شہر قائد کی آبادی کے لحاظ سے
اگر ایک جائزہ پیش کیا جائے تو اس شہر کے مکینوں میں ایسے بہت ہی کم ہوں گے
جن کو تعلق اس سے بنیادی طور ہو گا ۔ایوب خان ہزارے والوں کو اگر بساتے ہیں
تو سندھ کے نگہبان سندھیوں کی ایک بھر پور کھیپ سندھ سکرٹریٹ تک لانے میں
کامیاب و کامران ٹھہرتے ہیں جو خود سندھ دھرتی کے عظیم لیڈر ذولفقار علی
بھٹو کے فلسفے کو جمعہ ‘ہفتہ اور بدھ بازاروں میں ارزاں نرخوں پر فروخت
کرنے میں مگن ہیں ۔ پی پی پی کے جیالوں کی کھیپ میں بعضوں کو اپنے ناموں تک
سے آشنائی نہیں مگر قسمت کی مہربانی وہ وزیر ‘مشیر اور معاون خصوصی کے
عہدوں پرمتمکن ہیں ۔پٹھا نوں نے اس شہر میں کاروبار کو وسعت دی تو بوہری
‘دہلی والے بھی کسی سے کم نہیں رہے ۔اس شہر میں آنے والوں کو اس شہر نے
نوازکے ہی چھوڑا ہے ۔
ہمہ جہت اہمیت کے حامل اس شہر کی تعریف کے کئی پہلو ہیں۔مستقبل میں مورخ جب
بھی ’’شہر قائد ‘‘پر قلمی رشخات لکھنے بیٹھے گا تو اس کو لکھنا پڑے گا کہ
اس شہر میں ایک آبادی ایسی بھی تھے جو مہاجر کہلاتے تھے ۔یہ مہاجر انڈیا سے
آئے تھے اور انہوں نے اپنے حقوق کے لئے جہدو جہد کا آغاز کیا تھا جس کے لئے
انہوں نے مہاجر قومی موومنٹ بنائی تھی اور اس کے پس منظر میں وہ 1992تک کے
تما م مناظر کی پہلو کشی کرے گا ۔
لکھاری یہ بھی لکھے گا کہ 1992جیسے واقعات کو رونما کرنے کے باوجود بھی
مہاجروں کی آواز پست ہونے کے بجائے ابھر گئی تھی اور اب کی بار اس درخت سے
کئی شاخیں بھی پھوٹ چکیں تھیں ۔احمقوں کی جنت میں رہنے والوں کے فیصلوں نے
اس شہر میں ایک ہی کاز کے لئے سربکف نوجوانوں کو مہاجر قومی موومنٹ کی
چھتری سے نکالنے کے لئے غلط اقدام کئے۔ جس کی وجہ سے ہمدردیوں نے ڈیرے ڈالے
اور یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو ا۔جس نے ہونا ہی تھا ۔غلط اور
صحیح ‘حق و باطل ‘اپنی اور پرائی کی بحث کا آغاز حضرت انسان کی اس دنیا میں
ا ٓمدسے شرو ع ہو چکا ہوتھا۔ جس پہ بات ہمیشہ کی جاتی رہے گی ۔مہاجر قومی
موومٹ کی چھتری کو ناہنجاز سمندر برد کرکے یہ بھول گیا تھا کہ اسی سمندر کے
ساتھ ایک ساحل بھی ہوتا ہے اور اس ساحل پر ہر چیر آکر ایک ٹھکانہ بنا لیتی
ہے ۔جس کو سمندر کی جانب آنے والا ہر شخص اٹھا سکتا ہے۔ اس سے اپنی مرضی کا
کام لے سکتا ہے ۔چاہے تو اسے شو پیس بنا لے ۔نہ چاہئے تو سر بازات بیچ ڈالے
۔
کراچی کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ‘متحدہ قومی موومنٹ ‘جماعت اسلامی اور پھر
کسی درجہ میں پیپلز پارٹی کو رکھا جاسکتا ہے ۔رہی عوامی نیشنل پارٹی اس کی
حیثیت اس بات سے عیاں ہو جاتی ہے کہ اس کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے
بڑا گراؤنڈ میسر آتا ہے نہ ہی شامیانے بسانے والوں کی مدد کارفرما ہونے کو
تیار ہے ۔متحدہ قومی موومنٹ ردعمل کا نام ہے ‘یہ ردعمل مہاجروں کے حقوق کو
سلب کرنے پر سامنے آیا تھا ۔ مختلف زمانوں میں اٹھنے والی باغی اور ردعمل
کی تحریکوں کا مجموعی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی طرح ان
تحریکوں کا بھی ایک لائف سائیکل ہوتا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ
نہایت ہی کمزور بچہ ہوتا ہے‘والدین اس کی پرورش کرتے ہیں۔ اپنے گرد و پیش
سے وہ ہوا اور غذا حاصل کرتا ہے۔والدین‘ اساتذہ سے ذہنی ‘روحانی غذا حاصل
کرتا ہے‘ اس طرح سے جوان ہو جاتا ہے۔ تجربہ حاصل کر کے وہ پختہ عمری کو
