میرے چھوٹے بھائی کاشف نے ایک
سوال پوچھا کہ ’’یمن میں جنگ کیوں ہورہی ہے اور اس جنگ سے پاکستان کیا تعلق
ہے‘‘۔ کاشف کے لئے یہ سوال ایسا تھا جو نا جانے وہ کب سے پوچھنا چاہا رہا
تھا۔ کاشف سمیت پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے خطے کے امن
کو سپوتاژ کرتی یمن کی بغاوت پر گہری تشویش ہے۔
یمن میں حالیہ کشیدگی کا تعلق چند دو چار ماہ کی بات نہیں بلکہ اگر ان کی
تاریخ کو کھنگالا جائے تو اس ان حالات کے پیچھے ایک طویل تاریخ رقم ہے۔ ایک
ایسی تاریخ کہ جس نے معدنیات سے مالا مال اس ملک کو غیر مستحکم کرنے میں
اپنا فعال کردار ادا کیا ہے۔ ملکی سطح پر کئی دہائیوں سے یہ ملک کسی نہ کسی
بغاوت سے نبرد آزما رہا ہے۔ مسلم دنیا کی سطح پرمذہب اور مسلکی بنیادوں پر
سختی برتنے والے افراد نے بھی یمن کی سر زمین کو اپنی محفوظ اور مستقل پناہ
کے طور پر استعمال میں رکھا ہے۔ جس میں القاعدہ، الحوثی اور داعش (آئی ایس
آئی ایس ) قابل زکر ہیں۔ چونکہ یمن کی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے اس وجہ سے
سعودیہ سے نکالے گئے القاعدہ رہنماؤں کے لئے یمن ایک مظبوط پناہ گاہ کے طور
پر ثابت ہوئی ہے۔
خطہ عرب کا دوسرا بڑا ملک یمن 527970 مربع کلو میٹر رقبہ رکھتا ہے اور 200
کلو میٹر طویل ساحل کا حامل ہے۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں‘ شمال میں سعودی
عرب، مغرب میں ریڈسی، جنوب میں خلیج عدن اور بحیرہ عرب اور مشرق میں سلطنت
اوسان واقع ہیں۔ یمن کی حدود میں 200 کے قریب جزائر بھی ہیں۔ یمن کو عرب کے
ان ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جہاں معدنیات پائی جاتی ہیں، 1980ء میں یمن
میں تیل کی دریافت ہوئی۔یمن میں حوثی اپنے آپ کو وہ انصاراﷲ اور زیدی بھی
کہتے رہے ہیں۔ 1962ء تک شمالی یمن میں ایک تہائی اکثریت رکھتے تھے اور 740
عیسوی میں اس وقت کی سنی خلافت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا تھا۔
حوثی فرقے نے اپنے آپ کو حوثی کہلوانا اپنے لیڈر حسین بدرالدین الحوثی سے
نسبت کے بعد شروع کیا جس نے اپنی کارروائیاں 2004ء میں منظم طریقے سے شروع
کیں۔ 2004ء کے آخر میں حسین بدرالدین حوثی کے یمنی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے
بعد اس کے دیگر پانچ بھائیوں نے جماعت کی کمان سنبھالی۔ 2011ء میں حوثیوں
نے اس وقت کے صدر صالح کے خلاف احتجاج شروع کیا اور سعد اور امران کا
کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لینے میں کامیاب ہوگئے۔ 2011ء کے اوائل میں صدر
عبداﷲ کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اور اس میں حوثی قبائل کی
طاقت بھی موجود تھی۔ زیدی شیعہ کا تناسب یمن کی آبادی میں 35 فیصد کے لگ
بھگ ہے۔ حسین بدرالدین الحوثی کے خلاف الزام تھا کہ اس نے حکومت کے خلاف
بغاوت کو ہوا دی اور مظاہرے بھی کروائے ہیں۔
اس وقت بڑی لڑائی حوثی باغیوں اور صدر منصور ہادی کے حامیوں کے درمیان
ہورہی ہے۔حوثی دارالحکومت سناسمیت ملک کے بہت سے شہروں پر قابض ہیں اور
انہوں نے متوازی نظام قائم کر رکھا ہے۔ سعودی عرب مشرق وسطیٰ کا اہم ترین
ملک ہونے کے ساتھ بین الاقوامی دنیا کا ایک سرگرم رکن ہے۔ آج کے دور میں
کوئی ملک اپنے اردگرد کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اس سے قبل بحرین کی
حکومت کمزور پڑی تو سعودی حکومت فوراً مدد کرنے پہنچی، راتوں رات سینکڑوں
سعودی فوجی گاڑیاں ٹینکوں کے ساتھ بحرین کی حکومت کی مدد کو موجود تھیں۔
یمن میں موجودہ صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو جنوری 2015ء میں حوثیوں نے
نئے آئین کو ماننے سے انکار کیا اور سرکاری ٹی وی پر قبضہ کرلیا جس کے بعد
