قائد اعظم کی کشمیر پالیسی اور موجودہ پاکستانی قیادت کے ہاتھوں کشمیری تشخص کی پامالی
(Sardar Attique Ahmed Khan, Azad Kashmir)
میرپور کے حالیہ ضمنی الیکشن میں
پاکستان تحریک انصاف کی شرکت پاکستان کی چوتھی سیاسی جماعت کی ریاستی سیاست
میں دخل اندازی ہے۔قائد اعظم کا متحدہ ہندوستان میں مسلم لیگ کے قیام اور
صرف اور صرف ریاست جموں و کشمیر میں مسلم لیگ کے بجائے آل جموں و کشمیر
مسلم کانفرنس (جو 1932ء میں سری نگر کی پتھر مسجد میں قائم ہوئی)ہی کو اپنی
جماعت قرار دینا کس قدر دور بینی او ر دور اندیشی کا مظاہرہ تھا۔یہ فیصلہ
جہاں قائد کے جموں و کشمیر کے عوام پر بے پناہ اعتماد کا مظہر ہے وہاں
آزادی کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل میں پیداہونے والی پیچیدگیوں کا بھی ایک
پیشگی حل ہے۔
شملہ معاہدہ سے پہلے مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ تھا لیکن بھٹو نے
کشمیری عوام کا اعتما د حاصل کرنے اور اہل ِپاکستان کی کشمیر سے جذباتی
وابستگی کا فائد ہ اٹھانے کیلیے کشمیر پر ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا نعرہ
لگایا اور اقتدار میں آکر کشمیر میں کامیا ب ہڑتال کی کا ل دے کر کشمیر ی
عوام کا بھر پور اعتماد اور ہمدردیاں حاصل کر لیں۔گویا کہ آنے والے وقت میں
کشمیر پر کی جانے والی پسپائی کی پیش بندی کر دی گئی ۔
شملہ معاہدہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو ٹوٹے ہوئے پاکستان کے شکست خوردہ حکمران
نے فاتح مشرقی پاکستان اندراگاندھی کے ساتھ کیا۔اس لیے اُس میں کچھ گنجائش
رکھی جانی چاہیے لیکن اُس معاہدے کے بنیادی نقائص میں ایک کشمیریوں کی عدم
شرکت اور دوسرا کشمیر کے بین الااقوامی مسئلے کو دو طرفہ تعلقات کا مسئلہ
بنا دینا تھا۔
شملہ جانے سے قبل ذوالفقار علی بھٹو نے آزاد کشمیر کے صدر اور چیف ایگزیکٹو
سردار عبدالقیوم خان کو بلا کر ساتھ شملہ جانے کا مشورہ دیاجس پر سردار
عبدالقیوم خان نے کہا کہ ـ’’ بھٹو صاحب آ پ کمزور حالت میں بات کرنے جا رہے
ہیں اس لیے میر ا مشورہ ہے کہ دونوں جانب کے کشمیریوں کو ان مذاکرات سے
باہر رکھیں تاکہ کسی مشکل صورت میں کشمیری قیادت کا موقف مسئلہ کشمیر پر
پسپائی سے بھی بچا سکے اور آپ کو بھی اخلاقی امداد مل سکے۔‘‘ چنانچہ بھٹو
صاحب نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔شملہ معاہدہ کے فورََا بعد کراچی یونیورسٹی
میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک اجتماع میں سردار عبدالقیوم خان نے اعلان کیا
کہ ’’ کوئی با غیرت کشمیر ی سیز فائز لائن کو کنٹرول لائن تسلیم نہیں کرتا
اور کشمیری جس معاہدے میں شریک نہیں اس کے فریق بھی نہیں‘‘ اسلامی جمعیت
طلبہ کے اس اجتماع میں مجاہد اول کو دعوت دینے کے لئے آنے والے جمعیت کے
