سیلاب کی آفت اور ڈینگی بخارسے قوم کو بچائیے

 گذشتہ سال سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ڈینگی بخار نے پورے ملک میں ایک وباءکی شکل اختیار کر لی تھی ۔جس نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں جا نیں لے تھیں۔ اور قریباََ تین ہزر سے زیادہ افراد کود صرف سندھ میں ڈینگی بخار کا شکار ہو نا پڑا تھا۔اور پھر اس سال2011 میں سیلاب نے گذشتہ سال سے کہیں زیادہ بھیانک صورت اختیار کر لی ہے۔ڈینگی کا تو پورے ملک حال ہی مت پوچھو!!! اندرونِ ملک تو کہا جاسکتا ہے کہ اس وباءکی وجہ سیلاب کی تباہ کاریوں اور پانی کا جوہڑو ں کی شکل میں اکٹھا ہو جانا ہے۔مگر شہرلاہور اور پنجاب کے دیگر شہروںمیں تو سیلا ب کی سی صورتِ حال سندھ جیسی نہ تھیدر اصل پاکستان کے تمام ہی شہروں میں شہری حکومتوں کے نہ ہونے اورایڈمنسٹریٹرز کی نا اہلیوں کے سبب ڈینگی کے مرض نے وبائی شکل اختیار کرلی ہے۔گذشتہ سال تو قوم کو دھوکہ دینے کے لئے کراچی کے حکومتی نمائندہ ایڈ منسٹریٹر نے خود ہی اعترافِ جرم کرتے ہوے بتایاتھا کہ پہلے صرف شہر بھر میں ڈینگی اسپرے کے نام پر دھواں چھوڑا گیاتھا۔اجب خاصی اموات ہوچکی اور ہزاروں افراد ڈینگی بخار میں مبتلا ہوچکے اور ہسپتالوں میں ڈینگی مریضوں کے لئے بستروں کی بھی قلت پڑ گئی تھی ۔تو اُس کے بعد دواﺅں کاشہر بھر میں اسپرے کرایا گیا-

ڈینگی کے اسباب؟آیئے دیکھتے ہیں ڈینگی بخار کیا ہے اور اس سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟یہ بیماری ایک خاص قسم کے مچھرAedes aegypti کے کاٹھنے سے پھیلتی ہے۔یہ مچھر ملیریا کے مچھر انوفلزسے مماثلت رکھتاہے۔اس پرکالے سفید زیبرا کے سے نشانات بنے ہوتے ہیںجس کی افزائشِ نسل صاف پانی ،جوہڑوں اور کھڑے پانی ،گملوں اور بالٹیوں میں کھلے رکھے ہوے پانی میں خوب ہوتی ہے۔اگر ان جوہڑوں اور کھڑے پانی میںاسپرے نہ کیا جائے تویہ مچھروں کی نرسری ثابت ہوتے ہیں۔ڈینگی بخار چھوت کی بیماری نہیں ہے۔جب یہ مچھر کسی ڈینگی زدہ شخص کو کاٹھتا ہے تو گویا یہ ڈینگی بخار کے لئے مکمل لوڈ ہوجاتا ہے۔یہ مچھرصحت مند جسم پر عام طورپردن کے اوقات میں سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کے اوقات میںحملہ آور ہوتا ہے ۔تو ڈینگی بخار اپنی اصل شکل میںتین سے پندرہ دنوں میں نمودارہوتا ہے۔
علامات: ڈینگی کے مرض یابخار میں مریض سردی محسوس کرتا ہے اور بخار 104ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ڈینگی بخار کا سبب ڈینگی وائرس ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے خون میں پلٹ لٹِس اور خون کے سفید جرثوموں کی تعداد تیز ی سے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس بخار کی خاص علامتوں میں شدید سر درد ،بازووں اور پٹھوں میں درد ،آنکھوں میں بھی شدید قسم کا درد ہوتا ہے اور جلد پر چمکدار نوکیلے گرمی دانوں کی شکل کے خون جیسے مادے سے بھرے دانے نمودار ہوجاتے ہیں۔یہ دانے کبھی آدھے جسم پر کبھی سارے جسم پر نکل آتے ہیںجو Petechiae کہلاتے ہیں۔ ڈینگی بخار میںگردن اور جگاسہ کے غدود بڑھ جاتے ہیں۔ اس بخار کوکئی نام د یئے جاتے ہیں۔جس کوایک نام bone cursher (بون کرشر )یا ہڈی توڑ بخار سے بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس بخار کی وجہ سے مریض کے جوڑوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ڈینگی بخار کی شدت کے دوران پیٹ میں شد ید درد ہوتا ہے جو Gestritisکہلاتاہے۔اس صورتِ حال میں پیٹ درد کے ساتھ چکر اورشدید خون کی اُلٹیاں بھی ہوتی ہیں،اکثر شدید دستو ں کی بھی شکاےت ہوجاتی ہے۔دستوں میں بھی خون شامل ہوتا ہے۔بعض کیسوں میںاس قسم کی نہایت خطر ناک علامات ظاہر ہونے لگتی ہےں ۔ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب معالج کی توجہ ڈینگی کے علاج کے بجا ئے انفلوئنزا یا فلو کے علاج پر مرکوز ہو، اس وقت نہ توجسم پر دانے نمودار ہوے ہوتے ہیں اور نہ ہی متاثرہ شخص کو آنکھوں میں درد محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔یہ بھی حقیت ہے کہ ڈینگی بخار کے خاتمے میں ایک لمبا عرصہ لگتا ہے ۔ڈینگی بخار کا انفیکشن انسانی جسم کے کئی اعضاءپر اثر انداز ہوتا ہے۔جس کے بعد جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔گردوں کا فعل شدید متاثر ہوتا ہے۔آنتوں اور دماغ کی جھلی کا انفیکشن encephalitis Meningo دماغ پر اثر اندازہوتاہے۔

