چین ، سعودی عرب کے پا کستان سے تعلقات، مفادات کی جنگ
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
آخر کار چینی صدر ژی جنگ پن کا
دورہ پاکستان کا شیڈول اور تاریخ طے پاہی گیا۔ اب چینی صد ر 20 اپریل پیر
کے روز اسلام آباد کا دو روزہ دورہ کر یں گے جس میں وہ وزیر اعظم میاں نواز
شریف سمیت صدر مملکت ،سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقاتوں کے علاوہ پارلیمنٹ
کے مشتر کہ اجلاس سے بھی خطاب کر یں گے۔ چینی صدر کا دورہ پا کستان کئی
حوالوں سے اہمیت حامل ہے۔ بہت عر صے بعد یہ کسی بھی سر براہ مملکت کا دورے
پا کستان ہے جس کے بارے میں ہمارے سیاسی رہنمااور حکومتی اہلکار کہتے ہیں
کہ چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے۔ یہ بھی
کہا جا تا ہے کہ چین نے ہمیشہ پاکستان کی مشکل وقت میں مدد کی ہے ۔ آج بھی
بہت سے منصوبے چین کے تعاون سے چینی حکام پا کستان کے مختلف علاقوں میں سر
انجام دے رہاہے ۔چینی صدر کے حالیہ دو روزہ دورے میں بھی پا کستان اور چین
کے درمیان مختلف منصوبوں پر دستخط ہوں گے جس میں توانائی ، مواصلات اور
انفر اسٹر کچر کے شعبوں میں سمجھوتے شامل ہے۔
چینی صدر کے دورے پاکستان کے بارے میں ہماری حکومت بہت انتظار میں تھی پہلے
کہا جارہا تھا کہ وہ 23 مارچ کے دن پر یڈ میں شامل ہوں گے جس طر ح امر یکی
صد ر نے بھارت کا دورہ کیا تھا اسی طر ح ہمارا دوست ملک کاصدر بھی دورہ
کرکے دنیا کو پیغام دیں گے کہ پا کستان اور چین خطے میں مضبوط قو تیں ہیں ۔
خطے میں ان کا مقام کو نظر انداز نہیں کر سکتااور دنیا کی سیاست میں بھی
دونوں ممالک کا اثرو رسوخ ہے لیکن پاکستان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی ۔
بعدازں گیارہ اپر یل کا کہا جا رہا تھا کہ چینی صدر پا کستان کا دورہ کر یں
گے لیکن اب یہ دورہ بیس اپر یل کو طے پا یا ہے۔ کسی بھی ملک کے سر براہ کا
دورہ دوسرے ملک سے تعلقات کو مضبوط کر تا ہے ۔ چینی صدر کے دورے سے بھی
دونوں ممالک کے تعلقات مز ید مضبوط ہوں گے لیکن ہمیں دنیا کی حقیقتوں کو
بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ ہر ملک ایک دوسرے کے ساتھ
مفادات کا تعلق رکھتاہے ۔ وہ پا ک امر یکا تعلقات ہو یا سعودی عرب اور پا
کستان کے تعلقات ہمیشہ مفادات کو مدنظررکھتے ہوئی تعلقات میں اتار چڑھاؤ
آیا ہے ۔اسی طرح چین کے تعلقات بھی پا کستان کے ساتھ مفادات کے ہیں لیکن ہم
نے ان تعلقات کو معلوم نہیں کیا کیا نام دیے ہیں اور ہر ایک چین کی محبت
میں گر فتار ہے ۔ ہم بحیثیت قوم جذباتی قوم ہے ہم ملکوں کے ساتھ تعلقات میں
بھی وہی روایہ رکھتے ہیں جس طرح ہم رشتہ داری میں رکھتے ہیں۔ حالاں کہ
حقیقت یہ ہے کہ رشتوں میں بھی آج کل مفادات آگیا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں
کہ ہم نے آج تک چین سے کیا فائد ہ حاصل کیا ہے ۔زیادہ تر ہم ان کو ٹھیکے
دیتے ہیں اور چینی بھائی اس کام کو پا یا تکمیل تک پہنچ دیتے ہیں۔ آج پا
کستان کے بڑے سے بڑا شہر سے لے کر چھو ٹے سے چھوٹا گاؤں اور دیہات تک جنرل
اسٹوروں میں روزمرہ استعمال ہونے والے چینی اشیا مو جود ہوتی ہے۔ اس طرح آج
ہر گھر میں اور ہر فرد کے پاس مو بائل سیٹ ہو تا ہے جو چین کا بنا ہو تا ہے
