بظاہریہ تاثردیاجارہاہے کہ افغان
طالبان اورافغان حکومت کے درمیان مذاکرات کیلئے پاکستان اور چین کی جانب سے
کوششوں میں تیزی آئی ہے جبکہ سعودی عرب نے بھی چین کی جانب سے کی جانے والی
کوششوں کی حمائت کی ہے۔ پاکستان اورسعودی عرب نے حقانی گروپ کے رہنماؤں
کوبھی بالآخربات چیت کیلئے آمادہ کر لیا ہے جو ماضی میں اشرف غنی کی حکومت
سے بات چیت کاسخت مخالف تھا۔ اس نئی تبدیلی کے بعدبات چیت میں کافی پیش رفت
کی توقع کی جارہی ہے۔ تاہم حقانی گروپ کی جانب سے مذاکرات پرآمادگی کے
باوجودامریکاکی جانب سے بیجنگ یاکابل میں مذاکرات کی مخالفت جاری ہے۔امریکی
حکام چاہتے ہیں کہ مذاکرات بیجنگ،اسلام آبادیا کابل کی بجائے کسی عرب ممالک
میں ہوں تاکہ امریکا مذاکرات میں اپنے زیادہ سے زیادہ مطالبات منوا سکے
جبکہ طالبان بیجنگ میں مذاکرات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور انہوں نے افغان
حکومت سے بھی کہاہے کہ اگرافغان حکومت چین کی ثالثی قبول کرلیتی ہے
توطالبان بیجنگ میں مذاکرات کیلئے تیار ہیں تاہم چین چاہتا ہے کہ مذاکرات
میں امریکابھی شامل ہوتاکہ مذاکرات کامیاب ہوں،یہ الگ بات ہے کہ امریکاچین
کی سرپرستی میں مذاکرات کاحامی نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق چین صرف اورصرف افغان مذاکرات کو کامیاب دیکھناچاہتاہے،اسے
مذاکرات کامقام بیجنگ،اسلام آباد یا کابل میں ہونے سے غرض نہیں تاہم طالبان
ذرائع کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی کیلئے انہیں عالمی سطح پر ضمانت
درکارہوگی اوریہ ضمانت صرف چین ہی دے سکتاہے کیونکہ چین ہی ایک ایسی واحد
قوت ہے جوامریکاسے اپنی بات منوا سکتاہے۔ادھرامریکاکی کوشش ہے کہ وہ قطرہی
میں مذاکرات جاری رکھے تاہم طالبان اورافغان حکومت قطر میں مذاکرات کی
کامیابی کے بارے میں پرامیدنہیں ہیں افغان صدر اشرف غنی چاہتے ہیں کہ
مذاکرات کابل کے اندرہوں اوراس میں پاکستان،چین ،امریکااورافغانستان کے
پڑوسی ممالک بھی شامل ہوں جبکہ پاکستان،قطر، بیجنگ کابل سمیت کسی بھی جگہ
ہونے والے مذاکرات کی کامیابی کیلئے اپنی کوششیں کررہاہے ۔افغان صدرکے
قریبی ذرائع کے مطابق اگر مذاکرات کابل میں ہوں،انہیں اس بات میں آسانی
ہوگی کہ وہ طالبان کے ساتھ کسی معاہدے پرپہنچ سکیں اوربوقت ضرورت سابق
افغان مجاہدین کواعتمادمیں لیناان کیلئے آسان ہوگاجبکہ کابل سے باہرمذاکرات
میں ان کیلئے مشکل یہ ہوگی کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے بعدکابل میں لوگوں
کواعتمادمیں لیں گے ۔
دوسری طرف حزبِ اسلامی اورافغان صدراشرف غنی کے درمیان خفیہ مذاکرات کی
اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور امریکانے اشرف غنی کے توسط سے حزبِ اسلامی
کوپیغام بھیجاہے کہ حزبِ اسلامی اگرطالبان کے ساتھ مذاکرات کی میزپرآتی ہے
اورطالبان اورحزبِ اسلامی افغان حکومت کے ساتھ کسی معاہدے پرپہنچ جاتے ہیں
تو حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یاراوران کے ساتھیوں کواپنے گھروں کو
آنے کی اجازت ہوگی تاہم حزبِ اسلامی کے ترجمان کا کہناہے کہ امریکاکے آخری
فوجی تک حزبِ اسلامی افغانستان کی آزادی کیلئے جدوجہدجاری رکھے گی
اورمذاکرات اور رابطے توپہلے بھی ہوتے رہے ہیں تاہم حزبِ اسلامی امریکاکی
موجودگی میں مذاکراتی عمل کے حق میں نہیں ہے،امریکاافغانستان سے نکل جائے
اورافغان عوام کواپنے مسائل حل کرنے کیلئے آزاد چھوڑدیاجائے ۔افغانستان کے
