نام ، نسب وبچپن۔ اسم گرامی عمر
بن خطاب بن نفیل بن عبد الغریٰ بن رباح بن عبداﷲ بن قرت بن زراع بن عدی بن
کعب بن لوی بن فہر بن مالک ،کنیت ابو حفض اور لقب فاروق ہے، آپ کے والد کا
نام خطاب اور آپ قریش کی شاخ بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے جب کہ والدہ کا نام
خنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھا۔(روشن ستارے،ص50) آ پ کی پیدائش مشہور روایات
کے مطابق ہجرت نبوی کے چالیس برس قبل ہوئی،آپ کے بچپن کے حالات و واقعات کے
حوالے سے تاریخ خاموش ہے۔( الفاروق ص30)
جوانی: سن شباب میں حضرت عمر فاروق ؓ نے علم انساب اپنے والد سے سیکھا اور
اس میں مہارت حاصل کی ،شہسواری میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھاکہ آپ گھوڑے پر
کود کر اس طرح سوار ہوتے کہ جلد بدن ہو جاتے تھے۔ آپ کوشعر و شاعری، خطاطی
،خطابت،پہلوانی اور سپہ گری کے فنون پر عبور حاصل ہونے کے علاوہ تجارت کے
اسرارو رموز سے بھی واقف تھے۔(الفاروق۔ ص30,31)
قبول اسلام :حضرت عمر فاروق ؓ کا قبول اسلام بھی قابل رشک ہے ،پیغمبر اسلام
ﷺ نے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ یااﷲ! عمر یاابو جہل میں سے جو تجھے پسند
ہو اسلام کو اس سے قوت عطا فرما۔ اﷲ تعالی نے خاتم الانبیاء کی دعا کو حضرت
عمر ؓ کے حق میں قبول فرمایا، کفار مکہ کی مشاروت میں آپ کو حضرت محمد ﷺ کو
نعوذ باﷲ شہید کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی،آ پ اس مقصد کے حصول کے لیے نکلے
مگر بہن اور بہنوئی کے قبول اسلام اور استقامت کی وجہ سے دل نرم پڑ گیا ،
دربار نبوی میں اسلام قبول کرنے کی غرض سے حاضر ہو کر نبی کریم ﷺ کے دست
اقدس پرکلمہ اسلام پڑھا،اس وقت آپ کی عمر مبارک چھبیس سال تھی،حضرت عبداﷲ
بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کا اسلام لانا فتح و نصرت تھا اور ان
کی ہجرت مسلمانوں کی مدد اور اعانت ثابت ہوا اور ان کی خلافت امت کے لیے
رحمت تھی۔(اسد الغابہ)
نبی کریم ﷺ کے ساتھ تعلق:حضرت عمر فاروق کا نبی کریم ﷺ کے ساتھ سلسلہ نسب
آٹھویں پشت پے ایک ہو جاتا ہے، ام المؤمنین سیدہ حضرت حفصہ ،ؓ حضرت عمر
فاروق ؓ کی بیٹی تھیں اس لحاظ سے آپ کوخسر پیغمبرﷺ ہونے کی سعادت حاصل
ہوئی(الفاروق ص28)حضورﷺ کی نواسی اور حضرت علی ؓ کی صاحبزادی آپ کے عقد میں
تھیں ۔ حضرت عمر ؓ نے سب سے پہلے بیت اﷲ میں اﷲ کا نا م بلند کیا ، آپ سفر
و خضر میں پیغمبر اسلام ﷺ کے ساتھ باوفا ساتھی ،مخلص مشیر و وزیر کی طرح
رہے،بنی کریم ﷺ نے فرمایا میرے آسمانوں پر دو وزیر جبرائیل و میکائیل اور
زمین پر دو وزیر ابو بکر و عمر ہیں، (مشکوٰۃ) حضرت عمر ؓ نے بنی کریم ﷺ کے
ساتھ سات سالہ مکی اور دس سالہ مدنی زندگی میں کسی موقع پر بنی کریم ﷺ کا
ساتھ نہیں چھوڑا،ستائیس غزوات میں شرکت فرمائی اور تمام اہم فیصلوں میں آپ
کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی ۔قرآن پاک کی ستائیس آیات آپ ؓ کی رائے کے
مطابق نازل ہوئیں،نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ عمر کی زبان پر اﷲ نے حق کو جاری
کر دیا ہے (بیہقی ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس راستہ سے عمر ؓ گزرتا ہو شیطان وہ