ایک راہنما تسنیم عالم منظر مظفرآباد کے دریائے نیلم میں نہاتے ہوئے شہید
ہو گئے تھے جس کے باعث ذوالفقار علی بھٹو اور مرکزی حکومت کے تما م تر دباؤ
کو نظر انداز کرتے ہوئے سردار عبدالقیوم خان نے کراچی یونیورسٹی کے اجتماع
میں شرکت کو یقینی بنایا۔
صدر آزادکشمیر کے اس بیان سے بھٹو کے ساتھ موجود تلخی میں اضافہ فطری بات
تھی ۔جسے بنیاد بناکر مسلم کانفرنس کوراستے سے ہٹانے کا آغاز کر دیا
گیا۔چند باتوں کا فیصلہ اگرچہ شملہ میں ہی کر دیا گیاتھا جن میں آزادکشمیر
میں مسلم کانفرنس حکومت کا کاتمہ ،نیو پارک میں یوسف بچ کی سر براہی میں
چلنے والے فری کشمیر Free kashmirسینٹر کی بندش ،آزد کشمیر میں پیپلز پارٹی
کا قیام اور چند دیگر امور شامل تھے تاہم بہانہ شملہ معاہدہ کی مخا لفت بنا
اور ذوالفقار علی بھٹو نے مسلم کانفرنس اور سردار عبدالقیوم خان کے ٹکٹ پر
منتخب ہونے والے ڈڈیال سے پیر علی جان شاہ اور حویلی سے مسلم کانفرنسی ممبر
آزاد کشمیر اسمبلی راجہ ممتاز حسین راٹھور کو مسلم کانفرنس سے توڑ کر آزاد
کشمیر میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ بعد میں رفتہ رفتہ غازی ملت سردار
ابراہیم خان اور کے ایچ خورشید کو بھی پیپلز پارٹی میں شامل کر لیاگیااور
چوہدری نور حسین نے کشمیر کونسل کے مشیر کی حیثیت سے بھٹو حکومت میں شمولیت
کر لی۔
گویا کہ مرکزی حکومت،ذوالفقار علی بھٹو اور آزاد کشمیر کی تمام نامور سیاسی
شخصیات اور جماعتوں نے یکجا ہو کر مسلم کانفرنس کو نظرئیہ الحاق پاکستان
اور کشمیر بنے گا پاکستان کے لیے کام کرنے کی اعلانیہ سزا دینے کا فیصلہ کر
لیا ۔سردار عبدالقیوم خان کو 18ماہ تک پلندری اور سہالہ راولپنڈی جیل میں
رہنا پڑاجبکہ اُن کے دیگر کارکن ساتھیوں کو اُس وقت کے بدنام زمانہ دلائی
جیل اور پدر مستو کیمپ میں رکھ کر ہر طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس
طرح مقبوضہ کشمیر میں کا نگریس اور بی جے پی کے بعد بھٹو نے آزاد کشمیر میں
قائد اعظم کی پالیسی سے بغاوت کرتے ہوئے پہلی غیر ریاستی جماعت کی بنیاد
رکھی اور ساتھ ہی اس کا دائرہ ریاست کے دوسرے حصے یعنی گلگت بلتستان تک
پھیلا دیا۔
کچھ عرصہ بعد یہی خواہش جماعت اسلامی کے ہاں بھی پیدا ہوئی لیکن سید ابو
لاعلی مودودی نے کئی سال تک اس تجویز کی مخالفت کی اور اجازت نہ دی۔لیکن
بالاآخر کچھ لوگ اس میں کامیاب ہو گئے اور پیپلز پارٹی کے بعد جماعت اسلامی
دوسری غیر ریاستی جماعت کی حیثیت سے آزاد کشمیر میں قائم کر دی گئی ۔اصولی
اور عملی اقدام بھی ایک ہی طرح کے تھے ۔گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے
مسلم کانفرنس کے نائب صدر مرحوم مولانا عبدالباری کو مسلم کانفرنس سے الگ
کر کے جماعت اسلامی آزادکشمیر کا امیر بنایا گیا۔کشمیر یوں کو تقسیم کرنے