عوام اورسیاسی جماعتیں اپنے مسائل کا حل نکالنے کی استطاعت رکھتے ہیں تاہم
بیرونی مداخلت کی وجہ سے افغان مسئلہ پیچیدہ ہوگیاہے اس لیے بیرونی مداخلت
بندہوتے ہی افغانستان میں امن آ جائے گا۔حزبِ اسلامی کے ترجمان کے مطابق وہ
مذاکرات پریقین رکھتے ہیں تاہم افغانستان میں امریکی اڈوں کی موجودگی میں
مذاکرات کاکوئی معنی نہیں ہے،بندوق کے زورپرکبھی بھی افغانستان میں مذاکرات
کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
دریں اثناء افغان حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں طالبان کو تیس فیصد
حکومت میں حصہ دینے کے ساتھ ساتھ زابل،ارزگان، نمروز،ہلمند،لوگر،خوست،
پکتیا،نورستان اورکنٹر صوبوں کاکنٹرول اورگورنری بھی دینے پرغورشروع
کردیاہے تاہم طالبان کاکہناہے کہ ابھی تک باضابطہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے
اورنہ ہی اس طرح کی کوئی باضابطہ پیش کش کی گئی ہے،ذرائع کاکہناہے کہ
مذاکرات کیلئے دین محمدکی قیادت میں طالبان وفدنے چین کابھی دورۂ کیا،یہ
وفد آخری اطلاعات کے مطابق قطرمیں موجودہے اوروفدمختلف ممالک کی جانب سے
مذاکرات کے لیے کی جانی والی کوششوں کے حوالے سے مشورے کررہاہے تاہم
باضابطہ مذاکرات ابھی شروع نہیں ہوئے۔
ایک انتہائی باخبرذرائع سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ ابھی تک طالبان کی موجودہ
افغان حکومت سے مذاکرات پرکسی بھی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی اوراب تک
ہونے والے تمام کوششیں رائیگاں ہوگئی ہیں کیونکہ طالبان ابھی تک اپنے مؤقف
پرڈٹے ہوئے ہیں کہ موجودہ افغان حکومت امریکی حمائت سے معرض وجود میں آئی
ہے جبکہ امریکاکے ساتھ افغان عوام کی مرضی کے خلاف معاہدہ کرکے امریکا
کوافغانستان میں مزیدقیام کی اجازت دیکریہ ثابت کردیاہے کہ امریکااوراس کے
دیگر سامراجی اتحادی اب بری طرح شکست کھا کرانخلاء کاجوڈرامہ رچارہے تھے وہ
صرف دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے زیادہ کچھ نہیں اوراب سازشوں کے
ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں،اسی لئے امریکی اپنی
افواج کے قیام کی مدت بڑھاکرافغانستان کواپنی کالونی بناکرورلڈآرڈرکے
منصوبے پرعمل پیراہیں۔
دوسری طرف افغان طالبان کیلئے موجودہ حکومت کے ساتھ حکومت میں شرکت کرنااس
لئے بھی ممکن نہیں کہ طالبان کاامریکا اوردیگر تمام سامراجی افواج سے ایک
لمبی جنگ کرنے کا مقصد توہرگز اقتدارکاحصول نہیں،وہ تواپنے ملک میں جہاں
امریکااوراس کے اتحادیوں کوغیرملکی غاصب افواج سمجھ کران سے جہادکررہے ہیں
وہاں وہ اپنے ملک میں اسی اسلامی نظام کونافذکرکے دنیاکے سامنے ایک ماڈل
ریاست قائم کرناچاہتے ہیں جس کیلئے وہ جنگ سے پہلے تگ دوکررہے تھے۔امریکا
اوراس کے اتحادی درپردہ پاکستان سے یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ افغان طالبان
کونہ صرف موجودہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے بلکہ موجودہ افغان سیٹ
اپ میں شمولیت پر آمادہ کریں جبکہ طالبان اس گہری سازش سے بخوبی واقف ہیں
کہ اس طرح طالبان میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ ناراض طالبان کے
پاس داعش میں شمولیت کے سواکوئی چارۂ کارباقی نہ رہے اورمشرقِ وسطیٰ سے
لیکر افغانستان تک اس خطے کودائمی طورپرخانہ جنگی کے شعلوں کے
سپردکردیاجائے۔ یقینا اس گہری سازش کے ہولناک نتائج کا سب سے بڑانقصان خاکم
بدہن پاکستان کواٹھاناپڑے گاجوعالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے! |