سید احمد پیر زادہ کی صاف صاف
(Syed muzamil Hussain , Chaman Kot)
اردو زبان کے پہلے نانبیا صحافی،
دانشور، تجزیہ و کالم نگار، مقتدرہ قومی زبان کے ماہانہ جریدہ ’’اخبار
اردو‘‘ کے ایڈیٹر اور ریڈیو ، ٹی وی کے اینکر پرسن سید سردار احمد پیرزادہ
کی زیرِتبصرہ کتاب ’’صاف صاف‘‘ عوام کو سیاسی تاریخ و تجزیے سے آشنا کرنے
کی ایک قابلِ تحسین کوشش ہے۔کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے
حصے میں مصنف کے بارے میں لکھی تحریروں کا انتخاب ہے، دوسرا حصہ عقیدت کے
عنوان سے ہے جو روحانیت سے متعلق کالموں پر مشتمل ہے، جبکہ تیسرا حصہ حالات
حاضرہ کے تجزئیوں پر مشتمل ہے جس میں ۲۰۰۷ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک لکھے گئے
کالموں کو یکجا کیا گیا ہے۔ کتاب سو سے زائد کالموں کا ایک دلکش گلدستہ ہے،
جس میں عقیدت، تڑپ اور درد کے پھول بھی ہیں اور تنقید بھرے کانٹے بھی۔ کتاب
کا دلکش ٹائٹل عثمان پیرزادہ نے تیار کیا ہے۔
صاحب نور ﷺ کی مجلس میں، آنکھوں سے بے نور کی بات پر توجہ نہ دی گئی تو اﷲ
تعالیٰ نے پوری سورہ عبس نازل فرما دی،اگر ہم جیسے عقل کے اندھوں نے،آنکھ
کے نور سے محروم کی بات نہ سنی، تو کیا ہو گا؟ قرآن حکیم کے ان الفاظ میں
غور کریں وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی اور تم کو کیا خبر کہ وہ
(نابینا صحابی حضرت ابن مکتومؓ) پاکیزگی حاصل کرتا، قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ
یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ نظریں نیچی
رکھیں، تو اس سے کیا ہو گا ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ، اسی میں پاکیزگی ہے۔ نظر
کے ساتھ لفظ پاکیزگی، صفائی، پاکی کی تطبیق کریں اور بتائیں یہ ’’صاف صاف
‘‘ عنوان ہے یا الہام؟ نظر جھکانے سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ توجب گناہوں کا
گیٹ وے بند کر دیا جائے تو پھرکیا ہو گا؟ تبصرہ خود فرمائیں۔
علم ،فہم، ادراک، روشنی، معرفت کا منبع اگر حواس خمسہ ہیں تو پھر ان آیات
کا کیا مفہوم ہے؟﴿صُمٌّ بُکْمٌ عُمْی﴾،﴿وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ
اِلَیْکَ اَفَاَنْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَ لَوْ کَانُوْا لَا یُبْصِرُوْن﴾﴿
افلم یسیروا فی الارض فتکون لھم قلوب یعقلون بھآ او اذان یسمعون بھا فانھا
لا تعمی الابصار و لکن تعمی القلوب التی فی الصدور﴾ معرفت کے لیے بصارت
نہیں بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، بصیرت کسے اور کیسے نصیب ہوتی ہے؟ پاکیزگی
سے، اس لیے جو جتنا پاک و صاف ہو گا اسے اتنا ہی ’’صاف صاف‘‘ نظر آئے گا۔
اقبال نے بھی تو یہی سمجھا تھا:
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر
فنا و بقا، بصار ت و بصیرت،کشف و حجاب کیا ہیں، یہ راز ، یہ حجاب تو ’’کشف
المحجوب ‘‘ ہی اٹھا سکتی ہے، معرفت کی باتیں اہل معرفت ہی جانیں، مجھے تو
