دو ہی بار اسلام یاد آتا ہے!!!

وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی مانے جانے والے ڈاکٹر ظفر یونس سریش والا کا خیال ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو صرف دو بار ہی اسلام یاد آتاہے جس میں ایک بار طلاق کے موقع پر جب اپنی بیوی کو طلاق دینا ہو اور دوسری بار اس وقت جب والد کاانتقال ہوجائے ۔ ڈاکٹر ظفر یونس سریش والا کا یہ بیان اس بات کاثبوت ہے کہ وہ نریندر مودی اور انکی پشت پناہ تنظیم آریس یس کی آؤ بھگت کرنے میں اب بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔ نریندر مودی نے بھی ڈاکٹر ظفر سریش والا کو اس وجہ سے مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ دیا ہے کہ وہ نام کے مسلمان ہیں اور کام کے سنگھی ۔ بھلے سریش والا چڈی پہنے ہوئے نہیں ہیں لیکن کرتا پائجامہ میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں مگر کام پورا وہی ہے جو سدرشن اور مادھون کا ہے ۔ اب تک بی جے پی کی فہرست میں مختار عباس نقوی ، شاہنواز حسین اور نجمہ ہبت اللۃ کے ساتھ یم جے اکبر پیش پیش دکھائی دے رہے تھے اب سنگھی مسلمانوں کی فہرست میں ایک اور نام شامل ہوگیاہے وہ ظفر سریش والا۔ ڈاکٹر ظفر یونس سریش والا کا بیان ہے کہ مسلمانوں کو اسلام صرف دو ہی دفعہ یاد آتاہے اس میں ایک دفعہ بیوی کو طلاق دینے کے موقع پر اور دوسری دفعہ والد کے انتقال ہونے پر۔ خیر ہندوستانی مسلمانوں کو ان دو موقعوں پر ہی اسلام یا د آئے لیکن شاید انہیں خود اسلام ایک دفعہ یاد آئے اور وہ موقع ہے الیکشن کا جس وقت وہ ٹوپی پہن کر اپنے آپ کو مسلمانوں کی فہر ست میں جمع لیتے ہیں۔ خیر یہ انکا ذاتی تجربہ بھی ہوسکتاہے کہ انہیں اسلام اپنی بیوی کو چھوڑنے کے موقع پر یا والد کے انتقال کے موقع پر یاد آیا ہو۔ ڈاکٹر ظفر سریش والا نے یہ بیان اس باعظمت مقام میں دیاہے جسے دنیا جامع اردوعلی گڑھ کے نام سے جانتی ہے ۔ شاید علی گڑھ اردویونیورسٹی کے ذمہ دار بھی انکو اپنے جلسے میں بلا کر پچھتا رہیں ہونگے کیونکہ انکی پوری تقریر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد سے ہٹ کر تھی۔ اس صاحب نے اسی جلسے میں یہ بھی کہہ دیا کہ مسلمانوں کو تعلیم اور روزگارمیں ریزرویشن کی ہرگز بھی ضرورت نہیں ہے اور مسلمانوں کو گوشت کھا کر اپنے آپ کومسلمان ہونے کا ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو ان سے سوال ہے کہ ہم مسلمان ریزرویشن بھی نہیں چاہینگے اور نہ ہی گوشت کھائینگے لیکن کیا آپ ایسے تعلیمی اداروں کا قیام کرینگے جہاں پر مسلمانوں کے بچوں کو آسانی سے تعلیم مل سکے؟ کیا آپ ایسے مواقع فراہم کرینگے جس سے مسلمانوں کو روزگار مل سکے اور کیا آپ مسلمانوں کو پزّا و برگر بیس منٹ میں فراہم کرینگے جس سے مسلمان گوشت کھانا چھوڑ دیں ؟۔ یہ ہر گز بھی ممکن نہیں ہے ۔ ظفر سریش والا مودی کے نشے میں چور ہیں اور وہ آریس یس کی آؤبھگت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اصل میں وہ مسلمانوں کے موجودہ زمینی حالات سے ناواقف ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ آج مسلمانوں کیلئے بازار سے دال خریدنا مشکل ہے گوشت خریدنا آسان ہے ۔ اگر مسلمانوں کو ملک میں روزگار کے مواقع ملتے ، یہاں تعصب اور دشمنی کا ماحول نہیں ہوتا تو آج ہندوستانی مسلمان امریکہ ، خلیجی ممالک اور یورپی ممالک کارخ نہ کرتے بلکہ اپنی صلاحیتوں سے اس ملک کو گلزار بنادیتے ۔ جتنے اسلام کے پیرو کار ہندوستانی مسلمان ہیں اتنا تقویٰ اور جذبہ دنیا کے کسی اور ملک کے مسلمانوں میں نہیں ہے ۔ ان تمام باتوں سے بے خبر ظفر سریش والا اسٹیجوں کو مسلمانوں کی توہین کرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں اور ایسے گمراہ شخص کو ہمارے بااعتبار ادارے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کررہے ہیں ۔ حالانکہ جہاں اردو میں ان سے بڑے بڑے دانشور ہیں، مسلمانوں کے مسائل پر کام کرنے والے مخلص ہیں اور مسلمانوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے مجاہد ہیں مگر ان تمام کو نظر انداز کرتے ہوئے علی گڑھ یونیورسٹی جیسے ادارے ایسے فرقہ پرست مسلمانوں کو جلسوں میں شرکت کرواکر خود مسلمانو ں کی توہین کروارہے ہیں ۔ ظفر سریش والا نے یہ بھی واضح کردیا کہ اب مسلمان مسلمان نہیں رہااوراسلام سے دور ہوچکاہے ۔ یقینا انکی بات میں دم ہے اور اسکی اچھی مثال وہ خود ہیں کیونکہ جن مسلمانوں کی مخالفت میں بھاجپا کام کررہی ہے وہ اسی پارٹی کے کارندے ہیں اور جس اسلام نے مسلم قوم کے دشمن کو اسلام کادشمن قرار دیا ہے وہ اسی پارٹی کے ترجمان ہیں۔ بس اپنے مفادات کی خاطر اپنے ضمیر کو گراکر انہوں نے بھاجپا میں شمولیت اختیار کی اوراب انہیں کی طوطی بولنے لگے ہیں۔ بھلے ڈاکٹر سریش والا کو وزیر اعظم مودی نے انکی وفاداری کا صلہ انہیں مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنادیا ہو ، بھلے صنعت کار سریش والا کو مودی حکومتوں نے صنعتوں کے لئے سہولیات فراہم کی ہوں لیکن عام مسلمان آج بھی مجبور ہے اسکی حالت یہ ہے کہ اسے اپنااور اپنے اہل وعیال کا پیٹ بھرنے کے لئے دن بھر محنت کرنی پڑھتی ہے اور کئی دفعہ اس محنت کے باوجود مسلمان اپنے بیوی بچوں کاپیٹ بھر بھی نہیں سکتا۔ مسلمانوں کی حقیقی حالت سے واقفیت ایئر کنڈیشن بنگلوں اور مہنگی گاڑیوں میں بیٹھ کر لگائی نہیں جاسکتی بلکہ اسکے لئے میدان میں آنا پڑھتا ہے ۔ آج بھی گجرات کے ہزاروں مسلمان روزی روٹی کی تلاش میں ممبئی اور دہلی جیسے شہروں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ انہیں گجرات میں انکا حق نہیں دیا جارہاہے ۔ آج بھی گجرات میں مسلمانوں کی بستیاں بسانا مشکل ہے اور اسی گجرات میں ہندو اورمسلمانوں کے بچوں کو اسکولوں میں الگ الگ یونیفارم دیا جارہاہے تاکہ ہندو اور مسلمان بچوں کی الگ الگ پہچان ہوسکے۔ درحقیقت مسلمانوں کی توہین کرنے کے عمل کو غیر تو اپنا فرض سمجھتے ہی ہیں ساتھ میں ایسے نام کے مسلمان مسلمانوں کی توہین کو واجب سمجھ بیٹھے ہیں جسکی وجہ سے حکومتیں چاہتے ہوئے بھی مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کرتی ہیں کیونکہ ایسے مسلمان مداخلت کربیٹھتے ہیں ۔ مسلم اداروں اور تنظیموں کو چاہئے کہ وہ ایسے نام کے مسلمانوں کواپنے اجلاس و تقاریب سے دور ہی رکھیں ورنہ انکی زبان سے نکلنے والی باتیں سماج کے لئے غلط پیغام ثابت ہونگی ۔ اب تک مسلمان شیطان کے شر سے پناہ مانگا کرتے تھے اب ایسے مسلمانوں کے شر سے بھی پناہ مانگتے ہیں تو اﷲ ہماری حفاظت کریگے۔
Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197657 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.