میرپور کے ضمنی انتخابات کے بارے
میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ کوئی کامیابی پر فاتح کو مبارکباد پیش کررہا ہے
تو کوئی شکست کی وجوہات کہیں اور تلاش کررہاہے۔ مجھے فتح اورشکست سے غرض
نہیں بلکہ سوال یہ اہم ہے کہ جس ایوان کی رکنیت اس قدر سخت محنت سے حاصل کہ
گئی ہے اسکی اپنی حیثیت کیا ہے۔ جس قانون اسمبلی کی رکنیت ملنے پر جشن مسرت
جاری ہے اُس اسمبلی کی اپنی وقعت اور اختیار کتنا ہے۔ کیا وہ واقعی ایک
قانون ساز اسمبلی ہے۔ کیاوہ اپنی مرضی سے قانون سازی کرسکتی ہے اور کیا وہ
آزادکشمیر کے ایکٹ میں کوئی ردوبدل کرنے کی مجاز ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک
حالیہ ویڈیو گردش کرہی ہے جس میں آزادجموں کشمیر قانون ساز اسمبلی کے قائد
ایون اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اپنی پریس کانفرس روک کر کسی شخصیت کو
سر سر کہہ کر مخاطب ہیں اور بتا رہے ہیں کہ آپ کے حکم کی تعمیل میں مذکورہ
شخص کو سیکریٹری ہاوسنگ لگا دیا ہے۔یہ چوہدری مجید پر ہی موقوف نہیں بلکہ
جب بیرسٹر سلطان محمودآزادکشمیر کے وزیراعظم تھے تو وہ پی پی پی کی ناہید
خان کا استقبال کرنے خود مظفرآباد ائیرپورٹ پہنچ جاتے تھے۔ مسلم لیگ ن کے
اراکین کو بھی آپ نے وزیرامور کشمیر کا استقبال کرتے اور بازیابی کا شرف
حاصل کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ بالکل اسی طرح مسلم کانفرس کے اراکین اسمبلی جے
او سی مری کے دربار میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ۲۰۰۱ء میں
سرادر سکندر حیات محض چار نشستیں ہونے پر بھی وزیراعظم بن گئے اور سردار
عتیق اٹھارہ اراکین ساتھ ہونے کے باوجود منہ دیکھتے رہ گئے۔ اب میرپور کے
ضمنی انتخاب میں ن لیگ کے امیدوار کی دستبرداری سے سردارسکند حیات کو اپنے
مزارع ہونے کا احساس ہوا حالانکہ یہ احساس انہیں اس وقت ہی ہوجانا چاہیے
تھا جب مقتدر حلقوں نے انہیں مسند اقتدار پر بٹھایا تھا۔ آزادکشمیر کے تمام
سیاستدانوں کو مظفرآباد کی کرسی اقتدار کے مقام و مرتبہ کا بخوبی علم ہے
لیکن وہ اپنی خودداری اور عزت نفس پیچ کر بھی اُس کے حصول کے لیے دن رات
سرگرداں ہیں اور جب اس پر متمکن ہوتے ہیں تو وزارت ِ امورکشمیر کے جوائنٹ
سیکریٹری کا ٹیلی فون بھی کھڑے ہوکر سنتے ہیں۔
اس بے اختیار کرسی کے حصول کے لیے آزادکشمیر کے سیاستدانوں میں کیوں رسہ
کشی جاری رہتی ہے ۔ حالانکہ اسی ایوان اقتدار سے ماضی میں سرادر ابراھیم،
کے ایچ خورشید، سردارر عبدالقیوم، سردار سکندر حیات، ممتاز حسین راٹھور اور
دوسروں کو کس قدر بے توقیر اورتضحیک آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے اقتدار سے
الگ کیا گیا۔ آزادکشمیر کے تمام سیاستدانوں کو آپس میں مل کر پہلے
آزادکشمیر کے اقتدار اعلٰی اور آزادکشمیر حکومت کے مقام و مرتبہ پر متفق
ہونا چاہیے۔ آزادحکومت کو پوری ریاست کی نمائدہ حکومت کا درجہ حاصل ہو جو
وہاں کے عوام کی حقیقی ترجمان ہو۔ آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی حقیقت میں
ایک قانون ساز اسمبلی ہو تو پھر انتخاب پر جشن شادمانی بنتا ہے لیکن بے
اختیار اسمبلی کی رکنیت اور بے وقعت اقتدار پر یہ محض جشن بے اختیاری ہے۔
آج مسلم کانفرس غیر ریاستی سیاسی جماعتوں کی آمد پر چیخ رہی ہے لیکن اسے
