کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ۔۔۔ آخر پی۔ٹی۔آئی۔سب سے پہلے
استعفوں اور پھر دھرنوں ،بارشوں ،دعوؤں ،اعلانوں،اور جلسوں کے بعد
،پارلیمنٹ میں بیٹھنے پر رضامند ھو گئے ۔ اور ایسی پارلیمنٹ میں جو جعلی ھے
۔اور ایسے رضامند ھوئے کہ خواجہ صاحب نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ، شرمندگی اور
ذلالت کی ساری پی۔ٹی۔آئی کو آخری لکیر تک پہنچا دیا ، کوئی کچھ بھی کہے ۔
خواجہ صاحب کی اس حرکت کو ۔ معاف کیجیئے گا ۔ اس تقریر پر کوئی کچھ بھی کہے
۔ کہ غیر پارلیمانی ،غیر اخلاقی،غیر سیاسی ،، مگر خواجہ صاحب نے جو جارحانہ
انداز اپنایا تھا مجھے سرفراز کی سوؤتھ افریکہ کے خلاف بیٹنگ یاد آگئی ۔۔ ۔
خواجہ صاحب نے خوب ٹھوک کے رکھا،جنھیں بہت جلدی تھی اسمبلی میں جانے کی اور
بڑی ضدیں کر رھے تھے ،اب میں ان سب سے پوچھتا ھوں کہ '''' ہنڑ آرام ای ''''
ٹھیک کیا خواجہ صاحب ۔۔ میں ہوتا تو میں بھی شائید یہی کرتا ،اب تحریک
انصاف والے دیتے پھریں دلیلیں ،اور اکسپلے نیشز (explanations )۔ میں تو
اُن کی عقلوں پہ حیران ہوں، جو خواجہ صاحب اس طرح کے (Response ) پہ حیران
ھیں،کیا امیدیں لے کر آئے تھے۔کہ پھولوں کے ہار ڈالیں گے۔ کہ بہت پُرتپاک
سواگت ھو گا، مٹھایئیاں بانٹی جائیں گی۔ اوہ۔ یہی ہونا تھا بھئی۔
مجھے ذاتی طور پر سیاست کا الف ب بھی نہیں پتہ کہ(وہ سیاست جو پارلیمینٹ کے
اندرہوتی ھے) ۔تحریک انصاف نے اسمبلی میں جا کر صحیح فیصلہ کیا یا نہیں ،
مگر یہ جانتا ھوں ۔ جو اسمبلی میں ہوا۔ وہ مجھ سے بھی برداشت نہیں ھو رھا
تھا، جس انداز سے خواجہ صاحب ان سب کی درگت بنا رہے تھے ۔میں اگر اسمبلی
میں بھی ہوتا تو بخدا اُٹھ کر چلا جاتا۔ اور تب تک واپس نہیں آتا ۔جب تک
میرے دماغ سے اس بے عزتی کی شائیں شائیں ۔ ختم نہ ھو جاتیں۔۔ میں اکثر اک
فقرہ بولتا ھوں ، حالنکہ مفہوم کا شائید مجھے بھی علم نہیں مگر ایسی کوئی
سیچوئیشن بن جائے تو ، وہ جملہ میرے ذہن میں فوراََ آ جاتا ھے ۔۔ کہ '' ان
کے ساتھ تو وہ ھوا جو چوہدری نے اپنی نُوہ (بہو) کے ساتھ کیا تھا،( میں اس
سے لابلد ہوں کہ کیا کیا تھا)۔
خواجہ صاحب رات کو کسی پروگرام میں کہہ رھے تھے۔ کہ میں نے سپیکر صاحب سے
کہا کہ جناب ان کے استعوں کا سٹیٹس ذرا چیک تو کریں ، کہ کس منہ سے اسمبلی
میں آئے ھیں، تو جواب میں اینکر نے پوچھا کہ '' کیا سپیکر صاحب نے اُن سے
پوچھا'' پھر خواجہ صاحب نے کہا ، کہ یہی تو جھگڑا ھے ،(یعنی نہیں پوچھا)۔
اس پر اینکر نے کہا کہ ،، کیا سپیکر صاحب کا آائینی طور پر حق نہیں بنتا
