قارئین کرام!
بہت خوشی ہوتی جب کوئی میرا کالم پڑھ کر دادرسی کرتا ہے اور مجھ سے رابطہ
کرکے میری حوصلہ افزائی کرتا ہے ، ،اس کالم کے مضمون کو مد نظر رکھتے ہوئے
سب سے پہلے اپنی ہی بات کرنا چاہونگا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہونگے کہ میں یہ
کالم ، مضامین کسی کتاب یا کسی کا نقل اُتارتے ہوئے لکھتا ہوں ، یا کسی اور
شخص کا تجزیہ یا نظریہ اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں تو ایسی بات نہیں ہے ،
کیونکہ میں دغہ باز نہیں ہوں ، اتنا تو مجھے علم ہے کہ میں خود ہی اپنا
کالم ، مضمون کمپوز کرتا ہوں جس میں کسی کے الفاظ شامل نہیں ہوتے بلکہ میں
خود ہی سوچ بچارکرکے لکھتا ہوں ۔
قارئین کرام ! دغہ باز کون لوگ ہیں اور کیوں دغہ کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ کے
معصوم مخلوق کے ساتھ ۔ سیاست کو سمجھنے والے اور سیاست کو چلانے والے لوگ
بہت کم ملتے ہونگے اس ملک پاکستان میں ہمارے ملک کو بدنام کرنے والے ، اس
ملک کے عوام کا خون پسینہ نچوڑ نے والے سیاستدان نہیں ہوسکتے بلکہ وہی لوگ
دغہ باز ہیں ، جو جلسے جلوسوں اور تقریبات کے اوقات عوام سے قسمیں ، وعدیں
اور طرح طرح کی قراردادیں پیش کرتے ہیں ، انہیں شرم آنی چاہئے جب اُن عوام
کے ووٹ کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرتے ہیں اور پھر منہ پھیرتے ہوئے اپنا
چہرہ عوام کے سامنے لانے سے بھی کتراتے ہیں ، بس صرف ٹیلیویژن کے سکرین پر
ہی انکے چہرے نظر آتے ہیں ، جو بڑے گاڑیوں اور بڑے بڑے تقریبات میں شامل
ہوتے جہاں ایک عام آدمی کا پہنچ ممکن نہیں ہوتا،، عوام کے دلوں کا درد ،
دکھ ، احساسات سمجھتے نہیں ہیں اور بات کرتے ہیں ، کہ ہم نے بدلاؤ لائی ہے
، ، مخلص شخص ہو تو وہ اپنی جان کی بازی لگاکر خدمت کرتا ہے ، ، مگر مخلص
کون ملے گا اس کرپشن کے ماحول میں ،، زبان پر ویسے بہت کہتے رہتے ہیں کہ
ہمیں عوام کی فکر ہے مگر حقیقت میں وہ صرف اپنے ہی مفادات کی خاطر بھاگ دوڑ
میں مصروف رہتے ہیں ۔ عوام کے ہاتھ جتنا اختیار ہوتا ہے وہ صرف ووٹ تک ہی
محدود ہے کہ وہ اپنا ووٹ استعمال کریں ، مگر ووٹ پر کامیابی حاصل کرنے والے
شخص کے ہاتھ جب اختیارات آتے ہیں تو شخص عوام کی بات نہیں سنتا بلکہ وہ
اپنے اُس اختیارات کو اپنے ہی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے ، ،
عوام چاہے کتنے ہی مشکلات میں کیوں نہ ہو، اسکی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ان
جیسے دغہ بازوں کو ،،انکے ناموں کے ساتھ جب پہلے یہ( ایم پی ایز ، ایم این
ایز )کے الفاظ لگتے ہیں بس اِن سے پھر بات کرنا تو دور کی بات ہے ان تک
رسائی بھی مشکل ہوجاتی ہے ، ، اور وہ بھی پھر عوام کے ہجوم سے کترانے لگتے
