احمد عقیل روبی اپنی کتاب “کھرے کھوٹے“ میں اداکار محمد
علی کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی لاہور آمد کے بعد کس طرح ایک ٹھیکیدار
نے کیسے ان کے تین روپے ہتھیا لئے تھے اور بعد میں انہوں نے کیسے نکلوائے -
اداکار محمد علی مرحوم کے تین روپے والے قصے پر اپنے پر بیتے ایک واقعہ کی
یاد تازہ ہو گئی - کافی ّعرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں “شاندار“ نامی کوچ میں
سفر کر رہا تھا - نام تو اس سروس کا شاندار کوچ تھا لیکن اس کے مالکان اور
ڈرائیور کی حرکات میں کہیں بھی شاندار کی جھلک نہیں دکھائی دیتی تھی - --مثلآ
کبھی آدھے راستہ پر ایک خاص مقام پر جاکر روک لینا کہ اس سے آگے نہیں
جائیگی اور اس طرح لوگوں کا ڈبل کرایہ دیکر اپنی منزل مقصود تک پہنچنا
وغیرہ وغیرہ -یہ سب کوچ والوں کا وطیرہ ھے اور عام بات ھے -
|
|
اصل قصہ میں جو بیان کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ کنڈکٹر نے مجھ سے پانچ
روپے مانگے -میں نے اسے بڑا نوٹ دیا -اس نے پیسے کچھ اس طریقے سے واپس کئے
کہ ایک دس روپے کا نوٹ کٹی پتنگ کی طرح لہراتا ہوا کوچ کے دروازے سے باہر
نکل گیا اور گھپ اندھیرے میں کہیں غائب ہو گیا - غلطی اس کنڈکٹر کی تھی
لیکن وہ نہیں مانا اور لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گیا -رات ھو چکی تھی اور یہ
آخری کوچ تھی جو جا رہی تھی -لوگ بھی خاموش بیٹھے رہے اور کسی نے کچھ نہ
کہا -مجبورآ میں بھی خاموش ہوگیا - کنڈکٹر ، ڈرائیور کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا
کیونکہ آگے دور تک کسی اور سواری کے ملنے کا امکان نہیں تھا -
میں مایوسی کے عالم میں سوختہ دل کے ساتھ باقی پیسے گننے لگا تو مجھے حیرت
ہوئی - میں نے دوبارہ گنے کہ غلط تو نہیں گن رہا - میں نے نے کنڈکٹر کو پھر
بلایا - اس نے پھر اسی ترش اور اکھڑ لہجے میں جواب دیا "غلطی آپ کا ھے آپ
کو ھم نے بول دیا ھے- سمجھ میں نہیں آتا “
میں نے نرم لہجے میں کہا “جناب میں نے آپ کو پچاس کا نوٹ دیا تھا اور آپ نے
غلطی سے سو کا نوٹ سمجھ کر اسی حساب سے پیسے واپس کئے ہیں - یہ پیسے واپس
لے لو - “
کوچ میں ایک سناٹا طاری ہو گیا -جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ھو یا سب مسافر
حاتم طائی کی کہانیوں کی طرح پتھر کے بت بن چکے ہوں اور ان کی قوت گویائی
چھن چکی ہو - صرف انجن کی آواز سنائی دے رہی تھی - کنڈکٹر کی آنکھیں پھٹی
کی پھٹی رہ گئیں تھیں -
آخر کنڈکٹر اپنی جگہ سے اٹھا اور پیسے لینے آیا - میں نے اسے پیسے واپس
کرتے ھوئے کہا "یہ دس روپے جو باہر اڑ گئے تھے میں کاٹ رہا ھوں“
وہ پیسے کاٹ کر میں نے اسے چالیس روپے واپس کئے-کنڈکٹر کچھ نہ بولا سناٹا
اب بھی طاری تھا - آخر ایک مسا فر سناٹے کی گرفت سے آزاد ہوا اور اس نے کہا
"شکر کرو کنڈکٹر آپ سے اب اڑ جا نے والے پیسے طلب کرنے پر اصرار نہیں کر
رہا “
میں نے اندازہ لگایا کہ اگر میں اسے پیسے نہیں واپس کرتا تو یہ سمجھ سکتے
تھے کہ کوچ بغیر مسافروں کے آئی ھے -کیوں کہ مسافروں کی تعداد بہت کم تھی
اور انکا کرایہ اتنا ھی بنتا تھا جو میں نے واپس کیا تھا-
|