مدیران جرائد کچھ تو سوچۓ

صحافت کسی بھی قوم.کی تعمیر میں جو اہم کردار ادا کرتی ہے وہ کسی بھی ذی عقل انسان سے مخفی نہیں ہے خاص طور پر آج کل جرائد ورسائل زندگی کا جزءِ لازمی بن گۓ ہیں ان حالات میں اخبارات کے اربابِ ادارت پر قوم کی ذہن سازی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے جس شعبے کو اختیار کیا ہے وہ صرف زریعہ معاش نہیں ہے بلکہ قوم کہ رہنمائی کا ایک ایسا منصب ہے جو بہت سی ذمہ داریوں کا حامل بھی ہے .....

کسی انسان کی معاشی ضروریات اگر کسی قوم یا اجتماعی خدمت کے ساتھ وابستہ ہوجائیں تو یہ اللہ رب العزت کا بہت بڑا انعام و احسان ہے لیکن افسوس جب ہم اپنے ملک کی صحافت کا جائزہ لیتے ہیں تو حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا . ہماری صحافت نےنئ نسل کا مزاج بگاڑنے اور اسکے اخلاق خراب کرنے اور انکو نفسانی خواہشات کا غلام بنانے میں اہم کرداد ادا کیا ہے ..

ایک صحافی کا یہ فرض بنتا ہے کہ جس بات کو وہ اپنے قومی حالات کے لحاظ سے بہتر سمجھتا ہے وہ بے خوف اس بات کو کہے اور اسکے اظہار میں کسی خوف اور لالچ کو حائل نہ ہونے دے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری صحافت میں حق و ناحق کے فیصلے حکومت یا عوام کے تیور دیکھ کر کۓ جاتے ہیں ....
آج کے جرائد اپنا ظاہری ڈھانچہ تیار کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے ہیں کہ قوم اور ناپختہ ذہنوں پر اسکے کیا اثرات مرتب ہونگے ...

انتہائی دکھ کی بات ہے کہ تجارتی منافع کی دوڑ میں ہماری صحافت نے عفت و عصمت کی ہر قدر کو پامال کرڈالا ہے عریانی وفحاشی کو فروغ دینے میں ہر اخبار دوسرے سے آگے نکلنے کی فکر میں ہے سینما کی تشہیر کا حصہ جس قدر اخلاقی جذام کا حامل ہوتا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں ہے...

بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اخلاقی جرائم کی خبریں بہت ممتاز کر کے اور قسط وار بیان کی جاتی ہیں اگر کوئی مشہور شخصیت کہیں ہنی مون پر جارہی ہے تو عوام اور نوجوان نسل کا کیا قصور ہے کہ وہ خبریں ان تک پہنچا کر انکا ذہن خراب کیا جاۓ؟ یا اگر کسی ایکٹر یا ایکٹریس میں ناچاقی کے بعد صلح ہوئی ہے تو کیا نوجوان نسل کے ذمے فرض ہے کہ وہ اسکی تفصیل سے آگاہ ہو؟

مدیرانِ جرائد و رسائل...!!!

خدارا اس ستم رسیدہ قوم کی حالت ہر رحم کیجۓ آپ تو اپنی جدوجہد کے زریعے اس قوم کو شرافت کے بامِ عروج تک لے جاسکتے ہیں ..

آپ کا تو فریضہ ہے کہ اگر نئ نسل کسی غلط سمت کا رخ کر رہی ہے تو آپ حکمت سے اس کا رخ بدلنے کی کوشش کریں ..

آپ کی نظر اس آمدنی پر ہے لیکن سوچۓ کیا یہ تھوڑی سی آمدنی آپ کے ضمیر کو خوش رکھ سکتی ہے ؟
آپ کی روح کو قرار عطاء کرسکتی ہے؟

آپ کو سرخرو کرسکتی ہے؟

خا کیلۓ اپنے اخبارار کے طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کیجۓ. ان میں اخلاقی جرائم ، فحش مضامین، اور عریاں اشتہارات کو بند کیجۓ. ان میں ایک ایسا شعور پیدا کیجۓ جو اس قوم کو ترقی اور غیرت و حمیت کی راہ پر گامزن کرسکے اس کام کو علماء اور دینی اداروں کے حوالے کرکے مطمئن ہونا کسی بھی طرح آپ کو آخرت کی زمہ داری سے سبکدوش نہیں کرسکتا....
Faiza Bashir
About the Author: Faiza Bashir Read More Articles by Faiza Bashir: 5 Articles with 7311 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.