کر پٹ حکمران اور سو ئے ہو ئے ضمیر

جب سے ہو ش سنبھاا لا ہے یہی صدا میرے کا نوں میں گو نجتی ہے کہ ہما رے حکمران کر پٹ ہیں حکمران ملک کو لوٹ کر کھا گئے وغیرہ وغیرہ مجھے اس بات سے ہر گز اختلا ف نہیں مگر کر پشن کسے کہتے ہیں اس سوال کے جو اب کی تلا ش میں ہوں کرپشن کی کو ئی حد بندی نہیں کی گئی کہ اتنے پیسوں سے کی ہو ئی تو کر پشن وگر نہ نا ہو گی ایک سوال جو ہمیشہ سے میرے اندر کے انسان کو گد گدا رہا ہے کہ اگر میں کچھ غلط کروں تو وہ کرپشن نہیں مگر اگر کو ئی منسٹر کرے تو اسکا شما ر کر پشن میں ہو گا کر پشن کی یہ تعر یف تو دل کو شا د کر رہی ہے اس طرح ہم ہر الزام با آ سانی نظام پر ڈال کر خود صاف وشفا ف بن جا تے ہیں اور حکمرا نوں کو برا بھلا کہنے سے نہ صرف ہما رے دل کا بو جھ ہلکا ہوجا تا ہے بلکہ ز ما نے سے ا دا سی بھی کم ہو جا تی ہے ہم یہ سفر پچھلے سڑ سٹھ برس سے طے کر رہے ہیں مگر ابھی تک یہ بھید ہم پر نہ کھل سکا کہ اصل معنوں میں کر پٹ ہے کو ن عوام یا حکمران ۔کہتے ہیں کے ایک آ دمی کے بہت سے رو پ ہو تے ہیں جو وقت بو قت بد لتے رہتے ہیں مگر افسو س ہما رے ہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے یہ روپ وقت کے سا تھ نہیں بلکے اپنی حو س کے سا تھ بد لتے رہتے ہیں اگر کو ئی کا م میرے لیے منا فع بخش ہے تو میں کسی نہ کسی طر ح کو ئی من گھڑت دلا ئل پیش کر کے اسے جا ئزقرار دے ہی دوں گا بلکل اسی طرح ہم کر پشن کی تعر یف کو اسی ترا زو پر تو لتے ہیں ۔