بس یہ شعر یاد ہے:
الٹی ہی چال چلتے ہیں دیوان گان عشق
آنکھیں بند کرتے ہیں دیدار کے لیے
عشق حقیقی ہو یا مجازی، دیدار کے لیے، آنکھیں بند کرنی پڑتی ہیں، اہل دل
معرفت کے لیے مراقبہ میں آنکھیں بند کرتے ہیں۔ تو پھر اب چشم بینا کے بغیر
کسی کو صاف صاف دِکھے یا لکھے، تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟۔ تبصرہ کی
کیا ضرورت ہے؟ صاحب بصیرت ہوتا ہی وہی ہے جو تن کی نہیں من کی آنکھ سے
دیکھے۔ جب من میں دیکھتا ہے تواپنے تن من کے آقا ﷺ کے حضور بھی صاف صاف لکھ
دیتا ہے:
’’میرے آقا ! دن بیتے، ہفتے گئے، مہینے گزرے اور ربیع الاوّل آ گیا۔ لیکن
میں شرمندہ ہوں، اس ماہ میں اس جشنِ بے پناہ میں شرمندہ ہوں اور زندہ ہوں،
وہ باتیں، وہ وعدے اور وہ دعوے جو میں نے کیے ان پر۔ میرے آقاﷺ یہ سب ٹھیک
ہے کہ میں اپنے وعدے بھول گیا، اپنے مفاد میں کھو گیا، اپنی عزت اپنا حق
سمجھنے لگا اور سب سے زیادہ گناہ کر لیے، لیکن ایک دعویٰ نہیں بھولا کہ میں
آپؐ کا ادنیٰ ترین غلام ہوں اور ایک سہارا نہیں ٹوٹا کہ آپؐ رحمت للعالمین
ہیں‘‘۔
تن کی دنیا کو وہ شعور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور اس کیفیت کو بیان کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
’’شعور بہت ہی تکلیف دہ شے ہے۔ اس کے لیے بھی جس کو آ جاتا ہے، کیونکہ پھر
وہ چین سے نہیں بیٹھتا، اور اس کے لیے بھی جس کے خلاف آتا ہے، کیونکہ پھر
اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیا جاتا‘‘۔
وہ اپنے اس شعور سے صرف سیاسی سماجی معاشرتی سرگرمیوں کو نہیں، شیاطین کے
مکر و فریب اور چالبازیوں کوبھی طشت ازبام کرتا ہے۔ اب بتاوٌ جس سے شیطان
کے گہرے مکر اوجھل نہ ہو سکیں اس سے عقل و فہم سے عاری سیاست بازوں کے مکر
کیسے چھپ سکتے ہیں؟یقین نہیں تو کالم ملاحظہ فرمائیں ’’کیا آپ مصروف ہیں‘‘
۔
ہم عقل کے اندھے جن مسائل کو ساٹھ سالوں سے، اخبارروں میں، سیمناروں میں،
مباحثوں میں، کتابوں میں، ڈھونڈ رہے ہیں مگر وہ ہمیں نظر نہیں آتے، نظر
آئیں بھی تو دھندلے نظر آتے ہیں، جن کو صاف نظر ہی نہیں آتا تو وہ اس کا حل
کیا پیش کریں گے، جن کو من کی آنکھ سے صاف صاف نظر آ تا ہے وہ ایک جملے میں
اندرونی اور بیرونی مسائل کا صاف صاف حل بھی بتا دیتے ہیں:
’’یہ نہیں ہو سکتا کہ چیف جسٹس کی بیٹی اور غیر چیف جسٹس کی بیٹیوں کے جسٹس
میں فرق ہو اور ہم امریکہ سے اس کی فارن پالیسی میں جسٹس کی توقع کریں‘‘۔
یہی ہمارا مسئلہ ہے اور یہی اس کا حل، مگر عقل کے اندھوں کو اب بھی نظر
نہیں آ رہا ۔
کہتے ہیں کہ حکومتیں کسی کی نہیں سنتیں، ججوں کے فیصلوں کو نہیں مانتیں،
لیکن جب صاف صاف لکھا جائے توپھر سنا بھی جاتا ہے، مانا بھی جاتا۔ دیکھ
لیں:
۱۱؍ جون ۲۰۰۹ء کو اپنے کالم ’’اگر ایک کام جنرل کیانی صاحب اور دوسرے دو
وزیر اعظم صاحب کر دیں ‘‘لکھتے ہیں:
ـ’’ اگر افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ اور ان ساتوں ایجنسیوں میں پاک فوج