راستہ چھوڑ دیتا ہے (مسلم ، بخاری)ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے جنت کے احوال کا
ذکر فرمایاکہ میں جنت میں داخل ہوا وہاں ایک خوبصورت محل دیکھا ، مجھے
بتایا گیا کہ یہ عمر بن خطاب کا محل ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا دل چاہا کہ
میں وہ محل دیکھوں مگر اے عمر !مجھے تیری غیرت یاد آگئی اس لئے میں اندر
نہیں گیا۔ایک دفعہ حضورﷺ ، سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمر ؓ کے کندھوں پر
ہاتھ رکھ کے جا رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہم تینوں اسی طرح
اٹھائے جائیں گے ، امت کو شیخین ؓ کی حیثیت ان الفاظ میں ارشاد فرمائی کہ
میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتدا کرنا(مشکوٰۃ)۔
حضورﷺ کے ساتھ محبت کی ادنیٰ سی جھلک یہ ہے کہ اپنی فقید المثال بہادری کے
باوجود حضورﷺ کے وصال کی حالت کا تحمل نہ فرما سکے ، سخت حیرانی و پریشانی
کی حالت میں تلوار لے کر کھڑے ہو گے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ حضور ﷺ کا وصال
ہو گیا ہے تو اس کی گردن اڑا دوں گا، حضور ﷺتو اپنے رب کے پاس تشریف لے گے
ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ طور پر تشریف لے گے تھے عنقریب حضورﷺ واپس تشریف
لائیں گے اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کا ٹ دین گے جو حضورﷺ کے انتقال کی
جھوٹی خبر اڑا رہے ہیں ۔آپ ؓ کو جب نبی کریم ﷺ کا زمانہ یاد آتا تو آپ رونے
لگتے اور روتے روتے بے ہوش ہوجاتے۔(الشیخان،)
خلیفۃ الرسول اﷲ ﷺ جناب صدیق اکبرؓ کے دور مبارک میں آپ نے امور خلافت میں
بہترین مشیر و وزیر کا فریضہ سرانجام دیتے رہے، یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ نے
آپ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تو صحابہ نے آپ کے سخت مزاج ہونے پر کلام
کیا تو حضرت صدیق اکبرؓ نے ان تاریخی الفاظ میں آپ کی غیر معمولی حیثیت کو
واضح فرمایا کہ میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو امیر
مقرر کیا جو تیرے بندوں میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔(الفاروق)
محاسبہ نفس اور امانت داری :بار خلافت سنبھا لنے کے جناب عمر فاروق ؓ نے
امور خلافت کو نظم و ضبط اور عدل و انصاف کیساتھ ا س انداز میں چلایا کہ اس
مثال سے طبقہ سلاطین عاجز ہیں،آپ ادنی ٰ سے ادنیٰ بات پر اپنا محاسبہ
فرماتے تھے،آپ کا ضمیر ہمہ وقت بیدار رہتا تھا،سب سے اہم بات یہ تھی کہ آپ
نے کبھی اپنی ذات کو اہمیت نہیں دی۔ آپ فرماتے تھے کہ امت کا مال اسی طرح
میری نگرانی میں رہے گا جس طرح یتیم کے مال کی حفاظت کی جا تی ہے۔
آپ نے ہمیشہ زہد ، اتقا ء اور درویشی والی زندگی گزاری ، آپ کو نبی کریم ﷺ
اور جناب صدیق اکبر ؓ کا طرز زندگی پسند تھا، آپ فرماتے تھے کہ میرے دو
رفیق ہیں ،ان دونوں نے خاص انداز میں زندگی کے دن کاٹے ہیں میری خواہش ہے
کہ میں ہو بہو ان کے طریق پر چلوں کیونکہ اگرمیں نے ایسا نہ کیا تو میری
مثال سے دوسرے بھی انحضرت ﷺ اور صدیق اکبر ؓ کے طریقوں سے انحراف کریں
گے۔(خلفاء الراشدین)
ابولؤلؤ فیروز مجوسی کے وار کی وجہ سے آپ کو گہرے زخم لگ چکے تھے جب آپ کو
اس بات کا یقین ہو چکا کہ اب صحت یاب ہونا ممکن نہیں تو آپ نے ان تمام رقوم