دو سروں پر تنقید کر نا دنیا کا سب سے سہل کام ہے اس لیے تو ہما ری ہر مجلس میں یہ فعل عا م ہے بس دوسروں پر تنقید کے خو ب تیر بر سا ؤاور جب دل کا بو جھ ہلکا محسو س کر نے لگو تو ایک گلا س ٹھنڈے پا نی کا نو ش فرما لو مگر خود پر تنقید کر نے کے لیے جواں ہمتی درکا ر ہے یہ ہمت کر نا ہر کسی کے شیان شان نہیں اس کے بر عکس اگر ہم حکمت عملی سے کام لیں اور تنقید کا سہا را چھو ڑ دیں تو شا ید خا طر خواہ نتا ئج حا صل کر سکیں ہمارے اندر دو چیزو ں کی اشد کمی پا ئی جا تی ہے وہ ہیں صبر و شکر جو مل گیا اس پر شا کر اور جو حا صل کر نا ہے اس پر صبر جب قو میں اس نعمت سے محروم رہ جا ئیں تو خدا ئی بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہے ایک اور با ت جو ہم میں بہت عام ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا ملبہ قسمت پر ڈال کرخود برّی زماں ہو جا تے ہیں جب کے قسمت کے کچھ پہلوں کے تر تیب کار ہم خو د ہو تے ہیں۔دوبا رہ ز یربحث عنوان کی طرف آ تے ہیں کسی کی حق تلفی کر نا ,اپنے تھوڑے سے مفاد کے لیے دوسروں کو نقصان پہچانا یا اپنے فرائض میں کوتاہی برتنا کیا یہ سب کر پشن نہیں مجھے سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چا ہیے کہ کہیں میں بھی تو کر پٹ نہیں اگر جواب نفی میں ہو اور خود کو کر پٹ نہ پا ؤں تو شو ق سے حکمرانوں کو کر پٹ پکا ر سکتا ہوں لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر اپنی کر پشن سے نجا ت حا صل کر نا میری اولین تر جیح ہو نی چا ہیے میرے قر یبی دوست جنکا کر پشن کیخلاف عمدہ پر چار ہو تا ہے اورمیں انکی ہر با ت سے آما دہ ہوں نیز انکی اسی ادا نے انہیں میرے دل کے بہت قر یب رکھا تھاگزری ہو ئی گر میوں میں جب پا کستان گیا تو ان سے ملا قا ت کا شر ف حا صل ہوا لیکن دلی طور پر بہت مایوس بھی ہوا کیو نکہ ان کے مہما ن خانے میں ائیر کنڈیشن نسب ہے جو بلا تا خیر لگا رہتا تھابجلی آ نکھ مچو لی کھیلتی رہتی مگر کمرا ہر وقت ٹھنڈا ہی رہتا تھامیں نے مزا حتا ان صا حب سے پو چھا کے اتنی مہنگی بجلی کے باوجود ان ٹھنڈی ہوا ؤ ں سے لطف اندوز ہو نا کچھ حیران کن با ت ہے کہیں حکو مت نے بجلی کا محکمہ آ پ کے حوالے تو نہیں کر دیا صاحب مسکرا تے ہو ئے بو لے نہیں اپنی ایسی قسمت کہاں بس میٹر ریڈر کو ہر ماہ چندہ دیتا ہوں اس لیے بل قا بل بر دا شت ہے یہ اسی انسان کادوسرا روپ تھاجو میرے لیے انتہا ئی حیرا کن اور تکلیف دہ تھاکیو نکہ میں اس دو ست کا شما ر ان چند دو ستوں میں کر تا تھا جن کی عزت میں وا قعی دل کی گہرائیوں سے کر تا ہوں لیکن ایسے کئی ضمیر فروش لوگ ہیں جو ایسی ہی کر پشن کے مر تکب ہیں جن کی بد ولت کتنے ہی لو گ متا ثر ہو تے ہیں کتنے ہی معصوم بچے رات بھر پر سکو ن نیند سے محروم رہتے ہیں مگر جب بجلی گم ہو تی ہے تو سب سے پہلے انہی لو گو ں کی آ واز محکموں اور حکو مت کو کو سنے کے لیے بلند ہو تی ہے بڑے بز رگ کہتے ہیں کہ جب کو ئی غلط کام کر تا ہے تو اس کے دل پر ایک بو جھ بن جا تا ہے جو اسے ملا مت کر تا ر ہتا ہے مگر نا جا نے وہ آواز ہما رے اندر ہی کیوں دب کر رہ گئی ہے کر پشن تو کر پشن ہی ہے چا ہے وہ چند رو پوں کی ہویااربوں کی کر نے وا لا عام آ دمی ہو یا پھر کو ئی منسٹر کر پٹ ہی کہلا ئے گادونوں کا گنا ہ ہم وز ن ہے اس لیے تو ہما رے اوپر ایسے حکمران مسلط کر دیے گئے ہیں کیو نکہ جیسی رعا یا ہو تی ہے ویسے ہی حکمران ہو تے ہیں لہذا حکمرانوں کی تبدیلی کے لیے پہلے ہمیں اپنا موازنہ کر نا ہو گا اپنے طرز عمل اور سو چ کا دا ئرہ کار تبد یل کر نا ہو گا ۔

کر پشن کے اس دور میں ہم کسی سے پیچھے نہیں بلکہ دنیا کے تما م مما لک کو ما ت دیتے آ ئے ہیں ایک سو پچھتر ممالک میں کر پشن کے لحا ظ سے ہم ایک سو چھبیس ویں نمبر پر تھے اور 1995-96 میں تو ہمیں دنیا کا دوسرا کر پٹ تر ین ملک سمجھا جا رہا تھا مگر حا لیہ دنوں میں کر پشن سے متعلق بین الاقوامی ادارہ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے تجزیے کے مطا بق پا کستان میں کر پشن میں خاطر خواہ کمی آ ئی ہے اور پا کستان ایک سو چھبیسویں نمبر سے پچا سویں نمبر پر آ گیا ہے جو پچھلے بیس برس کی سب سے کم تر ین سطح ہے یہ ہما رے لیے کسی خو ش خبری سے کم نہیں مگر اب بھی ہم کر پشن کے میدان میں کا فی آ گے ہیں لیکن افسوس نا ک اور شر منا ک بات یہ ہے کہ جو محکمے کر پشن کی روک تھا م کے لیے بنا ئے گئے ہیں وہ کر پشن کے میدان میں سب پر سبقت لے گئے ہیں ایسے محکموں سے ہم کیا تو قعا ت وا بستہ کر یں گے اس لییہمیں اداروں یا حکمرانوں سے پہلے خود کا احتسا ب کر نا چا ہیے اگر ہم خو د کو اس لعنت سے دور کر لیں تو وہ دن دور نہیں جب اﷲ تعا لیٰ ہما رے لیے ایسے حکمرا نوں کا انتخا ب کریں گے جو اعلیٰ صفا ت کے نمو نے ہوں گے انشا اﷲ
Sajid Hussain Shah
About the Author: Sajid Hussain Shah Read More Articles by Sajid Hussain Shah: 60 Articles with 45144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.