کی مضبوط اور مکمل طور پر جدید چھاؤنیاں بنا دی جائیں تو سرحد پار سے آنے
والے ہر حملہ آور کو بہ آسانی روکا جا سکتا ہے ‘‘
صرف دو دن بعد ۱۳؍ جون ۲۰۰۹ء کو صدر پاکستان، جناب زرداری صاحب اپنے خطاب
میں سوات میں فوجی چھاؤنی کے قیام کا اعلان کر دیتے ہیں۔
اسی کالم میں مزید لکھتے ہیں:
’’FATA اور آزاد علاقوں کو فوری طور پر پاکستان کے دیگر علاقوں کے برابر
درجہ دیا جائے جہاں پاکستان کا قانون اور پارلیمنٹ کا عمل دخل ہو‘‘۔
’’ان علاقوں کو پاکستان کا باقاعدہ حصہ بنانے اور پاکستانی قانون نافذ کرنے
کے بعد ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی قومی و صوبائی حلقہ بندیاں قائم
ہوں جہاں قومی سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار کھڑے کریں اور قبائلی انہیں براہ
راست ووٹ دے کر قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب کریں‘‘۔
ان دونوں تجاویز پر اسی فیصد عمل ہو چکا ہے ۔
۳۰؍ دسمبر ۲۰۱۰ء کو کالم لکھا ’’زرداری جی اپنی عزیز ترین شے تاثیر جی کو
بھی قربان کر دیں گے!‘‘۔ ۴؍ جنوری ۲۰۱۱ء کو وہ قربان ہو گئے۔
اس بات کا کبھی کبھی ان کو خود بھی احساس ہوتا ہے۔ ۸؍ مئی ۲۰۱۱ء کو لکھے
گئے اپنے کالم’’ پاک فوج پر مشکل ترین وقت ہے!‘‘میں اپنے سابقہ کالم جو ۱۹
اپریل ۲۰۱۱ میں ’’خطے اور پاکستانی سیاست کے سمندر میں بننے والے دو
بلبلے‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اب اگر ہم حالات کو جوڑ کر غیر جذباتی انداز میں سوچ سمجھ کر پڑھیں تو
منطقی نتائج خود بخود سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ میرے اس کالم کی اشاعت
کے تقریباً ٹھیک ۱۱ دن بعد یکم اور دو مئی کی درمیانی رات ایبٹ آباد میں
امریکی ’’نیول سیلز‘‘ اسامہ بن لادن کے خلاف ایک مبینہ خفیہ آپریشن کرتے
ہیں جس کے بارے میں پاکستان کے تمام سیکورٹی ادارے لا علم تھے اور اپنی اس
Intelligence Failure کا اعتراف بھی یہ ادارے کر چکے ہیں۔ اس امریکی خفیہ
آپریشن کے بعد پڑنے والے اثرات کا ٹمپریچر نوٹ کریں تو دن بدن بڑھتا جا رہا
ہے ۔ اس واقعے سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ادارہ
پاکستانی سیکورٹی کا ہے‘‘۔
اب یہ بات تحقیق کی بھی متقاضی ہے اورتبصرہ کی بھی، کہ حاکم حقیقی ہو یا
حاکم مجازی، ان کی ’’صاف صاف‘‘ باتوں کو پذیرائی بخش رہے ہیں یا ان کو صاف
صاف باتیں بخشی جارہی ہیں؟
ہم آنکھوں والوں کو تو اپنی ہوش نہیں ، مگر وہ صاحب نظر امریکی پالیسوں کے
پیچیدہ رازوں اور شیطانی مکروں کو بھی صاف صاف بیان کر رہے ہیں، تو کوئی ہے
جو سوچے سمجھے؟:
اگر ہم امریکی پالیسی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ سوویت یونین کو ختم
کرنے میں جس جس نے امریکہ کا ساتھ دیا اسے امریکہ ختم کر رہا ہے۔ یعنی وہ
تاریخ کو windup کر رہا ہے۔ مثلاً افغان جنگ کے مجاہد اول جنرل ضیاء الحق
سے لے کر جنرل اختر عبدالرحمن اور کرنل امام تک سب ہلاک کر دیے گئے۔