ہیں ، عوام کے ہجوم میں نہیں بیٹھ سکتے، پھر وہ اُسی طرح عوام کے سامنے
نہیں بیٹھ سکتے جبکہ ووٹ ملنے سے پہلے بڑے بڑے جلسوں اور تقریبات میں عوام
سے ملتے ہیں ، لوگوں سے اپنی جھوٹی محبت کااظہار کرتے ہیں ، ، یہاں میں کسی
ایک پارٹی کا نہیں بلکہ ان سب سیاسی ممبران کا ذکر کررہا ہوں جن کا یہ حال
ہے کہ وہ عوام کے ووٹ پر کامیاب ہوکر عوام کا نمائندہ بن کر عوام کی
نمائندگی نہ کرسکے، تو اس شخص کو دغہ باز اور دھوکہ باز نہیں کہیں گے تو
کیا کہیں گے ؟
قارئین کرام ! ذرا سوچیں ہمیں دھوکہ دینے والے یہ سیاستدان کبھی بھی ہمارے
مسیحا نہیں بن سکتے ۔ اس ملک میں اگر فوج کا قانون نافذ کیا جائے ، جیسے
مار شل لاء تو شاید تب ہی اس ملک میں انقلاب آسکتا ہے اور شاید یہ ملک دنیا
کا سب سے بڑا طاقتور اور پر امن ملک بن سکے ، ، پاکستان معرض وجود میں آتے
ہوئے نہ جانے کتنے بے شمار نوجوان ، بوڑھے ، عورتیں اور کتنے بچے شہید ہوکر
اس ملک کا وجود بنا ہے، اور اب یہ سیاستدان ، یہ غدار کرسیوں پر بیٹھ کر
عوام کی قربانیوں اور حالیہ کشیدہ صورتحال کو فراموش کرتے ہوئے مزے لوٹ رہے
ہیں ۔ بڑے بڑے گاڑیوں ، جہازوں اور بیرونی ممالک کے چکر لگاتے لگاتے تھک
جاتے ہیں ، پھر کیا خاک کرینگے عوام اور اس ملک کی خدمت ۔ ؟ ۔
سوات کے سڑکوں ، گلیوں کوچوں، ہسپتالوں، سکولوں، کالجز اعلیٰ تعلیمی اداروں
کے حالات کو دیکھ کر ان منتخب نمائندوں کی بے حسی ظاہر ہوتی ہے ، ، اسی طرح
سوات میں کسی بھی قسم ترقیاتی کام اب تک شروع نہیں ہوا، جس میں بڑے بڑے
کارخانوں کا قیام سر فہرست ہے اگر ان سیاستدانوں نے صوبہ خیبر پختونخواہ
اور سوات کو ترقی دینا ہوتا تو اب تک عوام ان سے مطمئن ہوجاتے ، مگر انہوں
نے ایسے کونسے اقدام اُٹھائے ہیں جس کا ہم تعریف کریں ، یا عوام تعریف کریں،
، ۔سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کیلئے دوا میسر نہیں، ، سکولوں میں
طالبعلموں کیلئے کرسیاں ، میز کلاس رومز میسر نہیں ، ، بے روزگار نوجوانوں
کو سوات میں ملازمت نہیں ملتی ، ، غریب عوام کو رہنے کیلئے کوئی کوارٹر
میسر نہیں ، لوگ بڑے بڑے بلڈنگ بناتے ہیں مگر ان پر کوئی پابندی نہیں کوئی
بھی سیاستدان اس بات پر زور نہیں دیتا کہ بلڈنگ بنانے کے بجائے غریب عوام
کیلئے مکانات بنائیں، تاکہ غریب عوام در بدر ٹھوکریں نہ کھائیں ، ، کوئی
بھی طریقہ کار نہیں انکا،،
قارئین کرام!میں کسی کے خلاف نہیں ہوں ،میں صرف اپنا حق ادا کرر ہا ہوں کہ
کوئی بھی منتخب نمائندہ عوام کی بھلائی کیلئے کام کریں تو انتہائی خلوص سے
کریں اور سب کے سامنے کریں تاکہ وہ لوگ مطمئن ہوسکے جن کے ووٹ سے اُسے
کامیابی ملی ہے ۔ بے حسی کا مظاہرہ نہ کریں اپنے اختیارات کو عوام کی خدمت
کیلئے برائے کار لائیں، خاموش اختیار نہ کریں بلکہ عوام کیلئے ہر پلیٹ فارم