کا حساب لگوایا جو آپ کے نزدیک بیت المال کاقر ض تھیں ،یہ رقوم آٹھ ہزار
درھم سے زائد تھیں، آپ نے اپنے صاحبزادے کو فرمایا کہ وہ اس رقم کو بیت
المال میں ادا کردے،آپ کی شہادت کے دس دن بعد وہ ساری رقم ادا کردی گئی۔
درحقیقت یہ آپ کا بحیثیت خلیفہ اپنی اور اپنی اولاد کی کفالت کے لیے بیت
المال سے لی گئی رقم کا مجموعہ تھا۔
جنگیں اور فتوحات:خلیفہ دوم خضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں خلافت
اسلامیہ کا پھیلاؤ (2251030)مربع میل تک پھیل گیا تھا ، آپ کے مقبوضہ
علاقوں میں اہم عراق،جزائر، خوزستان ، شام ، عجم ، ارمینیا، آزر بائیجان ،
فارس، کرمان، خراسان اور مکران جس میں بلوچستان کا کچھ حصہ آجاتا ہے شامل
تھا۔آپ کے دور خلافت میں معرکۃ الأراء جنگیں لڑیں گئیں ،آپ کے مشہور سپہ
سالاروں میں ابو عبید، ابوعبیدہؓ، مثنیٰ ،قعقاع بن عمرو،معاذبن جبلؓ، سعد
بن ابی وقاص ؓ،عمرو بن العاص ؓاورخالد بن ولیدؓ ہیں جنہوں نے عزم و استقلال
اور بہادری کی لازوال داستانیں رقم کیں ۔ مشہور جنگوں میں عراق کے مختلف
معاذوں پر ایرانیوں کے خلاف لڑے جانے والے معرکوں جنگ جسر،یوم العماس اور
جلولاء کے علاوہ قادسیہ کی عظیم فتح ،شام کے عظیم معرکوں میں دمشق،فحل،حمص
اور یرموک کا معرکہ جب کہ مصر کے معرکو ں میں فسطاط اور اسکندریہ کی فتح
اسلامی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں ایک اہم سنگ میل جس پر امت مسلمہ اور
اہل کتاب ہر دو کوفخر ہے وہ بیت القدس کی فتح ہے، 16 ہجری بمطابق 637
عیسوی حضرت ابوعبیدہ ؓ نے بیت القدس کا محاصرہ کیا قلعہ بند ہو کر لڑتے
رہے ،عیسائیوں نے ہمت ہار کر صلح کی درخواست کی اور مزید اطمینان کے لیے یہ
شرط اضافہ کی کہ خلیفۃ المسلمین عمرؓخود آئیں اور معاہدہ صلح ان کے ہاتھوں
سے لکھا جائے۔مشاورت کے بعد حضرت عمر ؓ کا جانا طے ہوا ،آپ نے حضرت علی ؓ
کو اپنا نائب مقرر کرکے خلافت کے کاروبار ان کے سپرد کئے ۔ جابیہ کے مقام
پر بیت المقدس کا معاہدہ لکھا گیا،اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے بیت المقدس کا
ارادہ کیا ، جو گھوڑا آپ کی سواری میں تھا اس کے سم گھس چکے تھے اور رک رک
کے چلتا تھا ،آپ یہ دیکھ کر اتر پڑے، لوگوں نے ترکی گھوڑے پیش کئے مگر آپ
پیادہ پا ہی رہے یہاں تک کہ بیت القدس قریب آگیا حضرت ابوعبیدہؓاور دیگر
کمانڈر آپ کے استقبال کے لیے آئے، آپ نہایت سادہ لباس اورمعمول حیثیت کا
سازوسامان ساتھ لیے ہوئے تھے ، کچھ مسلمانوں نے قیمتی لباس اور اعلیٰ نسل
کی سواری پیش کی ،آپ نے ردعمل میں فرمایاکہ خدا نے جو عزت ہمیں دی ہے وہ
اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔(الشیخان،)
21 ہجری حضرت عمر ؓ نے نئی فتوحات کو منظم کرنے اور لشکر کشی کے لیے متعدد
علم تیار کرکے جداجدا ممالک کے افسراں کے حوالے کئے جن میں خراسان کا علم
احنف بن قیس، سابورواردشیر کا مجامع بن مسعود ، اصطخر کا عثمان بن العاص
الثقفی، افساء کا ساریہ بن زنیم الھنانی کو ، کرمان کا سہیل بن عدی کو،
سیستان کا عاصم بن عمرو ،مکران کا حکم بن ومیر الغلبی اور آذربیجان کا عتبہ
بن فرقد کو سپرد کیا۔
نظم و نسق خلافت فاروقی:
نظم عمومی ،صوبہ جات و عہدداران: خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت کا
بنیادی اصول مجلس شوریٰ کا انعقاد تھایعنی پارلیمنٹ کا باضابطہ قیام سب سے