صدر ہادی مستعفی ہوگئے مگر بعد میں اپنا استعفیٰ واپس لے لیا۔ فروری 2015ء
میں حوثیوں نے کہا کہ وہ اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں اور پانچ رکنی
کمیٹی صدر ہادی کی جگہ لے گی جس کے بعد صدر ہادی کو ان کے گھر میں قید
کردیا گیا۔ جہاں سے وہ کچھ عرصے بعد فرار ہوکر عدن پہنچ گئے۔
سابق صدر علی عبداﷲ صالح کے حامی شیعہ باغیوں نے ملک کے تیسرے بڑے شہر تعز
کے مختلف حصوں پر قبضہ کیا۔ تعزدارالحکومت صنعا اور جنوبی شہر عدن کے
درمیان واقع ہے۔تعز کے ہوائی اڈے سمیت شہر کے مختلف علاقے حوثی باغیوں کے
کنٹرول میں ہیں۔ یمن میں موجود متحارب باغی گروہوں جن میں حوثی، القاعدہ
اور دولت اسلامیہ کا تشدد دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ تعزپر قبضہ شیعہ باغی
گروہ حوثی قبائل کی جانب سے موجودہ صدر عبدالربوہ منصور ہادی کی حامی فوج
کے خلاف اعلانِ جنگ کے بعد ہوا ہے۔
سعودی عرب نے پاکستان سمیت دیگر ممالک سے یمن میں ایک سر چڑھ کر بولنے والی
ایک بغاوت کو روکنے کے لئے مدد طلب کی ہے۔ حوثی نامی شیعہ باغیوں کی جانب
سے یہ جنگ روز با روز زور پکڑ رہی ہے۔ جنگ سے خطے میں ایک عجیب قسم کی بے
چینی پھیلی ہوئی ہے۔ باغیوں کو غیر اعلانیہ مدد ایران کی جانب سے دی جارہی
ہے تاہم باغیوں نے سعودیہ کو بھی ممکنہ حملوں سے باخبر کیا ہوا ہے۔
سعودی عرب کے مددکے حوالے سے پاکستان کے اعلیٰ سیاسی و عسکری حکام پر مشتمل
ایک وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں یمن میں سعودی عرب کے عسکری آپریشن
اور مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی صورتحال پر سعودی حکام تبادلہ خیال کیا
گیا جبکہ گزشتہ روز پاکستانی پارلیمنٹ میں سعودی عرب کو معاونت سے متعلق
ایک مشترکہ اجلاس بھی بلایا گیا۔
اس یقین دہانی نے یمن میں مقیم پاکستانیوں کے لئے بھی کچھ مشکلات پیدا
کردیں ہیں۔صنعا کی جیل میں قید کراچی کے رہائشی محمد صدیق نے بی بی سی کو
بتایا کہ جب بھی فوجی طیاروں کی بمباری ہوتی ہے یمنی باشندے بیرکوں میں گھس
کر پاکستانی قیدیوں پر تشدد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ تشدد کی وجہ یہ بتائی
جاتی ہے کہ پاکستان اس جنگ میں سعودی عرب کی کیوں حمایت کر رہا ہے۔
یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان جھڑپیں پس پردہ جیسے سعودی عرب اور
ایران کی جنگ کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ بلا شعبہ حرمین شریفین پوری دنیا کی
مسلمہ امۃ کے لئے اپناالگ مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے حوثی باغیوں
کی حرمین کی جانب اٹھنے والی نظریں پوری امت اسلامیہ کے ناقابل برداشت ہوں
گی۔ ضرورت جنگ کو بھڑکا کر خطے کا امن خراب کرنے کی نہیں بلکہ افہام و
تفہیم کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی ہے۔ عرب لیگ سمیت دنیا کی کوئی
معاشی و عسکری طاقت کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ خطے کے دیگر پرامن
ممالک کو نظر انداز کر کے جنگ بھڑکائے۔
ایک تشویشناک پہلو یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ یمن کی اندرونی صورتحال کو
پاکستان میں ضرورت سے زیادہ لیا جارہا ہے۔ بجائے خطے کے امن کے لئے دعا گو
ہونے کے ہم آپس میں مسلکی بنیادوں کو ہوا دینے لگ گئے ۔ جس کا نتیجہ یہ
نکلے گا یہ یمن میں تو بہت جلد جنگ بندی ہوجائے گی تاہم پاکستان میں خدا
ناخواستہ ایک نیا باب کھل جائے گا جسے کا سہارا لے کر ملک دشمن عناصر اپنے
مقاصد پورا کریں گے۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ملک میں کسی انتشار کو
روکنے کی ضرورت ہے نہ کہ حصہ بننے کی۔
|