اور قائد اعظم کی کشمیر پالیسی سے تصادم کا یہ سﷲ جاری ہے۔پاکستان مسلم لیگ
نے گزشتہ چند سالوں تک پیر پگاڑا ،محمد خان جو نیجو اور میاں نواز شریف اور
چوہدری شجاعت حسین تک قائد اعظم کی پالیسی کا احترام قائم رکھا لیکن ماضی
قریب میں جب مسلم لیگ کی پالیسی میں کچھ بنیادی تبدیلیاں سامنے آنے لگیں تو
میاں نواز شریف ،راجہ ظفرالحق اور کچھ دیگر نے بھی مسلم کانفرنس کو ہی اپنی
قوت کا نشانہ بنانے میں دیر نہ کی۔پیپلز پارٹی اورجماعت اسلامی کی طرح مسلم
لیگ نے بھی مسلم کانفرنس کے ٹکٹوں پر منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی
کوسیاسی،سرکاری،مالی،صحافتی اور نفسیاتی جبر کے ذریعے توڑکر آزدکشمیر میں
مسلم لیگ نوا ز کی بنیاد رکھ دی ۔
آزاد کشمیر میں ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں جو پہلے سے مسلم کانفرنس کاممبر
اسمبلی نہ ہواور اسے نواز لیگ کی وجہ سے جتایا جاسکاہو ۔یہی ایک بات مسلم
کانفرنس کو عوامی تائید وحمایت کا مرکز و محورثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔جن
پالیسز کی بنیاد پر مسلم لیگ نے مسلم کانفرنس کو کمزور کرناچاہااُن میں
ہندوستان کے ساتھ غیر مشروط تجارت،MFN،NDMA کشمیر پر پسپائی اور افواج
پاکستان کے متعلق معاندانہ رویہ تھا۔
میاں نواز شریف نے دورہ آزاد کشمیر کے دوران بہت کھل کرکہا کہ’’ جو لوگ خود
کو افواج پاکستان کے قریب سمجھتے ہیں وہ ہم سے اور ہماری سیاست سے دور ہو
جائیں بلکہ وہ مسلم کانفرنس اور دوسری جماعتوں میں ہی رہیں لیکن جو لوگ فوج
کے متعلق ہماری پالیسی سے اتفاق کر تے ہیں وہ سب ہمارے ساتھ شامل
ہوجائیں۔‘‘
مسلم کانفرنس کے قائد مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان نے 23سال کی عمر میں
آزاد کشمیر فورسز کی جو بنیاد 1947ء میں رکھی تھی وہ آج 2015 میں بھی اُسی
طرح قائم ہے۔جس جماعت کے قائد نے پندرہ ماہ کے جہاد کے ذریعے مقبوضہ ریاست
کا ایک بڑا حصہ آزاد کروایا اور جو جماعت کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ
ہمارے دروازے پر حملہ آور ہندوستانی فوج کے مقابلے میں ہماری مددگار
اوردفاع کرنے والی پاکستانی فوج جو 70سال سے چوکس کھڑی قربانیاں دے رہی ہے
وہ جماعت کیسے اپنی دفاعی قوتوں کی مخالفت کی متحمل ہو سکتی ہے۔
بقول شاعر
’’ کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے اس طرح ہم میں ہوتی گئی دوریاں‘‘
قصہ مختصر کہ مسلم لیگ بھی اسی دوڑ میں باقیوں سے پیچھے نہی رہی۔صرف اتنا
ہی بلکہ وقت کے ساتھ نواز لیگ کے آزاد کشمیر میں قیام کا واضح مقصد مسلم
کانفرنس کا راستہ روک کر پیپلز پارٹی کے لیے راستہ ہموار کرنا ثابت ہو رہا
ہے۔جو بذات خود دوہرہ منفی مقصد ہے۔
اب سونامی بھی آزادکشمیر میں داخل ہو گیاہے جس پر ان شاء اﷲ اگلے کالم میں
سیر حاصل گفتگوہو گی ۔ |
|