عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (15)

عاشقِ رسول ﷺ حضرت بلال ؓ کے والد رباح اپنی اہلیہ کے ہمراہ مکہ میں مستقل آباد ہو گئے تھے اور قریش کے خاندان بنو جمح کی غلامی اختیار کر لی تھی ۔ اِس غلامی کی حالت میں بعثت ِ نبوی ﷺ سے تقریباً 28برس پہلے حضرت بلال ؓ پیدا ہوئے اُس وقت چاروں طرف کفر و شرک کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے ۔ حضرت بلال ؓ کا آقا امیہ بن خلف سخت ظالم اور مشرک تھا ۔ اُسی ظالم کی غلامی میں حضرت بلال ؓ نے اٹھائیس برس گزار دیے اُنہی دنوں میں حضرت بلال ؓ کے کانوں میں توحید کی صدا گونجی ۔ حضرت بلال ؓ بعثت سے قبل ہی حضور پاک ﷺ کے اخلاق سے متاثر تھے اِس لیے فوری لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا آپ ؓ اُن سات سعید الفطرت ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ۔قبول اسلام کے عاشق ِ رسول ﷺ ہمیشہ اپنے آقا و مولا کے شریک رہے اگر نبی کریم ﷺ کو فاقہ ہوتا تو وہ بھی فاقے سے ہوئے اگر حضور ﷺ دکھی ہوتے تو وہ بھی دکھی ہوجاتے ۔

شبِ معراج ملائکہ کے جھرمٹ میں شاہِ دو عالم ﷺجب رب ِ ذولجلال سے ملاقات کے لیے آسمانوں پر گئے تو آسمان پر بھی حضرت بلال ؓ کے قدموں کی چاپ گونج رہی تھی ۔ جب مسلمانوں کو مشریکین مکہ کے مظالم سے تنگ آکر رسول کریم ﷺ نے ہجرت مدینہ کا حکم دیا تو حضرت بلال ؓ بھی مدینہ منورہ ہجرت فرما گئے ۔ مدینہ میں حضرت بلال ؓ اپنے محبوب ﷺ کی تمنا لیے راہوں میں آنکھیں بچھائے منتظر رہتے تھے دن رات دعائیں کرتے اے اﷲ تعالی میرے محبوب کی حفاظت فرما زمین کی طنابیں کھینچ لے اور سرور ِ دو عالم ﷺ کو جلد سے جلد مدینہ پہنچا دے اور جب نبی کریم ﷺ آگئے تو حضرت بلال ؓ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا قدموں پر نثار ہوئے جا رہے تھے ۔ رمضان کے مہینے میں روزانہ بوقتِ سحری بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوتے ایک دن جب آپ ؓ حاضر ہوئے تو فخرِ دو عالم ﷺ سحری تناول فرما رہے تھے حضرت بلال ؓ سمجھے سحری کا وقت ختم ہو گیا عرض کی آقا ﷺ سحری ختم ہو چکی ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے سماعت فرمایالیکن آپ ﷺ کھاتے رہے حضرت بلال ؓ پھر بولے اﷲ کی قسم سحری کا وقت آخر ہو لیا ۔ جونہی حضرت بلال ؓ نے قسم کھائی نبی کریم ﷺ نے نوالہ دست ِ مبارک سے رکھ دیا کسی کے پوچھنے پر رحمت ِ دو جہاں ﷺفرمانے لگے بلال ؓ اپنے اندازے کے مطابق اختتامِ سحری کا اعلان کر رہا تھا ۔ جبکہ میری نظر آفتاب کے اس مرکز پر تھی جہاں ابھی سحری ختم ہونے میں چند لمحے باقی تھے ۔ لیکن جیسے ہی حضرت بلالؓ نے قسم کھائی اﷲ تعالی نے اس کی قسم کو سچا کرنے کے لیے آفتاب کو حرکت دی اور اس جگہ پہنچا دیا جہاں سحری کا وقت ختم ہو جا تا ہے ۔ کیا مقام و مرتبہ ہے محسنِ انسانیت ﷺ کے پروانوں کا کہ اگر وہ قسم کھا لیں تو اﷲ تعالی کائنات اُن کے تابع کر دیتا ہے ۔