خون کے جرثوموں کا شمار: دوسری جانب چکروں کے ساتھ مریض ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔نتیجے کے طور پر خون میں پلٹلیٹس کی تعدادجو صحت مند فرد میں قریباََڈیڑھ لاکھ (150000)سے ساڑھے چار لاکھ (450000)ہوتی ہے، بڑی تےزی کے ساتھ کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

دیگر علامات اور اخراضِ خون : مریض کا بلڈ پریشر کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ایک اسٹیج پر مریض کا ٹمپریچرنارمل بھی ہو جاتا ہے۔ بعض کیسو ں میں ٹمپریچر بہت ہائی ہوجاتا ہے۔بہت سے مریضوں کی آنکھوں، ناک ،مسوڑوں، اور کانوں سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے حتیٰ کہ جہاںانجیکشن لگایا گیا ہواُس مقام سے بھی خون رِسنا شروع ہوجاتا ہے بلکہ بعض اوقات جلد کے خلیوںسے بھی خون رِسنا شروع کر دیتا ہے۔جس کے ساتھ جسم سے پلاز مہ کا اخراج بھی ہونے لگتا ہے جس کی مقدار 20 فیصدسے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔جس سے مریض بے حد کمزوری محسوس کرتا ہے۔ڈینگی انفیکشن کی وجہ سے خون کی نالیوں سے بھی خون رس رس کرآنتوں اور پھیپھڑ وں میں اکٹھا ہونا شروع کر دیتا ہے۔جس کے سبب سے فشار خون بھی کم ہونا شرو ع ہوجاتا ہے۔ ڈینگی بخار سے متاثرہ مریض (DSS) ڈینگی شوک سینڈروم میں چلا جاتا ہے ڈینگی شوک سینڈروم کی وجہ سے مریض کی فوری موت واقع ہوجاتی ہے۔جس سے بچاﺅ کی تدابیر کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ یہ بہت ہی خطر ناک صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس دوران اینٹی بائیوٹک اور اسپرین کا استعمال خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔

گھریلو علاج : ہوم ریمیڈی کے طور پر پلیٹلیٹس کی کمی کو پوراکرنے کےلئے اس مرتبہ ایک اور نیا فارمولہ ایس ایم ایس کے ذریعے سامنے آیا ہے۔جس کے تحت سیب کے جوس میں چند قطر ے لیمو کے عرق کے ملا مریض کو اگرپلادیا جائے تو مریض کا پلیٹ لیٹس کاﺅنٹ بڑی تیزی سے بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ پپیتے کے تازہ پتوں کا جوس نہایت بھی اس مرض میں نہایت مفید ہوتا ہے۔ جو تیزی کے ساتھ پلیٹلیٹس کاﺅنٹ کو بڑھا دیتاہے۔

احتیاتی تدا بیر: حتیاط کے طور پر لمبی آستینو والی قمیض اور لمبے پائجامے پہننے چاہئیں۔پانی کوکھلا نہیں رکھا جانا چاہئیے کیونکہ صاف پانی میں ڈینگی مچھر کی افزائش نسل بڑی تیزی کے ساتھ ہوتی ہے۔،ماسیکٹو کلر میٹس یا اینٹی ماسکیٹواسپرے اور مچھر دانی کا استعمال کیا جانا چاہیئے ۔ خاندان کے افراد کو مچھروں کے کاٹھنے سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن تدابیر اورکوششیں کی جانی چاہئیں۔تاکہ اس مرض کو وبائی شکل میں پھیلنے سے روکا جا سکے۔

گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی حکمرانوں نے ساری قوم کوسیلابوں اورڈینگی بخار میں مبتلا کرنے کے بعدبیرونی دنیا کا رخ کر لیا ہے۔ان لوگوں نے اس وقت وطنِ عزیز کو ہر قسم کی وباﺅں کی آماج گاہ بنا دیاہے۔کہیںانسانی لہو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔تو کہیں غداری کے سرٹیفکیٹ وہ لوگ تقسیم کر رہے ہیں جو ساڑھے تین سال پہلے ہی اس ملک سے غداری کا اعلان کر تے ہوے کہہ رہے تھے پاکستان نہ کھپے!!!کرپشن کی وبا کا وائرس ہے کہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکاہے۔ کہیں بے روزگار ی اور مہنگائی کی وبا آپے سے باہر ہو رہی ہے تو کہیںاقرباپرو ر ی کا وائرس پوری قوم کو نڈھال کئے ہوے ہے۔ کہیں لُوٹ مار کی وباءہمار ے سارے نظام کو کھائے جا رہی ہے۔مگر کسی کے بھی علاج کی حکومت یا اس کے اتحادیوں کو توفیق نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی احتیاطی تدابیر کی کہیں نظر آتی ہیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213054 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.