تھا کہ ، پوچھیں ۔۔؟؟ اور اگر نہیں پوچھا تو سپیکر صاحب نے آرٹیکل (64) کی
خلاف ورزی نہیں کی ۔ ؟؟ اس سوال پر تو جواب نہیں دیا ،، البتہ یہ ضرور کہا
کہ میں ، اب بھی اپنے موؤقف پر قائیم ھوں۔۔
یعنی یہ وہی بات ہوئی کہ۔ '' زیبرا کالا ھے بس اُس میں لکیریں سفید ھیں''''
اب یہ ایسی بات ھے کہ کوئی انہیں کنوینس نہیں کر سکتا کہ ۔ '' زیبرا سفید
ھے بھئی۔ اُس میں لکیریں کالی ھیں'' لیکن وہ اپنے موؤقف پر قایم ھیں ۔
کہنے کا مطلب صاف یہ ھے ، کہ بھئی اتنا چیخنے چلانے ،،، عزت ،غیرت ،شرم
دلانے ، کے بعد بھی آپ اپنے موؤقف پر قائیم ھیں ۔ کہ پی۔ٹی۔آئی والے کیوں
اسمبلیوں میں ھیں ،، اس بات کو تو سپیکر صاحب اپنے آئینی حق کو استعمال کر
کے، ایک منٹ میں فیصلہ کر سکتے ھیں ،، تو کیوں نہیں کرتے ۔ پی ۔ ٹی۔ آئی
والوں کی جراءت نہیں ۔ ھو گی کہ وہ اسمبلیوں میں بیٹھیں ، بات یہ ھے کہ
،خواجہ صاحب نے یہ بھڑاس نکالنی تھی ۔یہ وہ آگ تھی جو بقول شاعر ''' بجھائے
نہ بجھے ۔مٹائے نہ مٹے ''''
بقول شخصے (جس نے یہ تاریخی جملہ کہا ھے اس کا نام نہیں لوں گا،سمجھدار لوگ
، خود ھی سمجھ جائیں گے)کہ۔۔ نون لیگ کو دو خواجوں اور دو راجوں نے ٹریپ
کیا ہوا ھے ۔جب چار حلقے کھلیں گے ۔۔ تو خواجوں اور راجوں کے تو اپنے
''حلق'' سوکھ جائیں گے ۔۔ آخر عمران خان دن میں ساٹھ سے ستر دفعہ اس بات کو
دہراتا ھے ، کہ چار حلقے ، چار حلقے ۔۔ کہہ کہہ کر اس کا اپنا حلق خشک ھو
گیا ۔۔۔ مگر مجال ھے کہ ، ان کے کان تک جوں رینگتی ھو۔ یہ تاخیری حربے ھی
تو اس پورے معاملے کو مشکوک بنا گئے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ھے ، کہ خواجہ آصف
صاھب نے اسمبلی میں کہا تھا کہ ،، آپ چار حلقوں کی بات کر رھے ھیں ناں ،
میں دس حلقے کھولنے پر تیار ھوں ،، چھوڑیں ، یہ کمیشن اور عدالتیں ،، آئیں
خود مل بیٹھ کر اس کا فیصلہ کر لیتے ھیں ،، مگر ۔۔۔۔ بات التوا میں چلی گئی
۔ خواجہ صاحب خود جوڈیشنل کمیشن (من پسند )کی مانگ کرنے لگ گئے ،
اب جوڈیشنل کمیشن بن گیا ھے ، دونوں پارٹیوں کی اتفاق بھی ھے ۔۔ مگر ۔۔۔ اس
میں اور بھی بہت سارے اگر ،، مگر کی گنجائیشیں ھیں ۔۔ اس کمیشن کا فیصلہ
اور نتیجہ کیا رہتا ھے ، یہ دیکھنا ابھی باقی ھے ۔ مگر ۔۔ میں جیسا کہ میرا
عنوان تھا ۔۔ کہ کیا ایک ایسی مثالی اسمبلی بھی معرض وجود میں آ سکتی ھے ۔۔
جس میں بیٹھ کر کم از کم انسانوں کی عزت اور پالیمنٹ کے تقدس کا خیال رکھا
جائے ۔ نہ کہ ایسا محسوس ھو کہ ۔۔ انسانوں کی بھیڑ سے نکل کر یہ کہاں آگئے
ہم ۔۔۔۔
مبین خان ، یو۔اے۔ای ۔۔۔۔ ابو ظببی ۔۔۔ |