ہجرت کے بعد مسجدِ نبوی ﷺ کی تعمیر ہوئی تو آذان دینے کی سعادت حضرت بلالؓ کے سپر د ہوئی عشقِ رسول ﷺ میں ڈوبی ہوئی اور آبِ زم زم سے دھلی ہوئی آواز سے جب اشہدان محمد رسول اللّٰہ کی صدا بلند کرتے اور مسجد نبوی ﷺ میں جلوہ افروز ہادی دو جہاں ﷺ کی طرف انگشتِ شہادت سے اشارہ فرماتے تو چاروں طرف عشقِ رسول ﷺ کا سحر پھیل جاتا اور صحابہ جھوم جھوم جاتے سبحان اﷲ کیا نظارہ کیا سماں ہو تا ہوگا ۔ لیکن حضرت بلال ؓ کے محبوب ﷺ اپنے رب کریم کے پاس تشریف لے گئے تو حضرت بلال ؓ پر غم کا اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑا۔اب جب انگشتِ شہادت کا اشارہ فرماتے اور محبوب نظر نہ آتے تو کلیجہ پھٹ جاتا ۔ حضرت بلال ؓ حجرہ عائشہ ؓ کی طرف نظریں جمائے بیٹھے رہتے شدت غم سے پھوٹ پھوٹ کر روتے اور بے قرار ہو کر روضہ رسول ﷺ میں داخل ہوتے اپنے محبوب و آقا ﷺ کے چہرے کی بلائیں لیتے اور اپنے بے قرار دل اور روح کو تسلی دیتے کہ میرے آقا محبوب ﷺ سو رہے ہیں ۔ ابھی تھوڑی دیر میں بیدار ہونگے تو اپنے غلام کو یاد فرمائیں گے پکاریں گے یا بلال ؓ یا بلال ؓ نبی کریم ﷺ کے جانے کے بعد مدینہ کے درو دیوار غمگین اور اداس لگتے آخر مدینہ منورہ کو خیر باد کہنے کا وقت آگیا۔ اب اِس شہر اور گلیوں میں دل نہ لگتا تھا ۔ بوقتِ رخصت مدینہ کی گلی کوچوں میں یہ صدائیں دیتے پھرتے اے مدینہ والوں تم نے کہیں میرے آقامحبوب ﷺ کو دیکھا ہے تو مجھے آپ ﷺ کا پتہ بتا دو وہ کدھر ہیں حضرت بلال ؓ دیوانوں کی طرح مدینہ کے گلی کوچوں میں صدائیں دے رہے تھے اِس منظر نے اہل ِ مدینہ اور مدینہ کے درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیا کہرام مچ گیا۔ سرور دو عالم ﷺ کے عاشقاں گھروں سے نکل آئے کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جس سے آنسوؤں کا سیلاب نہ بہہ نکلا ہو درودیوار ساکت تھے ہر آنکھ اشکبار تھی اِس حالت غم اور ہجر میں آپؓ ملک شام جانے والی شاہراہ پر چل پڑے اہلِ مدینہ عاشقِ رسول ﷺ کا جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور رو رہے تھے ۔ بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمر فاروق ؓ شام گئے اور عیسائیوں نے شہر کے دروازے کھول دیے معاہدے کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے خطبہ دیا تو سامعین میں حضرت بلال ؓ بھی موجود تھے تو حضرت عمر فاروق ؓ جن کے جلال اورمقام و مرتبے سے ساری دنیا واقف ہے وہ بولے اے ہمارے سردار بلال ؓ آج قبلہ اول پر پرچم ِ توحید لہرایا ہے اِس عظیم موقع پر اگر آپ ؓ آذان دیں تو ہم آپ ؓ کے بہت شکر گزار ہو نگے ۔ پھر جب آپ ؓ آذان کے لیے کھڑے ہوئے جب آپ ؓ کے منہ سے اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر کے الفاظ نکلے تو صحابہ کرام ؓ کے قلب و جگر پھٹ گئے اُنہیں رحمت دو جہاں ﷺ کا وقت یا د آگیا اور جب اشھدان محمد رسول اللّٰہ پر پہنچے تو صحابہ کرام ؓ ہجرِ رسول ﷺ میں روتے روتے نڈھال اور بے ہوش ہونے لگے فاروقِ اعظم ؓ کو بھی فراق ِ رسول ﷺ نے تڑپا دیا روتے روتے ہچکی بندھ گئی ۔ شام کے شہر حلب میں قیام کئے جب ایک سال بیت گیا تو ایک مبارک رات ہادی دو جہاں ﷺ خواب میں آئے اور ارشاد فرمایا اے بلال ؓ تم نے ہم سے ملنا کیوں چھوڑ دیا کیا تمھارا دل ہم سے ملنے کو نہیں کر تا ۔خواب سے بیدار ہوئے تو عرض کی لبیک یا رسول اﷲ ﷺ اور پھر اسی وقت رات کے اندھیرے میں ہی اونٹنی پر سوار ہو کر محبوب ﷺ کے شہر مدینہ کی طرف چل پڑے ۔ شب و روز چلتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے مسجدِ نبوی میں حضور ﷺ کو تلاش کیا پھر حجرات مبارک میں تلاش کیا جب حضور ﷺ کہیں نہ ملے تو حجرہ انور پر حاضر ہوئے اور رو رو کر عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ غلام کو کہا ہے کہ آکر مل جا اب غلام حاضر ہے آپ ﷺ پردہ میں چھپ گئے ہیں ۔ شدتِ غم سے بے خود ہو کر قبر انور کے پاس گر پڑے ۔ اِسی دوران آپ ؓ کی آمد کی خبر سارے مدینہ میں پھیل گئی اہل مدینہ آپ ؓ کے ارد گرد جمع ہو گئے حضرت حسن ؓ اور حسین ؓ کو دیکھا تو اپنے محبوب کے جگر گوشوں کو سینے سے لگا کر بار بار اُن کا منہ اور سر چو ما ۔ حضرت حسنؓ حسین ؓ نے فرمائش کی بابا بلال ؓ آپ ؓ آذان دیں ۔ آپ ؓ انکا ر نہ کر سکے مسجد نبوی ﷺ کی چھت پر چڑھے اور آذا ن شروع کی اہلِ مدینہ نے لحنِ بلالی ؓ سنا تو پوری فضا حشر ِ ساماں ہو گئی رسول کریم ﷺ کا عہد مبار ک یا د آگیا۔ہر شخص غم سے نڈھال تھا خواتین روتی تھیں اور بچے دریافت کرتے تھے بلال ؓ تو آگئے ہیں رسول کریم ﷺ کب تشریف لائیں گے ۔ دوران آذان جب حضرت بلال ؓ نے روضہ اقدس کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے اشہد ان محمد ارسول اللّٰہ کہا تو پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے نکل آئیں روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں ایسا لگ رہا تھا گویا ہادی حق ﷺ نے آج ہی وصال فرمایا ہے سرور دو عالم ﷺ کی رحلت کے بعد مدینہ میں ایسا دلدوز اور پر اثر منظر آج تک دیکھنے میں نہیں آیا ۔حضرت بلال ؓ کو حضور اکرم نظر نہ آئے تو غم ِ ہجر میں بے ہوش ہو کر گر پڑے اور جب ہوش آیا تو روتے روتے واپس شام لوٹ گئے باقی ساری زندگی آپؓ غمِ فراق محبوب سے نڈھال رہے ہر لمحہ آتش ِ ہجر میں جلتے رہتے موت وقت قریب آیا تو آپ ؓ کی اہلیہ محترمہ بولیں ہائے افسوس تو آپ ؓ بولے یہ تو خوشی کو موقع ہے میری اپنے محبوب ﷺ سے ملاقات ہوگی سفر آخرت کے وقت ساٹھ برس لے لگ بھگ عمر تھی دمشق میں اُن کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے حضرت عمر فاروق ؓ کو جب بلال ؓ کی وفات کی خبر پہنچی تو روتے روتے نڈھال ہو گئے بار بار فرماتے تھے آہ ہمارا سردار بلال ؓ بھی ہمیں داغِ جدائی دے گیا۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.