پہلے آپ کے دور خلافت میں کیا گیا،جب بھی کوئی انتظامی معاملہ پیش آتا تو
ہمیشہ ارباب شوریٰ کی مجلس منعقد ہوتی اور کوئی امر بغیر مشاورت اور کثرت
رائے کے طے نہ کیا جاتا تھا۔مجلس شوریٰ کے اہم ارکان میں حضرت عثمان ؓ بن
عفان،حضرت علیؓ ، حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ ، حضرت معاذبن جبل ؓ حضرت ابی بن
کعب ؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓ شامل تھے۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے 20 ہجری میں ملک کو
8صوبوں میں تقسیم کیا ،آپ کے مقرر کردہ صوبوں میں مکہ، مدینہ ،شام،
جزیرہ،بصرہ ، کوفہ ،مصر، فلسطین شامل تھے۔ہر صوبے میں انتظامی افسران جن
میں والی صوبہ(حاکم)،کاتب یعنی میرمنشی، کاتب دیوان یعنی دفتر فوج کا میر
منشی، صاحب الخراج یعین کلکٹر، افسر پولیس،افسر خزانہ،قاضی یعنی صدرالصدورو
منصف مقرر ہوتے تھے۔آپ جس کو بھی عامل مقرر فرماتے ،اس کو ایک فرمان جاری
کرتے ، جس میں اس کی تقرری،اختیارات اور فرائض مذکور ہوتے تھے۔عاملوں سے جن
باتوں کا عہد لیا جاتا تھا ان میں ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا، باریک کپڑا
نہ پہننے،چھنا ہوا آٹا نہ کھانے،دروازے پر دربان نہ رکھنے اور اہل حاجت کے
لیے ہمیشہ دروازہ کھلا رکھنے کا عہد شامل ہوتا تھا۔
ہر سال حج کے زمانے میں تمام عمال عوامی احتساب کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے
تھے، کھلی کچہری میں عوامی شکایات کو سنا جاتا تھا اور اس کے تدارک کے
احکامات جاری کئے جاتے تھے۔عمال پر عائد الزامات کی تحقیقات کے لیے
تحقیقاتی کمیشن قائم تھا۔
خراج کا نظم و نسق:خراج کا طریقہ عرب میں حضرت عمرفاروق ؓ نے ایجاد کیا،
خراج کا نظم و نسق عرب کی تاریخ و تمدن میں نیا اضافہ تھا،حضرت عمر ؓ نے اس
وزارت میں سب سے انقلابی اقدام زمینداری اور ملکیت زمین کا جو قدیم قانون
اور بالکل جابرانہ تھا مٹا دیا۔
زراعت کی ترقی کے لیے آپ نے کئی اہم اور نہریں تیار کروائیں ، جن میں نہر
ابی موسیٰ جس کی لمبائی 9 میل تھی اہل بصرہ کے لیے کھداوئی گئی، جس کے
ذریعے اہل بصرہ کو گھر گھر پانی کی سہولت میسر آئی۔نہر معقل یہ دجلہ سے کاٹ
کر لائی گئی۔نہر سعد ، نہر امیر المؤمنین ،یہ نہر امیر المؤمنین کے حکم پر
کھدوائی گئی، اس نہر کے ذریعے دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملا دیا گیا ،اس
نہر کی لمبائی 29 میل تھی نہر کو چھ ماہ کی ریکارڈ مدت میں تیار کیا گیا ۔
محکمہ قضاء:یہ محکمہ اسلام میں حضرت عمرفاروقؓ کی بدولت وجود میں آیا،آپ کے
دور خلافت کے مشہور قاضی زید بن ثابتؓ،عبادہ بن صامتؓ، عبداﷲ بن
مسعودؓ،قاضی شریح،جمیل بن معمرالحمجی،ابومریم الحنفی،سلمان بن ربیعہ
الباہلی،عبدالرحمان بن ربیعہ،ابوقرۃ الکندی اورعمران بن الحصین تھے ،قاضی
کا تقرر امتحان و تجربہ کی بنیاد پر کیا جاتا تھا۔
پولیس اور جیل خانہ جات:عرب باضابطہ طور پر جیل خانوں کا کوئی تصورر نہیں
تھا ، حضرت عمر ؓ نے مکہ مکرمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار میں
خرید کر جیل خانہ بنوایا ،پھر اس سلسلہ کو باقی صوبوں اور اضلاع تک پھیلایا
گیا،(مقریزی2/187)
آپ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے درمیانی راستے میں چوکیاں اور سرائے
