"نگرں نیاٹ"کے لوگ بھی ہمدردی کے مستحق ہیں

ضلع دیا مر گلگت بلتستان کا سب سے پسماندہ ضلع ہے۔یہ بات اٹل ہے کہ ضلع دیامر ہر اعتبار سے مکمل تنزلی کا شکار ہے۔ تعلیم، صحت، میڈیا کی رسائی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں اس بے اماں ضلع کے لوگ آج بھی پتھر کے زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اس بات کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کہ باسیان دیامر کو پتھر کے زمانے میں دھکیلا جائے اور اس وادی بے نظیر کی بلند و بالا چوٹیوں کا تورابورا بنایا جائے۔

رقبہ کے اعتبار سے ضلع دیامر گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ شاہراہ قراقرم کی ایک طویل پٹی ضلع دیامر کے زمین کو چیرتی ہوئی پاکستان اور چین کی سنگت کا سبب بنی ہوئی ہے۔ قدرتی جنگلات کا حظہِ وافر موجود ہے۔ دیا مر کے لوگ محنت کش اور مشقت طلب ہیں ۔ ان کی جرأت و بہادری اور مہمان نوازی کے چرچے پورے گلگت بلتستان میں ہیں۔ ضلع دیا مر میں خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تمام نعمتیں موجود ہیں لیکن اے کاش!اگر ضلع دیا مر میں نہیں ہے تو گڈ گورننس نہیں ہے۔ بہترین تعلیمی مراکز اور صحت عامہ و رفاہ عامہ کے ادارے نہیں ہیں ۔ حکومتی ادارے بس نام کی حد تک محدود ہیں ۔ کوئی قدرتی آفت آئے، آندھی اور زلزلے سے بستیوں کی بستیاں اجڑ جائے، کہیں آگ لگ جائے تو اس تمام صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی صورت اور سد باب نہیں ہے ۔ اس سے بڑی بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ان زلزلہ زدگان اور آفت زدہ لوگوں کی آہیں بھی بہت کم میڈیا کی زینت بنتی ہیں ۔ اگر کوئی ادارہ ذمہ داری کا احساس کرتا ہو ا کوئی خبر لگوانا یا لگانا چاہیے بھی تو ایک کالمی یا دو کالمی سے بڑی خبر نہیں بنتی ۔ ضلع دیامر کے کسی بھی گائوں میں کوئی بھی مسئلہ پیدا ہوا ہو، اس پر کوئی واہ ویلا کرنے والا نہیں ۔ ضلع دیا مر کا میڈیا پاور زیرو ہے بہت ہی کم لوگ ضلع دیا مر کے مسائل کو ڈسکس کرتے ہیں ۔

ارباب اختیار تو چپ سادہ لئے بیٹھے ہیں آئیے ہم آپ کو ضلع دیا مر کے ایک ایسا گائوں کا تذکرہ سناتے ہیں جس میں لاکھوں کا نقصان ہوا مگر اصحاب بست و کشاد بھی خاموش اور میڈیا کے دعویدار بھی۔

نگرں نیاٹ کا گائوں ہے ۔ اس گائوں کے لوگ خطہ غربت سے بہت نیچے زندگی گزارتے ہیں ۔ کئی دہائیوں سے پورے گائوں کے لوگ زندگی کی تمام سہولتوں سے محروم ہیں ۔ اس پر مستزادیہ کہ اس گائوں پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی آفت نازل ہوتی ہے۔ کبھی طوفان و آندھی کی شکل میں تو کبھی زلزلہ کی شکل میں ۔ 19اپریل کو رات 8بجے اس ناچار گائوں میں ایک شدید قسم کو سیلاب آیا اور لاکھوں کی املاک خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔ 50کے قریب مال مویشاں سیلاب کا نذر ہوئیں ۔ تین گھر مکمل ڈوب گئے اور پانی بہا لے گیا باقی پورے گائوں کے مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔ لاکھوں کی لکڑیاں نذر آب ہوئیں جس میں کڑی ، پٹاوا اور دیگر تیار کردہ تعمیراتی لکڑیاں تھیں ۔ ان غریبوں کی معیشت کا دراومدار صرف اور صرف یہی لکڑیاں تھیں۔ کھیتوں میں اس وقت مٹر کی فصل اپنی جوبن پر تھی مگر مکمل طریقے سے پورے گائوں والوں کا فصل تباہ و برباد ہوا ۔ان لوگوں نے گندم مکئی سے مٹر کو ترجیح دیکر مٹر اگایا تھا کیونکہ مٹر کی ایک بوری 500سے 700کا فروخت ہوتی ہے۔ محنت کشوں کی تمام محنت خاک میں مل گئی ۔

اس کے علاوہ بھی متعدد بار یہ گائوں میں قدرتی آفات کا شکار ہوا ہے۔ حکومتی ارکان نے ایک دو دفعہ برائے نام سروے بھی کیا ہے مگر ان غریبوں کو کچھ نہیں ملا ۔ کیونکہ یہ لوگ حد درجہ غریب ہیں ۔ عوامی نمائندوں اور سرکاری ہری کاروں تک ان کی رسائی نہیں ہے۔ اس گائوں میں ایک بہت بڑا مسئلہ ایک پل کا ہے جو صرف ایک لاکھ کی قلیل لاگت سے بنوایا جا سکتا ہے مگر کوئی ہو جو عقل سلیم رکھیں ۔ آبشاروں کے پانی سے ایک بڑا نالہ بہتا ہے جسے عبور کرنے میں بہت زیادہ مشکل ہے لہذا اس گائوں کے لوگ تین کلومیٹر کا سفر طے کر کے دوسرے گائوں چلے جاتے ہیں اگر یہ پل بن جائے تو صرف 2منٹ میں دوسرے گائوں پہنچا جا سکتا ہے ۔

بہر صورت ہم ارباب اقتدار بالخصوص ضلع دیا مر کے ڈپٹی کمشنر صاحب اور اس کے علاقے کے منتخب ممبر جناب بشیر احمد صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ خدارا ! ان غریبوں پر رحم کریں ان کے نقصانات کا اچھے انداز میں ادائیگی کریں ۔ یا د رہے ان غریبوں کا سرکار اور پرائیوٹ سیکٹر میں کوئی نہیں مگر وہ خدا جو سب کا خالق و مالک ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ کون اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ان کے دکھوں کا مداوا کرتا ہے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے ۔ میری میڈیا کے نمائندوں سے بھی گزارش ہے کہ ایسے واقعات کی اچھی طرح رپورٹنگ کریں اور ان کے مسائل اور محرمیوں کو ارباب اختیار تک پہنچایا جائے۔ بلاشبہ نگرں نیاٹ کے لوگ بھی ہمدردی کے مستحق ہیں ۔ یہ لوگ بھی انسان ہیں ان کے ساتھ انسانیت والارویہ اپنایا جائے اور ان کے دکھوں کا بانٹا جائے ۔
نوٹ: یہ کالم 2010ء کو مقامی اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ حقانی
Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 433933 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More