حوثیوں کی بغاوت کرنے کے بعد سے یمن کی کشیدگی میں دن بدن
اضافہ ہورہا ہے، جبکہ گزشتہ دو ہفتوں سے سعودی فوج حوثی بغاوت پر قابو پانے
کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ یمن کے معاملے میں سعودی عرب نے
دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی تعاون کی اپیل کی تھی، جس کو
پاکستان نے قبول کرتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کیا تھا۔
لہٰذا اب تک پاکستان سعودی عرب کے معاملے میں ثالث کا کردار ادا کرتا آیا
ہے۔ اسی لیے یمن کے معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے پاکستانی وزیر
اعظم ترکی کا دورہ بھی کرچکے ہیں، جہاں پاکستان اور ترکی کی قیادت نے اس
بات پر اتفاق کیا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے پورا خطہ متاثر ہورہا ہے،
تاہم فریقین کو مسائل کا بات چیت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل نکالنا چاہیے،
جب کہ دونوں ممالک سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کا مل کر دفاع کریں گی۔
ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں میاں نوازشریف کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال
عالم اسلام کے لیے پریشان کن ہے، یمن میں قانونی حکومت کے خاتمے کی کوشش پر
تشویش ہے۔ یمن کے مسئلے کا پرامن حل چاہتے ہیں اور عالمی مسائل پر ترکی اور
پاکستان کی مشترکہ حکمت عملی ضروری ہے۔ جبکہ ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد
اوغلو نے کہا کہ دونوں ممالک خطے کی صورتحال پر مشترکہ موقف رکھتے ہیں اور
یمن میں تعمیر نو کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ترکی اور پاکستان مشرق
وسطیٰ کے امن کے لیے متحد ہیں۔ احمد داؤد اوغلو کا کہنا تھا کہ یمن کی
صورتحال پر ہمیں تشویش ہے، تاہم اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات اولین ترجیح
ہونے چاہیئں، جب کہ اس حوالے سے سعودی عرب اور ایران سے بھی رابطے میں ہیں۔
ذرائع کے مطابق ترک صدر کے دورہ ایران سے پہلے سعودی عرب کے نائب ولی عہد
نے ترک صدر سے ملاقات کی ، جس کے بعد ترک صدر نے ایرانی صدر سے ملاقات میں
یمن میں جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے، اس مسئلے کا سیاسی حل نکالنے پر زور
دیا ہے اور تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی اور ترکی کے صدر رجب طیب
اردوان نے یمن کی صورت حال پر غور و فکر کیا۔ اس موقع پر ایران اور ترکی
یمن میں جاری جنگ روکنے اور اس صورت حال کا سیاسی حل نکالنے پر متفق ہو گئے
ہیں۔ دونوں رہنماﺅں نے یمن میں مکمل طور پر سیز فائر کرنے اور مذاکرات شروع
کرنے پر اتفاق کیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نائب سعودی والی عہد کا ترک
صدر سے ملاقات کرنا اور ترک اور ایران صدود کا یمن کے پرامن حل پر اتفاق
کرنا پاکستانی کوششوں کا نتیجہ ہے۔واضح رہے کہ یمن کے معاملے کو پرامن طور
پر حل کرنے کے لیے بدھ کے روز ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان بھی
پاکستانی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
پاکستان میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ یمن کے معاملے میں پاکستان کو سعودی
عرب کے ساتھ کس حد تک حمایت کرنی چاہیے؟پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ مل کر
یمن میں فوجی کارروائی کرنی چاہیے یا صرف اپنی حمایت کا دائرہ کار سعودی
عرب کے تحفظ تک محدود رکھنا چاہیے؟ اس حوالے سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل
راحیل شریف کا کہنا ہے کہ سعودی عرب فوج بھیجنے یا نہ بھیجنے کے معا ملے پر
حتمی فیصلہ حکومت کرے گی اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پرکوئی فیصلہ لینا
حکومت کا کام ہے ، اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بحث جاری ہے
، سعودی عرب کی مدد و حمایت کا فیصلہ سول قیادت کرے گی۔ جبکہ سعودی عرب کی
جانب سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے کے لیے پاکستان
