانوں کی طبیعت میں کتنی بیزاری اور الجھاؤ ہے کہ یہ اپنے ایک ہی بیان میں کیسے کیسے پینترے بدلتے ہیں کہ دنیا اِن کی عیاری اور مکاری سے فوراً واقف ہوجاتی ہے۔

جب کہ یہ بھی کتنی تعجب کی بات ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ پی چدم برم بھی ایک بار پھر اپنے اُس بیان سے پھرتے ہوئے نظر آئے جو اُنہوں نے گزشتہ دنوں دیا تھا کہ ممبئی حملوں میں پاکستان کا کوئی فرد ملوث نہیں تھا اور نہ پاکستان کا ممبئی حملوں میں کوئی کردار تھا بلکہ اِس سارے عمل میں ابو جندال نامی شخص ملوث تھا اور دوسری طرف نئی دہلی میں یہی بھارتی وزیر داخلہ پی چدم مبرم نے ایک بھارتی ٹی وی کو اپنے دیئے گئے انٹرویو میں یہ کہا کہ ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف غلط ہے کہ اِس میں ریاستی عناصر ملوث نہیں اِن کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان ذکی الرحمان لکھنوئی، حافظ سعید اور زرار شاہ کو بھارت کے حوالے کرے تو اِن کے خلاف کارروائی کریں گے۔

اِس منظر اور پس منظر میں، میں سمجھتا ہوں کہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور وزیر داخلہ چدم برم کی جانب سے ممبئی حملوں کے بعد ماضی کی طرح پاکستان پر لگائے گئے الزامات کے بعد ایک بار پھر پاکستان پر اِسی طرح لگائے جانے والے الزامات کی بوچھاڑ کرنے کا یہ مقصد ہے کہ بھارت، پاکستان کو مذاکرات کی پیشکش کر کے شائد پچھتا رہا ہے اور وہ حسبِ روایت ٹامک ٹویوں سے کام چلا کر بچ نکلنے کی راہ نکال رہا ہے جس کے لئے اِس نے پاکستان پر الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ ایک بار پھر شروع کردیا
ہے۔

اور اِسی طرح اِدھر پاکستان کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے اِس بھارتی رویئے پر اپنے ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سمیت ساری دنیا پر یہ واضح کیا ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کے تینوں واقعات کی مشترکہ تحقیقات کی جارہی ہے اور اِن کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملوں میں بیرونی ہاتھ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور بھارت میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اِس کا الزام بھارت ترنت پاکستان پر عائد کردیتا ہے اور اِس کے ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ بند کرے۔

اورجبکہ اِس کے ساتھ ہی حکومت ِ پاکستان کا یہ اُصولی مؤقف بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان نے ڈنکے کی چوٹ پر بھارت پر یہ واضح کردیا ہے کہ جامع مذاکراتی عمل کے بغیر پاکستان کا اپنے سیکرٹیری خارجہ کو دہلی بھجنا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے اور حکومت پاکستان کا یہ بھی کہنا درست ہے کہ بھارت نے اگر جامع مذاکراتی عمل میں سنجیدگی دکھائی تو تب ہی سیکریٹری خارجہ کو وہاں بھیجائے گا ورنہ پاکستان اپنے سیکرٹیری خارجہ کو ہرگز بھارت نہیں بھیجے گا۔

اِس موقع پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت پاکستان کا یہ اصولی اور دو ٹوک مؤقف ہر لحاظ سے درست ہے کہ جب تک بھارت جامع مذاکراتی عمل کو شروع کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوجاتا اُس وقت تک پاکستان اپنے سیکریٹری خارجہ کو بھارت ہرگز مت بھیجے کیوں کہ بھارت نے یہ کیا مذاق بنا رکھا ہے کہ بھارت ہر بار جامع مذاکراتی عمل کے نام پر پاکستان کے سیکرٹیری خارجہ کو بھارت بلا کر مذاکرات شروع کئے بغیر واپس پاکستان بھیج دیتا ہے جس سے پاکستان کی تضحیک ہوتی ہے۔

اَب گوٹ پاکستان کے کورٹ میں ہے کہ وہ اپنے سیکرٹیری خارجہ کو اُس وقت تک بھارت نہ بھیجے جب تک بھارت اپنے ہاتھ جوڑ کر اور ناک رگڑ کر پاکستانی سیکرٹیری خارجہ کو بھارت آنے کی دعوت نہیں دیتا کیوں کہ دنیا بھی دیکھ لے کہ اَب مذاکرات کے لئے کتنا سنجیدہ ہے۔

بہرحال! بھارت اور دنیا کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم ملک ہے او ر یہ وہ ملک ہے جو تاقیامت قائم رہنے کے لئے بنایا گیا ہے اِس پر دنیا کے نشیب و فراز کا کوئی اثر نہیں کرے گا جب تک دنیا اور اِس ملک کو بنانے والا ربِ کائنات اللہ رب العزت نہ چاہے تو کوئی مائی کا لعل اِس ملکِ پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

بس اَب بھارت پاکستان سے مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہوجائے تو بات بنے ورنہ بھارت کی جانب سے یوں ہی بیجا الزام تراشیاں اگر کی جاتی رہیں تو پھر بھارت کو یہ بات اچھی طرح سے اپنے ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اِس کی اِس بے رخی، چالاکی اور بیجا پاکستان پر الزام تراشیوں سے زیادہ نقصان بھارتی حکمرانوں اور عوام کا ہی ہوگا کیوں کہ پاکستان سے جنگ کے جنون میں زیادہ مبتلا بھارتی حکمران اور عوام ہی ہیں جس کے لئے بھارت اور اِس کی عوام اپنے سالانہ بجٹ کی ایک کثیر رقم جنگی اسلحے کی خریدنے کے لئے مختص کرتے ہیں اور وہاں کی عوام اِس جنون کی وجہ سے غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اگر یہی ہندو پاک مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ بھارتی پیسہ جو بھارت جنگی اسلحے کی خریداری کے لئے رکھتا ہے وہی رقم اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کیا کر کے گا۔ جس سے بھارت میں غربت کم ہوگی اور عوام میں خوشحالی آئے گی۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 890023 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.