دو اپریل کو ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری
پروگرام سے متعلق عبوری معاہدہ سوئیٹزر لینڈ میں طے پا گیا ہے ۔اس معاہدے
کے بعد دونوں فریقوں نے خوشی کا اظہار بھی کیا ہے اور اسے اپنے اپنے لیے
ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ اگرچہ اس معاہدے کو حتمی شکل 30جون کو دی
جانی ہے مگر عالمی معاشرہ اس پر ابھی سے خوشی کا اظہار کر رہا ہے۔یورپ اور
امریکہ کا خیال ہے کہ انہوں نے ایران کو ایٹم بم بنانے سے روک دیا ہے جبکہ
ایران کا موقف اس کے سول استعمال کا رہا ہے۔اس معاہدے کے بعد سے ایران پر
عائد پابندیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور اسے بینک اکاؤنٹس اور تیل کی مارکیٹ
تک رسائی بھی حاصل ہو جائے گی۔
اگرچہ یہ معاہدہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہے اور اس میں
پاکستان کابظاہر دور دور تک کوئی ذکر نہیں ہے تاہم اس کے اثرات پاکستان پر
بہت گہرے ہیں ۔جب تک ایران پر پابندیاں تھی اس وقت کا ایران کچھ اور تھا
اور اب اقتصادی پابندیوں کے خاتمے بعد کا ایران مختلف ہو گا ۔اس کے
مفادات،ترجیحات اور اہداف میں واضح تبدیلی نظر آئے گی۔عبوری معاہدے کی خبر
کے ساتھ ہی ایران میں خوشی کا سماں ہر کسی نے دیکھا ہے ان کی حکومت کا لب
ولحجہ تبدیل ہوتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے۔پاکستان کے ساتھ ایران کے تعلقات
تاریخی اعتبار سے عمدہ رہے ہیں مگر موجودہ اقتصادی پابندیوں کے عرصہ میں
کچھ کچھاؤ بھی دیکھائی دیا گیا ہے ۔ اس عرصہ کے دوران ایران پاکستان کو گیس
اور بجلی فروخت کرنا چاہتا تھا اور پاکستان اس کو خریدنے کے ارادہ بھی
رکھتا تھا مگر عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔ایران کی یہ
شدید خواہش تھی کہ پاکستان اس کے مشکل وقت میں کام آئے اور اچھے دوست اور
ہمسائے کا ثبوت دے مگر پاکستان امریکی دباؤ کی وجہ سے اس کی خواہشات پر
پورا نہ اتر سکا ۔پاک ایران گیس منصوبہ تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا ۔اب
پاکستان اس منصوبے کی جلد تکمیل کی خواہش رکھتا ہے مگر ایران کی طرف سے وہ
گرمجوشی اب دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔اس کی نظر پاکستان کی سعودی عرب میں
اپنی افواج کو بھیجنے کی پالیسی پر ہے۔اب یہ اندازے حقیقت میں بدل چکے ہیں
کہ ایران یمن میں مکمل طور پر دلچسپی لے رہا ہے اپنے مشکل ترین اقتصادی دور
میں بھی اس نے حوثی قبائل کی ہر طرح کی مدد کی ہے اور اب کس طرح اپنے اچھے
دنوں میں وہ ان سے منہ موڑسکتاہے۔اگر کسی بھی مرحلے پر پاکستان اپنی افواج
سعودیہ روانہ کرتا ہے یا یمن کے مسلے پر ایران مخالف پالیسی اختیار کرتا ہے
تواسے ایران سے اچھائی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔وہ بلوچستان میں ہزارہ
قبیلے کو متحرک کر کے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ماضی میں
افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے اثرات اب تک کے پی کے میں نظر آرہے ہیں
۔
بھارت نے گیس منصوبے سے خود کو الگ کر لیا تھا مگر ایران نے اسے بندر عباس
میں سرمایہ کا ری کے بھر پور مواقع دیے ہیں یوں ایران اور بھارت ایک دوسرے
کے بہت قریب آچکے ہیں ۔جوہری معاہدے کے بعد ایران اپنی تمام تر تجارت یورپ
کے ساتھ ہی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر وہ بھارت کو بھی نظر انداز نہیں
کرنا چاہتاہے۔بھارت ایران میں کثیر سرمایہ کاری کرنے کا خواہش مند بھی ہے
۔اگر یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے مزید قریب آتے ہیں اور افغان پالیسی پر ایک
ہی موقف اختیار کرتے ہیں تو خطے میں پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو
گا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی قریب میں پاکستان کی سرد مہری کی وجہ
سے ایران کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ ہوا ہے ۔روس کی قربت ایران کے ساتھ
واضح ہے۔ یمن کے مسلے پر بھی وہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے فضائی
حملوں پر تحفظات رکھتا ہے اوراب اس نے ان حملوں کو روکنے کرنے کا مطالبہ
بھی کر دیا ہے ۔چینی صدر کے دورہ پاکستان کا بار بار التوا بھی پاکستان کے
لیے مایوس کن ہے ۔اب اس خطے کے ممالک کا جھکاؤ پاکستان سے تبدیل ہو کر
ایران کی طرف ہوتا دیکھائی دے رہا ہے ۔
اس سارے منظر نامے میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو
گی۔اب یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ کس طرح اپنے آپ کو اس خطے میں تنہائی سے بچا
پاتا ہے کیونکہ پاکستان کے ہاں غیر جانبداری کی کوئی روایت موجود نہیں ہے
اسی لیے اگر اس نے اپنی موجودہ پالیسی جاری رکھی تو اس کی مشکلات میں اضافہ
ہو گا ۔ پاکستان نے ماضی میں بھی سمندر پار ملکوں سے دوستی نبھائی ہے اور
ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ رکھے ہیں۔ اس پالیسی کی پاکستانی عوام نے
بھاری قیمت چکائی ہے ۔اگر پاکستان ایران کے برعکس سعودی عرب اور چین و روس
کی جگہ امریکہ کو ترجیح دیتا ہے تو انتشار ایک طویل عرصے تک پھر اس خطے کے
عوام کا مقدر بن جائے گا۔
|