پر آواز اُٹھائیں، ، صرف ٹی وی سکرین پر اپنا چہرہ نہ دکھائیں، بلکہ عوام
کے سامنے آکرتسلی دیں۔ تاکہ عوام کا اعتماد حاصل کرپائیں۔ پولیس محکمہ کو
مستحکم بنائیں تاکہ پولیس محکمہ سے کرپشن کا خاتمہ ہوسکے اور اس میں ایسے
افراد جو سمگلنگ، شراب خوری، چرس افیون کی ڈیلینگ جیسے گناونے دھندے کرنے
والے پولیس اہلکاروں کی چھان بین کریں اور پولیس محکمہ کو ایک بااخلاق اور
با کردار ، با صلاحیت محکمہ بنائیں۔ ۔ جو عوام سے خوش اخلاقی کے لہجے میں
بات کریں نہ کہ عوام پر زور اور دباؤ ڈالے۔ یہ سارے وعدے موجودہ حکمرانوں
نے عوام کے ساتھ کئے تھے،،پاکستان کو نیا پاکستان بنانے والے اب تو ایک ہی
صوبہ خیبرپختونخواہ ہے اس میں تو کم ازکم تبدیلی لائیں۔ میرا یہ کالم صرف
میری آواز نہیں ہے بلکہ اُن تمام عوام کی آواز ہے جنہوں نے آپ کو ووٹ دیکر
کامیاب اور بااختیار بنایا اب ہم سب آپ سب سے اپنے حقوق مانگ رہے ہیں ، ،
صوبہ پنجاب اگر ترقی یافتہ صوبہ بن سکتا ہے تو وزیر اعلیٰ پنجاب کی محنت
اور عوام سے پیار ہے ، ، میں نے خود دیکھے ہیں پنجاب کی خوبصورتی اور عوام
کیلئے سہولیات جو سب ایک ہی مخلص شخص وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی محنت اور
لگن ہے ، میں کسی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ میں حقیقت پر مبنی بیان
پیش کرتا ہوں ،، سیکھو اُن سے کس طرح صوبے کو ترقیافتہ بنانا ہے اور کس طرح
عوام ہی میں شامل ہوکر عوام کی خدمت کرنا ہے ۔وہ ایسا شخص ہے جو ایک عام
آدمی کی طرح ہسپتالوں، اداروں میں جاکر حالات کا جائزہ لیتا ہے ، ، کسی کو
خبر ہی نہیں ہوتی اور وہ کرپٹ آفسران کے خلاف کارروائی کرلیتا ہے۔ واقعی
تعریب کے قابل ایسے شخصیات کیونکہ اُنہیں اپنی سیکورٹی ، اپنی جان ومال کی
کوئی پرواہ نہیں ہوتی بس انہیں صرف عوام کی فکر ہوتی ہیں کیونکہ وہ بھی
اپنے آپ کو ایک عام آدمی سمجھتا ہے۔ زندگی اور موت اﷲ رب العزت کے قدرت میں
ہے پھر کیوں سیکورٹی اور گن مینوں کو ساتھ لیکر گھومیں پھیریں، کوئی بھی
انسان کسی دوسرے انسان کی جان نہیں بچا سکتا ، اگرچہ انکی موت مقرر ہو۔۔
کوئی کسی کو موت نہیں دے سکتا اگر چہ اسکی زندگی باقی ہو۔۔ !
افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جنہوں نے وعدے کئے کہ ہم عام عوام کی طرح
سب کی خدمت کرینگے ، وہ آج کل بڑے بڑے گاڑیوں اور آگے پیچھے سیکورٹی ساتھ
لیکر گھومتے پھیرتے ہیں، اور بعض تو بالکل غائب ہوگئے ہیں سکرین پر آنے سے
کتراتے ہیں،کیا یہ منتخب امیدوار خریدے جاچکے ہیں؟یا وہ قصداً عوام کو بھول
گئے ہیں ،؟،
کس قدر بھول جاتے ہیں انکو،کہ جس نے سایہ انکے سر پہ کیا
یہی دغہ باز ہیں وہ !جن کی ضمیربازاروں میں بک جاتی ہیں |