سے تعاون کی درخواست کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اسے ”قومی اہمیت کا
معاملہ“ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا، جو تین روز جاری
رہنے کے بعد گزشتہ روز آج شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ مشترکہ اجلاس میں
وزیراعظم نواز شریف واضح کیا کہ یمن کے مسئلے پر حکومت کو کوئی خفیہ فیصلہ
نہیں کرنا تھا، پارلیمنٹ کا اجلاس تجاویز کے لیے طلب کیا گیا ہے جن کی مدد
سے پالیسی ترتیب دی جائے گی۔ حکومت کو یمن کے مسئلے پر پارلیمنٹ کی رہنمائی
چاہیے۔ پیر کے روز ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما
اعتزاز احسن نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ یمن کے مسئلے پر گول مول باتیں
کرنے کی بجائے واضح بات کرے اور ایوان کو اعتماد میں لے۔ ان کا کہنا تھا کہ
حکومت واضح طور پر نہیں بتا رہی کہ سعودی عرب نے کس قسم کی مدد مانگی ہے
اور حکومت نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ پارلیمنٹ یہاں حکومت کو مینڈیٹ دینے کے لیے
بیٹھی ہے، لیکن حکومت یمن کے مسئلے پر گول مول باتیں کر رہی ہے۔ اعتزاز
احسن کا کہنا تھا کہ یمن کا مسئلہ شیعہ سنی جنگ نہیں، بلکہ بادشاہت کا
تنازع ہے۔ جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پاکستان
تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے بھی اعتزاز احسن کی رائے سے اتفاق
کیا اور حکومت کو بطور ثالث اپنا کردار کرنے کا مشورہ دیا۔ جمعیت علمائے
اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سعودی عرب ہمارا برادر ملک
ہے، لیکن حکومت کو یمن جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ
سعودی عرب کو اس بحران سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ جبکہ تحریک انصاف
کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت اس بحران سے نکلنے میں
سعودی عرب کی مدد کرے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان او آئی سی کا اہم
رکن ہے، کیا ہم نے اس فورم کو استعمال کرنے کی کوشش کی؟ پارلیمنٹ کے مشترکہ
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کہا کہ جنگ
کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ تنازعات کو حل کرنے کا بہترین طریقہ ثالثی ہے، اس
لیے پاکستان کو اس مسئلے کے لیے ثالثی کا کردار کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا
کہ یمن کا مسئلہ ایک عالمی سازش کا نتیجہ ہے۔ استعماری قوتوں نے عرب لیگ
کوٹکڑے ٹکڑے کیا، شام، عراق اور لیبیا میں قومیت کی بنیاد پرآگ بھڑکائی
گئی، آج یہ ملک دنیا میں تماشا بن گئے ہیں۔ اب یمن میں ایک اور تنازع کھڑا
ہوگیا، وہ یمن میں ہونے والی اس جنگ کو بھی گریٹ گیم کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس
جنگ میں لڑائی میں خسارہ اور جیت بھی خسارہ ہے ، اس کا فائدہ صرف اسلحہ
بیچنے والوں کو ہوگا۔اجلاس میں ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کا کہنا
تھا کہ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت بالخصوص قدرتی آفات کے موقع پر پاکستان کی
بھرپور مدد کی اور کبھی ایسا مشکل وقت آیا تو پاکستان بھی سعودی عرب کے
ساتھ ایسے ہی کھڑا رہے گا۔ اس سے قبل وزیردفاع خواجہ آصف نے پیر کے روز
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کہا کہ عوام کی منتخب حکومت سعودی عرب میں
فوج بھیجنے کا فیصلہ عوامی امنگوں کے مطابق کرے گی۔ سعودی عرب کی سلامتی کو
خطرے کی صورت میں سخت ردعمل دیں گے۔ سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کے تحفظ
کا وعدہ ہر صورت میں پورا کریں گے۔ سعودی عرب ہمارا برادر ملک ہے، اس کی
سرحدوں کی خلاف ورزی کی گئی تو ہم چپ نہیں بیٹھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ
یمن کی صورتحال پر پاکستان اور ترکی کا موقف ایک ہے، ہم یمن میں آئینی
حکومت دیکھنا چاہتے ہیں۔خواجہ آصف نے تصدیق کی ہے کہ سعودی حکومت نے یمن
جنگ میں بری، بحری اور فضائی تعاون ملنے کی امید کا اظہار کیا ہے عوامی
نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کہا کہ سعودی
