روزنامہ جنگ سے منسلک سلیم صافی
کی تعارف کے محتاج نہیں وہ ناصرف جرگہ کے نام سے روزنامہ جنگ کے مستقل کالم
نگار ہیں بلکہ جیو ٹی وی پر جرگہ نام سے ایک پروگرام بھی پیش کرتے ہیں۔
سلیم صافی صاحب نے ٩ جنوری ٢٠١٠ میں طالبان کی جنگ اور مذہبی قائدین کا
کردار کے نام سے ایک کالم تحریر کیا جو بظاہر اسلیے حقائق سے بھرپور نظر
آتا ہے کہ اس کے جواب میں کسی مذکورہ کردار نے کوئی حیل و حجت نہیں کی۔
رونامہ جنگ میں شائع اس کالم کی طوالت کے پیش نظر اس کالم کو ٹکڑوں کی شکل
میں کرداروں کے نام کے حساب سے پیش کیا جا رہا ہے، مکمل مزکورہ کالم کا
مندرجہ ذیل ایڈریس ہے
https://jang.com.pk/jang/jan2010-daily/09-01-2010/col6.htm
طالبان کی جنگ اور مذہبی قائدین کا کردار - جرگہ سلیم صافی
اس دور کے اخبارات بھی گواہ ہیں اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ
1997 کے
انتخابات میں حسب خواہش کامیابی نہ ملنے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اعلان
کیا تھا کہ وہ پاکستان میں بھی طالبان طرز کی حکومت نافذ کریں گے۔ بل کلنٹن
کے دور میں طالبان کے خلاف کروز میزائل حملے کے بعد احتجاجی جلسوں سے خطاب
کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن اعلان کیا کرتے تھے، کہ اگر امریکہ نے
افغانستان پر حملہ کیا تو وہ اور ان کے ساتھی امریکی بحری بیڑے کو بحیرہ
عرب میں ڈبو دیں گے۔
اب جبکہ نہ صرف وہ بیڑہ سالوں سے بحیرہ عرب میں موجود ہے بلکہ پورے
افغانستان پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ پاکستان میں بھی من مانیاں کر
رہا ہے تو میں نے جاننے کی کوشش کی کہ مولانا کس طرح امریکہ کا مقابلہ کر
رہے ہیں۔ وہ چونکہ قومی اسلمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت سے
پاکستان کی امریکہ نواز خارجہ پالیسی کے نوک پلک سنوارنے میں مصروف ہیں، اس
لئے میں نے سوچا کہ شائد امریکی بحری بیڑے کو ڈبونے اور افغانستان کو
امریکہ کا قبرستان بنانے کے مسلح جہاد میں انہوں نے اپنے جگر گوشوں کو
لگایا ہوگا لیکن تحقیق کے نتیجے میں مجھے یہ جان کر شدید مایوسی ہوئی کہ ان
کے صاحبزادوں میں سے کوئی ایک بھی افغانستان یا وزیرستان کے پہاڑوں میں
مورچہ زن نہیں۔
الحمداللہ مولانا فضل الرحمن تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کے باپ ہیں ان کے
ایک بیٹے اسد محمود خیر المدارس ملتان میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ
ساتھ ساتھ دینوی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ دوسرے بیٹے انس
محمود ڈی آئی خان میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ تیسرے بیٹے اسجد
محمود حفظ قرآن میں مگن ہیں، لیکن ان میں سے کوئی فدائی بنا ہے، نہ
افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف مصروف عمل ہے، نہ کشمیر کی آزادی کے
لئے سرگرم ہے اور نہ جنوبی یا شمالی وزیرستان میں مورچہ زن ہے۔ |