موجودہ حکومت نے اقتدار
سنبھالتے ہی گردشی قرضوں کی ادائیگی کا فیصلہ کیا تو جہاں اس فیصلے کی
عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی وہیں ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس فیصلے کو
خوش آئند قرار دیتے ہوئے حکومتی اقدام کو سراہا ۔ یقینا یہ فیصلہ اسحاق ڈار
کے بہترین فیصلوں میں سے ایک تھا کیونکہ اس وقت ایسا قدم اٹھانا بہت ضروری
ہوچکا تھا ۔ حکومت نے اس وقت تو گردشی قرضوں کی ادائیگی کرکے ’’شاباشی‘‘
حاصل کرلی تاہم اس کے بعد یہی گردشی قرضے بڑھتے بڑھتے آج دوبارہ اسی نہج پر
آن پہنچے ہیں جہاں دو سال قبل تھے ۔ گو کہ اس وقت حکومت اپنے دور اقتدار کے
پہلے دو سال مکمل کرچکی ہے تاہم گردشی قرضوں کا معاملہ جوں کا توں ہی ہے ۔
گردشی قرضوں کے متعلق نہ پچھلی حکومتوں میں کوئی واضح پالیسی مرتب کی گئی
تھی اور نہ اب ایسا کیا جاسکا ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گردشی قرضے ایک
پھر حکومت کے لئے درد سر ثابت ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں پاور جنریشن
کمپنیوں کو فیول کی سپلائی میں تعطل کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ میں بتدریج اضافہ
ہوتا چلا جارہا ہے ۔ ایسے وقت میں حکومت پچھلے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے
لئے نئے قرضوں کے حصول کا ارادہ کرچکی ہے ۔ مرکزی بینک کے آکشن (Auction)کیلینڈر
کے مطابق مارچ تا مئی 2015 ء کے دوران قلیل مدتی مارکیٹ ٹریژری بلز کی
فروخت عمل میں لائے جانے کا امکان ہے ۔ ان ٹریژری بلز کی معیاد تین ماہ ،
چھ ماہ اور ایک سال ہے جبکہ ان کی فروخت سے 1.37 ٹریلین روپے کی خطیر رقم
حاصل ہوگی ۔ ذرائع کے مطابق اس خطیر رقم میں سے 1.3 ٹریلین روپے سابقہ
قرضوں کی ادائیگی میں صرف کئے جائیں گے جبکہ بقایا 75 بلین روپے حکومت اپنی
موجودہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے استعمال میں لائے گی ۔
معاشی ماہرین کے مطابق گردشی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے یہ پالیسی موثر
قرار نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس طریقہ کار سے اصل زر کے ساتھ سود شامل ہوتا
رہتا ہے جس سے قرضے کی ویلیو میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب
قرضہ دوگنا اور بعض اوقات تین گنا بھی ہوجاتا ہے ۔ مارچ تا مئی 2015 ء کے
عرصہ کے دوران معیاد مکمل کرنے والے ٹریژری بلز اور پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز
(PIBs) کے ششماہی منافع کے کوپنز (Coupons) کی ادائیگی کے لئے حکومت جہاں
مزید ٹریژری بلز کی فروخت کا فیصلہ کرچکی ہے وہیں ملک میں موجودہ بینکنگ
سسٹم سے بھی قرضہ لینے کا فیصلہ عندیہ دیا جاچکا ہے ۔ کمرشل بینکوں سے قرضے
طویل مدتی سکیم پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز (PIBs) کی فروخت کے ذریعے حاصل کئے
جائیں گے ۔
عام طور پر حکومت اپنے اخراجات کے لئے جو قرضے ملک کے اندر سے حاصل کرتی ہے
ان کو اندرونی قرضے (Domestic Debts) کہا جاتا ہے ۔ ان کی تین اقسام ہوتی
ہیں جن میں گردشی قرضے سے مراد ایسے قرضے ہیں جن کی ادائیگی حکومت کو تین
ماہ سے بارہ ماہ کے دوران کرنا ہوتی ہے ۔ دوسرے قرضے طویل مدتی ہوتے ہیں جن
کی معیاد ایک سال سے زائد لیکن دس سال سے کم ہوتی ہے ۔ قلیل مدتی قرضوں کے
لئے حکومت عام طور پر ٹریژری بلز جبکہ طویل مدتی قرضوں کے لئے پاکستان
انوسٹمنٹ بانڈز جاری کرتی ہے ۔ مندرجہ بالا دونوں قسم کے قرضے گورنمنٹ
انسٹرومنٹس/ پیپرز کے اجراء سے حاصل ہوتے ہیں یہ افراطِ زر (Inflation) پر
براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں ۔ حکومت قرضوں کی ایک اور قسم سے بھی استفادہ
حاصل کرتی ہیں جن کو ان فنڈڈ (unfunded Debts) کہا جاتا ہے یہ قرضے سیونگز
سرٹیفکیٹس اور پرائز بانڈز کی شکل میں ہوتے ہیں جو عوام (Public) سے حاصل
کئے جاتے ہیں ۔ اس قسم کے قرضے یعنی ان فنڈڈ ڈیٹس کا فائدہ یہ ہے کہ یہ
افراط زر پر منفی اثر مرتب نہیں کرتے ۔
اس وقت حکومت نے اپنے قرضوں کا زیادہ تر حصہ ملک میں قائم بینکنگ سسٹم سے
حاصل کررکھا ہے جو کہ ٹریژری بلز اور پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز (PIBs) کے
اجراء سے حاصل کیا گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ گردشی قرضوں کی ادائیگی
کے لئے جو نیا قرضہ لیا جارہا ہے اس سے موجودہ قرضہ کے حجم میں 1.4 ٹریلین
اضافہ ہوجائے گا ۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ موجودہ حکومت بینکوں سے
قرضے لے کر انرجی سیکٹر کے قرضوں کی ادائیگی کرنا چاہتی ہے تاکہ موجودہ
بجلی بحران پر جس قدر ہوسکے قابو پایا جاسکے ۔ لیکن یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے
کہ ایک قرضے کی ادائیگی کے لئے نیا قرضہ لینا معاشی طور پر موزوں نہیں
کیونکہ اگر ایسی ہی روایت جاری رہی تو آنے والے وقت میں نہ صرف بینکوں کا
گردشی قرضہ بہت بلند سطح تک پہنچ جائے گا بلکہ انرجی سیکٹر کا گردشی قرضہ
بھی بہت زیادہ ہوجائے گا ۔ ایسے حالات میں جہاں حکومتی اخراجات روز بروز
بڑھ رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے قرضے حاصل کرنے کی بجائے ٹیکس
وصولیوں میں اضافہ کیا جائے جبکہ کمرشل بینکوں کی بجائے اگر مرکزی بینک خود
ٹریژری بلز اور PIBs میں سرمایہ کاری کرے تو اس سے بھی معیشت پر دورس اثرات
مرتب ہوں گے ۔ |