بیس سال سے پا کستان میں مو بائل سروس جاری ہے لیکن ہم نے آج تک مو بائل
سیٹ اپنا نہیں بنایاجس کا دوش یا قصور چین کا نہیں بلکہ ہمار اپنا ہے کہ ہم
نے چین سے درآمد کرکے اور ٹھیکے دے کر خوش ہوتے ہیں۔ ہم نے سمال انڈسٹری
میں چین سے کوئی مدد حاصل نہیں کی تاکہ پا کستان میں انڈسٹری لگے اور یہاں
لو گوں کو روزگار ملیں۔
ہر پاکستانی چین سے دوستی کے حق میں ہے اور چین ایک اچھا دوست ملک بھی ہے
لیکن چین سے جو فائدہاٹھانا چاہیے بحیثیت اسٹیٹ ہم نے وہ فائد ہ نہیں اٹھا
یا۔ جہاں پر پاکستان کو چین سے دوستی کی ضرورت ہے اس سے زیادہ چین کو خطے
میں اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے پا کستان کی بھی ضرورت ہے۔ چین کی
پالیسی ہے کہ سب کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھے جائے ۔ ہمیں کم ازکم چین کے
اس پا لیسی پر عمل کر نا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کے ساتھ اپنے مفادات کو مدنظر
رکھا کر تعلقات استور کر نے چاہیے۔ یمن کا مسئلہ ہمارے سامنے ہیں جس میں پا
کستان نے نیوٹرل رہنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کیا۔ اس کے
بعدمتحد ہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جانب سے کافی دباؤ پا کستان پر آیا
کہ پا کستان ہر صورت اس جنگ میں گود جائے۔سعودی حکام کے پا کستان دورے اور
پا کستانی حکام کے سعودی عرب کے دورے سے معلوم یہ ہو تا ہے کہ پا کستان کو
شدید دباؤ کا سامناہے۔ سعودی عرب کے ساتھ پا کستان کے اچھے تعلقات ہے لیکن
کیا سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پا کستان کی مدد کی ہے ۔ اپنا
فوج بھیجوایا ہے یا مالی تعاون جاری رکھا ہے ۔ پا کستان کو دہشت گردی کے
خلاف جنگ میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے ۔ ہمارے ساٹھ ہزار
لو گوں نے جانوں کی قر بانی دی ہے ۔ کسی بھی اسلامی ملک نے مدد کی ہے یا
کسی بھی سر براہ مملکت نے پا کستان کا دورہ کیا ہو۔ ان سوالوں کا جواب نفی
میں ملتا ہے ۔ بہت سے تجزیہ کار یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ سعودی عرب سمیت
عرب ممالک میں پا کستانیوں کو نیشنلٹی بھی نہیں دی جاتی اور نہ ہی آزاد
ویزے جبکہ سعودی عرب میں پا کستانیوں کے ساتھ کوئی خاص سلوک بھی نہیں رکھا
جاتا۔ پا کستان کے حالیہ اقتصادی بدحالی میں بھی سعودی عرب سے تیل عالمی
مارکیٹ نرخ پر ہی ملتا ہے یعنی ہر ملک اپنے مفاد کو دیکھتے ہو ئے فیصلے کر
تا ہے ۔مفادات کی اس جنگ میں پا کستان کو بھی اپنے مفادات اور ملک کے حالات
کو مد نظر رکھا کر فیصلے کر نے چاہیے۔ جہاں سعودی عرب ہو یا چین ہمیں اپنے
ضر وریات اور پا لیسی کو سامنے رکھا کر تعلقات رکھنے ہوں گے تب ہی دنیا میں
ہماری عزت ہو گی۔
پا کستا کو چین سے سولر انرجی میں مدد حاصل کر نا چاہیے تا کہ پا کستان
سستے داموں سولر سے بجلی پیدا کر سکیں۔اگر ہم نے ملک کو تر قی دینی ہے تو
ہمیں اپنے پا ؤں پر کھڑا ہو نا پڑے گا ۔ ملک کے اندر انڈسٹریزی کو ترقی
دینی ہو گی۔چین سے ہمیں سمال انڈسٹر یز سمیت بجلی پیدا کرنے میں مدد لینی
کی ضرورت ہے۔ہمارے حکمرانوں کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔ اپنی ذاتی
دوستویوں کو بلائے طاق رکھا کر ملک کے مفاد میں فیصلے کرنے چاہیے۔ |
|