اپنے ماضی پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اُس نے خودپاکستان کی عملی سیاست میں
کیوں دخل اندازی کی۔ وہ ۱۹۷۷ء میں پاکستان قومی اتحاد کا نواں ستارہ کیوں
بنی۔ مہاجرین کی بارہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا۔دوسری سیاسی
جماعتوں سے مسلم کانفرس ایک قدم آگے بڑھ کر ملٹری ڈیموکریسی کا نعرہ لگارہی
اور ساتھ غیر ریاستی جماعتوں کے آزادکشمیروراد ہونے پر بھی معترض ہے۔ مسلم
لیگ ن آزادکشمیر ایک عجیب کشمکش اور تضادات میں مبتلا ہے۔ وہ آزادکشمیر میں
اپنی مرضی کی سیاست بھی نہیں کرسکتی اور نہ عوام کو مطمئن کرسکتی ہے۔ جن
سیاسی جماعتوں کے ریموٹ کنٹرول ریاست سے باہر ہوں ان کا یہی حشر ہوگا۔ ن
لیگ نے میرپور کے ضمنی انتخابات میں آزادکشمیر حکومت کے امیداوار کے حق میں
اپنا امیداور بٹھا لیا لیکن چند ہی دن بعد مظفرآباد میں اسی حکومت کی کرپشن
کے خلاف ن لیگ کی اراکین اسمبلی نے دھرنا دیا۔ جب حکومتی امیدار کی حمایت
کی جارہی تھی تو کیا اُس وقت حکومت کرپٹ نہ تھی۔ ن لیگ آزادکشمیر کو وزیر
اعظم پاکستان کے گلگت میں دیئے گئے حالیہ بیان پر بھی اپنی پالیسی جاری
کرنی چاہیے جس میں انہوں نے اس خطہ کے لیے آئینی پیکج کا اعلان کیا ہے۔
وضاحت تو بیرسٹر سطان محمود کو بھی کرنی چاہیے کہ پی ٹی آئی کی کون سی
کشمیر پالیسی ہے جس سے متاثر ہو کر وہ اُس جماعت میں گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کو
بھی یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ ایک شخص شامل ہوتے ہی پارٹی کا صدر کیسے بن گیا۔
جمہوریت اور اصول کہاں ہیں۔
آزادکشمیر کے سیاسی رہنماء جو آئے دن برطانیہ کے دوروں پر ہوتے ہیں اور
یہاں وہ دعوتیں اُڑانیں کے ساتھ پونڈ اکٹھے کرتے ہیں ان سے کسی کبھی یہ
سوال بھی کیا کہ یہ سیاسی رہنماء آزادکشمیر کے دور دراز علاقوں میں عوام کے
حالات معلوم کرنے کبھی گئے ہیں۔ آزادکشمیر کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے
کیا اقدامات کیے ہیں۔ آزادکشمیر سے برطانیہ کا طویل فاصلہ یہ اکثر طے کرتے
ہیں لیکن کبھی جھنگ میں مقیم کشمیر مہاجرین کے پاس گئے ہیں۔ کیا کبھی اُن
کشمیری مہاجرین کی بھی خبر گیری کی ہے جو تیزاب احاطہ لاہور، سیالکوٹ میں
حاجی پورہ کیمپ، پکا گڑھا کیمپ، تلواڑہ، بجوات اور دیگر علاقوں میں کشمیری
کہاجرین کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ کیا بھی انہوں نے کنٹرول لائن اور ورکنگ
باؤنڈری پر بھارتی جارحیت کا شکار کشمیری عوام کی خبرگیری کی ہے۔ مظفرآباد
میں مقیم مہاجرین کس حال میں ہیں اور انہیں بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے
کیوں احتجاج کرناپڑتاہے۔ کیا آزادکشمیر کی کسی بھی سیاسی جماعت نے اس بات
کا نوٹس لیا کہ آزادکشمیر اور پاکستان سے ۴۷۵ کشمیری مہاجرین کے خاندان
واپس مقبوضہ کشمیر کیوں چلے گئے ہیں۔ اُن کے واپس جانے سے سرحد کے اُس کے
پار کیا پیغام جائے گا۔ اگر کشمیری عوام نے اپنے سیاسی رہنماؤں کا محاسبہ
نہ کیا اور جو محض حصول اقتدار کے لیے کوشاں ہیں اُن سے جان نہ چھڑائی تو
مسئلہ کشمیر اسی طرح حل طلب رہے گا۔ ہمیں حریت افکار کی حامل قیادت کی
ضرورت ہے نہ کہ غلامانہ ذہنیت کی کیونکہ فرزند کشمیر علامہ اقبال نے خوب
کہا ہے کہ
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر کہ دنیا میں فقط مردان ِ حُر کی
آنکھ ہے بینا
|