مجاہدوں کا لشکر جسے بعد میں طالبان کہا گیا، چُن چُن کر مارا جا رہا ہے۔
اسی افغان جنگ کا ایک اہم حصہ پاکستانی فوج تھی اور شاید اس پر بھی کام
شروع کر دیا گیا ہو۔
یہ ان کے کالموں کی انفرادیت ہے کہ وہ صر ف مسائل بیان نہیں کرتے بلکہ اس
کا حل بھی تجویز کرتے ہیں:
’’پاکستانی فوج پر اس وقت واقعی مشکل ترین وقت ہے۔ ملک کے سیکورٹی ادارے
گھر کی چار دیواری کے مانند ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کی کامیابیوں کو بھی یک لخت
بھول نہیں جانا چاہیے۔ اگر ان میں کہیں کمزوری آ جائے یا شگاف پڑ جائے تو
اسے ڈھانے کی بجائے بھرنے اور مضبوط کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ کیونکہ چار
دیواری گر جانے سے گھر آوارہ جانوروں کی راہگزر بن جاتا ہے۔‘‘
جس کے بارے میں عینک کے شیشوں کے اوپر سے پردے کے اندر چھپی خبر کو دیکھنے
والے منو بھائی اس کی شعوری آنکھ سے کیسے افادہ حاصل کرتے ہیں:
’’غالبا وہ پاکستان کی قومی صحافت کے پہلے نابینا کارکن صحافی ہیں جنہوں نے
اپنی قدرتی محرومیوں پر غلبہ پاتے ہوئے بغیر کسی ’’بریل‘‘ (Braille) کو
سیکھے یا آزمائے انسانی مہربانیوں اور تعاون کو بروئے کار لاتے ہوئے’’پڑھ
کو سنانے والے‘‘ اور ’’سن کر لکھنے والوں کے تعاون سے اپنی جملہ زندگی میں
قابل قدر کامیابیاں حاصل کیں‘‘
جب کالم نگاری کا چمکتا ستارہ جاوید چوہدری برملا کہے :
’’پیرزادہ صاحب پہلے شخص تھے جنہوں نے مجھے کالم لکھنے کی ترغیب دی، وہ
میری راہنمائی بھی کرتے تھے اور حوصلہ افزائی بھی۔ میں آج کالم نگار ہوں تو
اس کی پہلی اینٹ اﷲ تعالیٰ کے بعد سردار پیر زادہ نے رکھی تھی۔‘‘
بتائیں ستارے روشنی کس سے حاصل کرتے ہیں؟
جاوید چوہدری ’’صاف صاف ‘‘ کے بارے میں صاف صاف لکھتے ہیں:
’’یہ پاکستان کے پہلے ’’بلائند کالمسٹ ‘‘ اور میں یہ تسلیم کرتے ہوئے
پیرزادہ صاحب سے شدید حسد محسوس کر رہا ہوں کہ ان کا کالم ہم جیسے عقل کے
اندھوں سے کہیں بہتر، شاندار اور مضبوط ہوتا ہے، پیر زادہ صاحب کے کالم کی
مضبوطی کی وجہ ان کا ان تھک جذبہ، ناقابل شکست ارادہ اور ہار نہ ماننے کا
فیصلہ ہے جبکہ ان کے مقابلے میں ہم عقل کے اندھے اکثر اوقات اپنے ٹوٹتے
پھوٹتے ارادوں ، اپنے ہار مانتے سمجھوتوں اور اپنے جذبوں کی تھکان کے
ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں جس وجہ سے ہمارے کالم پھیکے اور ہماری تحریریں بے
روح ہو جاتی ہیں، ہمارے مقابلے میں پیرزادہ صاحب زیادہ مضبوط اور زیادہ
ٹھوس ہیں چنانچہ ان کے کالم کی آن ، شان اور بان ہر حال میں قائم رہتی ہے‘‘
اس کے بعدبھی تبصرہ کی ضروت ہے؟ یقینا ہے، اور میرا ہر سوال وسیع تبصرہ کا
متقاضی ہے، میری بے ترتیب، بے موضوع باتوں کو چھوڑیے، خود پڑھیے، کتاب
’’صاف صاف‘‘،کالم ’’صاف صاف‘‘ ویب سائیٹ ۔ اور اس پر تبصرہ بھی خود
فرمائیں۔ کتاب ۳۳۸ صفحات پر مشتمل ہے اور اسے پورب اکادمی اسلام آباد نے نے
شائع کیا ہے۔ |
|