تعمیر کروا کر حاجیوں اور دیگر مسافروں کی آمدو رفت کو سہل اور پرامن
بنایا۔
محکمہ مال(بیت المال):محکمہ مال کا شعبہ حضرت عمر ؓ کے تجدیدی کاموں میں سے
ایک ہے،سب سے پہلے دارالخلافہ مدینہ میں مرکزی بیت المال قائم کیا گیا جس
کے امین حضرت عبداﷲ بن ارقم ؓ کو مقرر کیا گیا ۔دارالخلافہ کے علاوہ صوبہ
جات اور اضلاع کے صدر مقامات میں بھی بیت المال قائم کئے گے، اس محکمہ کے
لیے علیحدہ عمارتیں بنوائیں گئیں۔صوبہ جات کے دفاترمیں بقدر ضرورت رقم
رکھنے کے بعد سال کے اختتام پر بقیہ رقم مرکزی بیت المال مدینہ منورہ بھیج
دی جاتی تھی۔
فوجی نظام اور چھاؤنیاں:اس شعبہ کو دور فاروقی میں اس قدر منظم اور پائیدار
بنا دیا گیا کہ وہ دوسری اقوام کے لیے قابل تقلید اور باعث تعجب ثابت
ہوا۔15ہجری میں آپ نے محکمہ فوج کو منظم و مرتب فرمایا،انصار و قریش کے
کوائف جمع کئے گے، اسلام میں خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے تنخوائیں مقرر کی
گئیں اور کارکردگی کی بنیاد پر وقتاً فوقتاًاس میں اضافہ ہوتا رہتا تھا، ۱۱
بڑے فوجی مراکز اور حصوں میں ملک کو تقسیم کیا گیا جن میں مدینہ ، کوفہ،
بصرہ ، موصل ،فسطاط، مصر، دمشق، حمص، اردن اور فلسطین شامل تھے،مرکزی شہروں
میں فوجی چھاونیاں اور فوجیوں کے رہنے کے لیے رہائشی کالونیان قائم کی
گئیں،ہر جگہ بڑے بڑے اصطبل خانے جن میں تقریباً چار ہزار گھوڑے ہمہ وقت
تیار رہتے تھے۔فوجیوں کی جنگی تربیت کے علاوہ ان کے قیام اور رخصت سے متعلق
قوانین کا اجرا ء کے بہت سے تجدیدی کام آپ کے دور خلافت میں شروع کئے گے ۔
شعبہ تعلیم و تربیت: امیر المؤمنین نے تمام بلاد میں مکاتب قائم کئے جن میں
کبار صحابہ کرام معاذبن جبلؓ، عبادہ بن صامتؓ، ابودرداءؓ، عبداﷲ بن مسعودؓ
اور اہل علم کو فریضہ تعلیم کے لیے مامو کیا گیاتھا، مدرسین و معلمین کی
تنخوائیں مقرر کی گئیں،ان کی رہائشوں کے انتظامات کئے گے تھے۔قرآن پاک کی
تعلیم کے ساتھ ساتھ علم حدیث ،علم فقہ، ادب اور لغۃ عربیۃ کی تعلیم کو
لازمی قرار دیا گیا تھا، ان مکاتب میں نومسلموں کی تعلیم و تربیت کا خصوصی
التزام کیا جاتا تھا۔
مساجد کی تعمیراور نظم:مرکز اسلامی حرم مکی اورمسجد نبوی کی توسیع کرنے کے
ساتھ ساتھ خلافت کے طول وعرض میں چار ہزار مساجد تعمیر کروائیں، ہر شہر
وقصبہ میں امام و مؤذن مقرر کئے جن کی مقرر کردہ تنخوائیں بیت المال سے ادا
جاتی تھیں۔
مردم شماری،آمدورفت کے لیے مرکزی شاہراؤں اور مہمان خانوں کے قیام ،سکہ کا
اجراء، محکمہ ڈاک اور ہر شعبہ حکومت کے لیے تحریر اور رجسٹر کا اہتمام آپ
کے وہ درخشندہ کارنامے ہیں جو بعد میں آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت
ہوئے۔
ْٓقابل غور امر یہ ہے کہ چودہ سو سال سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود عمر
لاز مغرب کے لیے سامان سکون اور نظم حکومت کے لیے مسودہ کی حیثیت رکھتا ہے
مگر حضرت عمر فاروقؓ کی محبت کا دم بھرنے والے،ان کو اپنا مقتداء اور
پیشواء کہنے والے ان کے طرز خلافت و انداز حکمرانی سے عملاً دوراور بیزاری
کا اظہار کر رہے ہیں ، امت مسلمہ اپنے عروج اور کھوئے ہوئے مقام کو اس وقت
تک نہیں حاصل کر سکتی جب تک ہم اپنے اسلاف کی متعین کردہ راہوں اور اصولوں
کو اہمیت نہیں دیں گے۔ |