عرب نے ہمیشہ ہماری مالی مدد کی، جس پر ہم ان کے مشکور ہیں، ہمیں اس معاملے
میں مصلحت کی جانب جانا چاہیے۔ جبکہ مسلم لیگ (ق) کے مشاہد حسین سید نے کہا
کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی سب سے پہلے مددکی تھی،
یمن میں ہونے والی جنگ سے سعودی زمین کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پاکستان کو جنگ
بندی، یمن میں امن کے قیام کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ
پاکستان یا ترکی کو سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کروا کر
ان کے تنازعات ختم کروانے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اب تک کی کارروائی سے جو نکات سامنے آئے ہیں،
وہ یہ ہے کہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت پر کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔
اس کے تحفظ کے لیے پاکستان تمام آپشنز پر عمل کرسکتا ہے۔ اسلام آباد کو
ترکی جیسے ممالک کے ساتھ مل کر بھرپور طریقے سے مصالحتی کردار ادا کرنا
چاہیے۔ پاکستان یمن تنازع میں نہ الجھے اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے
اپنے اعلیٰ قومی مفادات کو مدنظر رکھے۔ جبکہ وزیراعظم نے اجلاس میں یہ کہا
کہ وزیر دفاع پالیسی بیان میں جو کہہ چکے ہیں، اس میں کوئی اضافہ مناسب
نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر دفاع کا بیان غور کردہ سرکاری پالیسی کا
عکاس تھا۔ وزیراعظم نے یہ کہہ کر کہ حکومت نے کچھ نہیں چھپایا سب کچھ
پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دیا ہے، جس سے اس بات کی بھی وضاحت ہوگئی کہ یمن
معاملے پر حکومت کی کوئی خفیہ پالیسی نہیں ہے۔ پاکستان کے ثالثی کے معاملے
میں میاں نوازشریف نے واضح کیا ہے کہ وہ ترک صدر کے ساتھ مل کر ثالثی کا
کردار ادا کر رہے ہیں، اس حوالے سے ان کے ساتھ ملاقات بھی ہوچکی ہے اور ترک
صدر کی ایرانی صدر سے ملاقات بھی ہوچکی ہے اور ایرانی وزیرخارجہ کی پاکستان
آمد بھی اسی تناظر میں ہے۔ اس تمام پس منظر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان
ترکی کے ساتھ مل کر بھرپور ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ ذرائع کے
مطابق پاکستانی حکام نے پہلے ہی سعودی عرب کو مطلع کردیا تھا کہ پاکستان
حرمین شریفین اور سعودی عرب کے تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہے، لیکن
یمن میں پاکستان کی مداخلت کے خلاف ہے، کیونکہ پاکستانی حکام کا موقف تھا
کہ یمن میں پاکستان کی جانب سے جارحانہ کارروائی سے نہ صرف دیگر پیچیدگیاں
جنم لیں گی، بلکہ پاکستان کی ایک ثالث کے طور پر کردار ادا کرنے کی صلاحیت
بھی متاثر ہوگی اور پاکستان اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا خواہاں
ہے۔ جبکہ اسی موقف کا ذکر پارلیمنٹ میں بھی حکومتی ارکان کی جانب سے کیا
گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یمن کی صورتحال سے پاکستان کو ایک ایسا موقع
میسر آیا ہے جس کی بنا پر وہ اسلامی دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ میں ایک بڑا
اور باعزت مقام حاصل کرسکتاہے۔ پاکستان اپنی عسکری قوت کی بنا پر اسلامی
دنیا کی قیادت کرنے والے ممالک کی پہلی صف میں بھی جگہ حاصل کرسکتا ہے۔ وہ
اپنے ممکنہ باعزت مقام کی وجہ سے اقتصادی اور معاشی فوائد حاصل کرنے کی
پوزیشن میں بھی ہوگا۔ اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان یمن بحران کو
ایک ثالث کے طور پر حل کرنا چاہتا ہے اور وزیراعظم کا ترکی کا دورہ اور
ایرانی وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان اسی تناظر میں ہے۔ جبکہ پاکستانی کوششوں
سے ترکی بھی یمن بحران کے حل کے لیے سرگرم ہوگیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق
ایرانی وزیر خارجہ کا مثبت حل کے لیے پاکستان کا دورہ کرنا، ترکی صدر کا
ایران کے دورہ میں سفارتی کامیابی حاصل کرنا اور اس کے نتیجے میں جنگ بندی
کی بازگشت سنائی دینا نہ صرف پاکستان کی کوششوں کا نتیجہ ہے، بلکہ عالمی
سطح پر پاکستان کی سیاسی فتح بھی ہے۔
|