اتحاد ، اتفاق اور یکجہتی کاعالگیر اُصول
خیرت انگیز طورپر کایئنات کے ایک ایک ذرے میں کارفرما ہے۔انسان ہو یا حیوان
، پانی کا معمولی سا قطرہ ہو یا ریت کا حقیر سا ذرہ، کایئنات کا ہر شے
اتحاد، اتفاق اور یکجہتی کی اہمیت کا گواہی دیں رہا ہے۔ یہ ایک مُسلمہ
حقیقت ہے کہ دنیا میں جن اقوام نے اتحاد ، اتفاق اور یکجہتی کا فلسفہ
اپنایا انہوں نے ترقی بھی پائی اور جن اقوام نے اس فلسفہ سے روح گردانی کی،
وہ ذلیل و رسوا ہوئے ہیں۔
محمد جاوید اقبال صدیقی فرماتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے اگر
مسجدوں، درگاہوں، خانقاہوں اور صوفیوں کا ملک کہا جائے تو شائد غلط نہ
ہوگا۔ملک کا کوئی گوشہ، کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں عبادت گاہوں کا وجود نہ
ہو۔یہ وہ ملک ہے جہاں بھانت بھانت کے لوگ صدیوں سے رہتے اور بستے آرہے ہیں۔
یہ طرح طرح کی بولیاں بولتے ہیں۔ طرح طرح کے مذہب ، تہذیب وتمدن سے تعلق
رکھتے ہیں مگر ایک دوسرے کا اخترام ، محبت اور بھائی چارہ ان کی پہچان
تھا۔۔۔
آج کل ہمارے پیارے ملک کو بہت سے مسائل درپیش ہیں اور واضح ہے کہ یہ مسائل
ابھی سے نہیں بلکہ پاکستان کی آزادی سے شروع ہوئے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے
کہ 67 سال بعدبھی یہ مسائل حل نہ ہوئے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عوام اور
ہمارے سیاستدانان صاحبان ابھی تک اپنی ذات اور اپنے مفادات سے باہر نکلنا
نہیں چاہتے۔اپنی جیت، کرسی اور پارٹی کے لئے ایک ہوسکتے ہیں لیکن جب بات
پاکستان پر آجاتی ہے تو مُلا کی دوڑ مسجد تک کے فلسفہ پر عمل پیرا ہوجاتے
ہیں۔ٹھیک اسی طرح ہمارا بھی یہی حال ہیں۔ہم عوام بھی ابھی تک ایک نہ ہو
سکے۔جب بات پٹھان بھائیوں کی ہوتی ہے تو لوگ یہ نہیں کہتے کہ پاکستانی ہیں
بلکہ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان تحریک انصاف والے ہیں۔پنجابی بھائیوں کو
پاکستان مُسلیم لیگ (ن)سے یاد کئے جاتے ہیں۔سندھی کو ایم کیو ایم اور پی پی
پی جبکہ بلوچیوں کا سن کر ذہن میں ایک یتیم بچے کا خیال آجاتا ہے۔قوم مذہب
سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں کا تو کوئی ذکر نہیں کرتا اور ہم صرف اور
صرف پاکستانی ہیں کے قول پر بھی کوئی عمل پیرا نہیں ۔۔۔۔
پاکستان کے دشمن اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر پاکستانی عوام ایک ہوگئے تو
وہ کسی بھی دشمن کو آسانی سے شکست دے سکتے ہیں۔اس لئے ہر ملک یہی چاہتا ہے
کہ اس عوام کو کسی نہ کسی طریقے سے ایک دوسرے سے دور رکھے ۔وہ ایسا کرنے
کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس مقصد
میں کامیاب ہوجائے کیونکہ ہم خود ایک دوسروں سے اتنے دور گئے ہیں کہ اب کسی
بیرونی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں۔۔ہمیں کیوں یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ چار
مخالف مذہب کے ممالک بھارت، اسرائیل، روس اور امریکہ ہمارے وطن کو توڑنے
کیلئے ایک ہوگئے ہیں تو کیا ہم مہاجر، سندھی، بلوچی، پٹھان اور بنجابی اپنے
وطن کی حفاظت اور بقا کیلئے ایک نہیں ہو سکتے ؟جبکہ ہمارا مذہب ایک، اﷲ
ایک، قران پاک ایک اور قبلہ بھی ایک ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سب
چیزوں کے باوجود ہم آج تک ایک نہ ہوسکے۔جس ملک کو آزاد کرنے کیلئے ہمارے
بُزرگوں نے اپنے تن، من ، دھن کی قربانیاں دی ہیں اُسی ملک کو ہم بعض وعناد
اوراختلاف و انتشارسے کھونا چاہتے ہیں۔کیا قائد اعظم محمد علی جناح
ایساپاکستان چاہتے تھے؟ کیا شاعر مشرق علامہ محمداقبال اسطرح کے عوام کو
شاہین کہنا پسند کرتے تھے؟اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم آج تک ایک نہ
ہوئے؟؟کیا ہم نے سقوط ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا؟؟
ہمیں آج ہی اپنے اعمالوں کا رونا رونا ہوگا، اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا
ہوگا۔اپنے اندر کے اختلافات کو دورکرنا ہوگا۔اپنے ملک کو اپنی ذات اور
مفادات پر ترجیح دینا ہوگا۔پھر ہمارے سارے مسائل جو 67 سال سے ابھی تک حل
نہ ہوئے، کیسے حل نہیں ہو سکتے ۔سب کچھ ٹھیک ہو سکتے ہیں اگر ہم ان باتوں
پر خود عمل کرکے دوسروں کو بھی اس پر چلنے کی تلقین دیں۔پھر ہم سچ میں
اقبال کا پاکستان پا سکتے ہیں جہاں اسلام کا قانون ہوگا، امن وامان ہوگا،
روزگار ہوگا اور جان ومال کی خفاظت ہوگی۔اﷲ تعالی! ہمارے دلوں کے بعض وعناد
اور اختلاف وانتشار دور کر کے ہم سے وہ کام لیں جس میں اسلام اور پاکستان
کا فائدہ ہو۔۔۔
|