پہنچتا ہے جو اس کی زندگی کا نقطہ عروج (Climax) ہوتا ہے۔ اس کے بعد پہلے
اس کا جسم اور پھر ذہن زوال کا شکار ہوتا ہے اور اس طرح وہ آہستہ آہستہ
کمزور ہو جاتا ہے اور پھر ایک دن موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ کسی انسان کے
مرنے کے بعد ایسا نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ اس کی نسل بھی ختم ہو جاتی ہے
بلکہ وہ اپنے بچوں کی صورت میں مزید انسان پیدا کر جاتا ہے جن کا اسی طرح
سے ایک لائف سائیکل ہوتا ہے۔ ہاں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی انسان کی اولاد
نہیں ہوتی اور اس کے مرنے کے ساتھ ہی اس کی نسل بھی ختم ہو جاتی ہے۔جی میاں
جی ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔
ہر قسم کی تحریکوں کا لائف سائیکل بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ یہ تحریک ابتدا میں
کسی ایک یا چند اشخاص کے ذہن میں پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ کچھ بھی ہو
سکتی ہے ۔ تحریک اس شخص کے ذہن میں جب پیدا ہوتی ہے تو وہ اس پر سوچتا ہے‘
قابل اعتماد لوگوں سے اس پر بات کرتا ہے۔ متعدد افراد کے ذہن میں یہ تحریک
موجود ہو تو وہ اپنے مشترکہ مقصد کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کے
سامنے کوئی واضح لائحہ عمل (Strategy) موجود ہوتو وہ اس پر کام کرنے لگتے
ہیں اور مزید ہم خیال لوگ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک کا
فکری کام بھی جاری رہتا ہے جس سے لائحہ عمل مزید واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس
دور کو ہم تحریک کا بچپن کہہ سکتے ہیں۔بچے بھی کسی حادثے یا بیماری کا شکار
ہو کر مر جاتے ہیں، ویسے ہی کسی داخلی بحران یا خارجی حادثے کے سبب تحریک
بھی بچپن میں موت سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ جیسے جیسے تحریک کو مزید ساتھی
ملتے جاتے ہیں، ویسے ویسے اس کے وسائل اور قوت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایک وقت وہ آتا ہے جب یہ تحریک ایک تناور درخت بن جاتی ہے۔ تحریک ایک تناور
درخت بن جائے تو اس کی جڑیں بالعموم دور دور تک پھیل جاتی ہیں۔ ایسی تحریک
کی حیثیت ایک آئس برگ کی سی ہوا کرتی ہے جو سمندر کی اوپری سطح پر چھوٹا سا
نظر آتا ہے لیکن سمندر کے اندر یہ کئی گنا بڑا ہوتا ہے۔
جذبات ختم نہیں ہوتے بلکہ انتقام کا جذبہ مزید طاقتور ہو جاتا ہے۔ اس صورت
میں ان جڑوں سے دوبارہ تنا نکل آتا ہے ا ور شاخیں پھوٹ نکلتی ہیں اور پھر
کسی موقع پر ایک اورتحریک جنم لیتی ہے اور سروں کی فصل بار بار کٹتی ہے۔ ان
بغاوتوں کو فرو کرنے میں حکومت کی توانائی کا بڑا حصہ خرچ ہوتا چلا جاتا
ہے۔ جو اس وقت ہو رہا ہے ‘تم اپنی ہی قسمت سے لڑتے رہو گے اور مبادا تمہیں
دشمن سے برسرِپیکارہونا پڑ گیا تو نتائج دو دو چار کی طرح سامنے ہیں ۔دشمن
کی لڑائی دشمن سے ہو تو ایسا بہت کم ہو تا کہ دشمن تمہارا ساتھ دے جی ایسا
بہت کم ہوتا ہے ۔نصیر اﷲ بابر سے لے کر ذولفقار مرزا تک ‘خفیہ طاقت سے لے
کر ظاہر ی جاہ و جلال تک‘ متحدہ کو مٹانے پہ لگا دی جائے مگر اس سبق کو بھی
یاد رکھا جانا چاہیے کہ طاقت کو ختم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال سمجھ میں
آتا ہے مگردماغ سے لڑائی کے لئے طاقت کااستعمال سوچوں سے ماوراء ہے ۔ |