اس وقت دنیا میں ہر پانچواں شخص
مسلمان ہے ۔ایک ارب تیس کروڑ سے زائد مسلمان اس زمین پر بستے ہیں۔58 مسلم
ممالک ہیں جودنیا کے23فیصد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔مسلمان دنیا کے ہر حصہ
میں آباد ہیں۔یورپ میں مسلمانوں کی تعداد 3 کروڑ اور شمالی امریکہ میں 70
لاکھ سے زائد ہے۔یورپ اور امریکہ میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے اور اس کے
ساتھ دنیا کے اہم ترین بحری اور فضائی راستے مسلم دنیا ہی سے گذرتے ہیں
خصوصاً مشرق وسطیٰ قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے اﷲ تعالیٰ نے دنیا
کی ہر نعمت سے نوازا ہے۔ بدقسمتی سے آج یہ خطہ آگ اور خون میں نہلایا ہوا
ہے۔اس کی وجہ سے پوری امت مسلمہ اضطراب ، غم اور پریشانی میں مبتلا
ہے۔کیونکہ آج شیعہ سنی ٹکراؤ ،بعض صورتوں میں قبائلی اور نسلی تفریق اور
ٹکراؤ ایسی تمام تحریکیں منظم سازش کے تحت اپنی کرتوتوں اور غیروں کے
اشاروں کے ذریعے پروان چڑھائی گئی ہیں ۔جو آج آتش فشاں کا منظر پیش کر رہا
ہے۔مسلمان آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔یہ بات کسی سے پوشیدہ
نہیں ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ہونے سے اس کے ثمرات کس کے حصے میں آئے
اور اب عرب کی تقسیم کا فائدہ براہ راست اسرائیل کو پہنچاناہے۔مغرب خصوصاً
برطانیہ اور امریکہ کا یہ لگایا ہوا زہر آلود پودا مسلمانوں کے جسم کو زخمی
زخمی کر دیا ہے۔دی گریٹ اسرائیل کو عملی شکل دینے میں یہ برابر کے شریک
ہیں۔لیکن ان حالات کے بہت سے اسباب میں یہ بھی ہیں کہ ہردور میں عرب
حکمرانوں نے آمریت ،بادشاہت کے لامتناہی سلسلے سے اپنے ہی لوگوں کے بنیادی
حقوق چھین رکھے ہیں ،عوام کے اظہار رائے کی آزادی سلب کی گئی اورریاست کے
امور سے ان کو ہمیشہ دور رکھاگیا اس وجہ سے یہ محرومیاں خطرناک شکل اختیار
کر چکی ہیں۔جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی طاقت سے لیس اکیسویں صدی کی
دنیا نے دیکھاکہ 17ستمبر 2010کو محمد عزیزی کی خود سوزی نے 28روزہ انقلابی
تحریک کے ذریعے تیونس میں 23سالہ دورحکومت کا خاتمہ کردیا یہ انقلاب عرب
حکمرانوں کے لئے تبدیلی کا پیغا م تھا۔ ا ٓج اسی لہر نے سب کو اپنی لپیٹ
میں لے رکھا ہے۔عوام میں یہ احساس موجزن ہے کہ عرب شہزادوں کی دولت کے
انبار مغرب او ر یورپ کے بینکوں میں ہیں۔جس سے وہاں کے لوگوں کی زندگی
خوشحال اورخود ان کے عوام کی زندگی احساس محرومی کا شکار ہے۔مسلم حکمرانوں
کو اپنے طرز عمل پر غور کرنا ہو گا۔جس میں انسانی عدل، اخوت، رواداری،
برداشت اور تحمل ،صبرو استقامت اور خیرخواہی کے جذبات کو عملی شکل دے کر
لوگوں کو بنیادی حقوق دینے پڑیں گے۔یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی
عرب سے خصوصاً تمام مسلمانوں کو مکہ معظمہ، اور روضہ رسولﷺ کی وجہ سے عقیدت
و احترام ،عشق و محبت کا نہ ختم ہونے والا رشتہ ہے کسی بھی فریق کو ان مقدس
مقامات کو میلی آنکھوں سے دیکھنے کی جرات نہیں ہو سکتی اور نہ یہ موجودہ
جنگ اس قسم کی جنگ ہے ۔اگر ایسی کوئی بات پیدا ہونے کا اندیشہ بھی ہے تو
پاکستانی حکمرانوں کو فوج بھیجنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ان مقدس مقامات
کے لئے پوری قوم اپنی گردنیں کٹانے کے لئے تیار ہے۔سعودی عرب سے برادرانہ
تعلقات کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور یہ تعلق ہمارے لئے باعث فخر بھی ہے لیکن
ہمیں پاکستان کی سلامتی، بقا اور تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی اتفاق
رائے سے اقدامات اٹھانے ہونگے کیونکہ یہ بھی ہماری قومی تاریخ کا اہم فیصلہ
ثابت ہوگا۔ماضی میں کئے گئے فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ
کہیں ہم ایک مرتبہ پھر استعمال نہ ہوں اور دوسروں کی جنگ ہمارے گھر کو جلا
کر راکھ نہ کر دے ۔ان فیصلوں میں ہمیں اپنے پڑوسی ممالک کو بھی اعتماد لینا
ہوگا ایسا نہ ہو کہ دوسروں کی دفاع کرتے ہوئے ہماری اپنی دفاعی پوزیشن
کمزور پڑ جائے ۔ویسے بھی ہماری فوج اس وقت اپنے ملک کی اندرونی اور بیرونی
محاذوں پر بہت بڑی جنگ میں مصروف عمل ہے۔یہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک
کے حق میں بہتر ہوگا کہ پاکستان اپنا بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے ترکی اور
ایران کو اپنے اعتماد میں لے کر تمام اسلامی ممالک کو اکٹھا کر کے مذاکرات
کی میز پر لے آئے اور باہم گفت و شنید سے اس گرداب سے عرب ممالک کو نکالنے
کا فارمولا طے کرے اور اس خطرناک آگ کو بجھانے کی کوشش کرے ورنہ یہ ایسا
آتش فشاں ہو گا جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ |