پچھلے کئی دنوں سے یمن کے حوالے
سے پارلیمنٹ میں متفقہ قراردادکی منظوری پر بالخصوص پاکستان اوربالعموم
ساری دنیا میں ہلچل مچاکررکھ دی ہے۔اس غیرمتوقع ردِّعمل پر وزیراعظم اوران
کے ناہنجارساتھی اب ہاتھ پاؤں مارتے دکھائی دے رہے ہیں کہ قوم کے ہیجان سے
کس طرح نمٹاجائے۔دوست دشمن بھی اس حوالے سے حیرت اور جذباتیت کا اظہارکررہے
ہیں کہ وزیراعظم کے فیصلوں میں تاخیران کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کامنہ
بولتاثبوت ہیں۔اس میں شک نہیں کہ اس ناقابل تلافی نقصان کے احتمال سے بچنے
کیلئے تین رکنی وفد شہباز شریف کی معیت میں سرتاج عزیزکے ساتھ سعودی عرب کے
خصوصی دورے میں اعلیٰ سعودی حکام کوکئی یقین دہانیوں کے بعدواپس لوٹ
آیاہے۔جہاں حکومت ایک طرف معاملات کو اب بھی ٹھنڈے طریقے سے ہینڈل کرنے کی
کوشش کر رہی ہے وہاں تین ماہ سے خاموشی کاروزہ توڑتے ہوئے وزیرداخلہ چوہدری
نثارنے اچانک امارتی وزیرخارجہ کے ٹوئٹ پر جارحانہ ردّعمل کااظہارکرکے
معاملہ میں بگاڑاورکشیدگی میں اضافہ کردیاہے ۔یوں محسوس ہوتاہے کہ چوہدری
نثارنے وزیر خارجہ کامنصب بھی سنبھال لیاہے۔دوسری جانب پارلیمنٹ میں حکومتی
قرار دادکی حمائت کرنے والے تمام علماء اورسیاسی قائدین سعودی وزیرکی آمدکے
ساتھ ہی مرغِ بادنماکاکردار ادا کرتے ہوئے قراردادکی مخالفت میں بیانات داغ
دے رہے ہیں۔ سعودی حکام کوبھی اس تبدیلی کاپوری طرح احساس ہوچکاہے اوروہ اس
معاملے کوآنے والے دنوںمیں سنجیدگی سے لیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔
دراصل قومی اسمبلی میں بحث کے دوران سعودی حکومت پوری طرح مطمئن تھی ،انہیں
یقین دلایاگیاتھاکہ اسمبلی کی بحث کوسنجیدگی سے نہ لیں ،ایک گول مول سے
قراردادآئے گی جس میں افواج سعودی عرب بھیجنے کی گنجائش رکھی جائے گی ۔اس
معاملے کی حساسیت کی بناء پرسعودی عرب کے مشیربرائے مذہبی امورڈاکٹرصالح بن
عبدالعزیزایک ہفتہ قبل سے پاکستان میں موجودتھے ۔وہ یہاں ایک طرح سے سفیر
کی غیرموجودگی کے سبب پیداہونے والے خلاء کوپرکررہے تھے۔انہیں حکومتی سطح
پربتایاگیاتھاکہ آنے والی قراردادمیں سعودی مطالبات کوپوراکرنے کامکمل
بندوبست موجود ہے۔ پاکستان واضح کرے گاکہ وہ سعودی عرب کااتحادی ہے لیکن
قراردادکے متن نے توپانسہ ہی پلٹ دیاجس میں اتحادی کی بجائے غیرجانبداری
کاراگ گایاگیاتھاجس نے سعودی عرب سمیت سب کوششدرکردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ غیرجانبدارکالفظ بنیادی طورپرایرانیوں کی اشدضرورت تھی ۔ایرانی
سفیر اورایران کے رابطہ میں دیگر ارکان اسمبلی اورمیڈیاکے نمائندوں نے
انتہائی چابکدستی کے ساتھ مہم چلائی کہ اتحادی کالفظ غیرجانبداری میں بدل
دیا جائے۔ان کی دلیل تھی کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، صرف ایک لفظ ہی
توہے ۔ کیا حکومت کوعلم نہیں کہ ایک نقطہ ''خدا سے جدااوردعاسے
دغا''بنادیتاہے۔اس سلسلے میں ایرانی سفیرکی شاہ محمودقریشی اور خورشیدشاہ
سے ہونے والی ملاقاتوں کواہم قرار دیاجارہاہے۔خصوصاًشاہ محمودسے ہونے والی
ملاقات کے بعدتحریک انصاف'' غیرجانبدار''کے الفاظ پراڑگئی اوربصورت
دیگرانہوں نے واک آؤٹ یاکھل کرمخالفت کی دھمکی دی،اسی دوران پہلے سے طے شدہ
منصوبے کے تحت خورشیدشاہ نے بھی اپناوزن تحریک انصاف کے پلڑے میں
ڈالااورفیصلہ غیرجانبدار کے لفظ پرہو گیاجس نے پاکستان کے سفارتی تعلقات
میں بھونچال کی سی کیفیت پیداکردی ۔ ملک کے تمام اہم تجزیہ نگاراس
امرپرمتفق ہیں کہ یہ سارامعاملہ حکومت کی کم سے کم الفاظ میں ناکامی
کامظہرہے۔
ادھر حکومتی امورمیں مشاورت کایہ حال ہے کہ اسحٰق ڈار کے سواہروزیرکوایک ہی
شکائت ہے کہ ان کے پاس اختیارات تودورکی بات اسے علم ہی نہیں ہوتاکہ وزارت
میں ہو کیا رہا ہے ؟اسی پالیسی کے تحت خودحکومت تک کوآخری مرحلے تک علم ہی
نہیں تھاکہ پارٹی پالیسی کیا ہے اورانہوں نے کرنا کیاہے؟یہاں تک کہ خود
وزیردفاع دن میں تین تین بار اپنا مؤقف بدلتے پائے گئے۔صاف دکھائی دے
رہاتھاکہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ کرناکیا اورکہناکیا ہے ؟اس سے ہٹ کرسعودی
دوستوں کی ڈیمانڈکوبھی پردۂ اخفامیں رکھنے کی بجائے پارلیمنٹ میں پیش کرنے
پرپوری دنیاکوورطۂ حیرت میں ڈال دیاکیونکہ سعودیوں نے یہ مطالبات میڈیاکے
سامنے نہیں بلکہ رازداری میں کئے تھے مگرحکومت کے نالائق وزیرنے دوست ملک
کاراز بے نقاب کرکے اس کیلئے بھی جگ ہنسائی کابندوبست کیااوراپنااعتمادبھی
کھوڈالا۔میں نے توپہلے بھی اپنے ایک کالم میں تحریرکیاتھاکہ ہماری بدنصیبی
یہ ہے کہ ہمارے وزیردفاع میں ملکی دفاع کی قطعاًصلاحیت نہیں!
چونکہ حکومت صرف ون مین شوبن کررہ گئی ہے اس لیے اپوزیشن کی اس چال
کوسمجھاہی نہیں جاسکاکہ وہ حکومت کو اس کے عالمی دوستوں کے سامنے خراب
کررہی ہے مگر چونکہ کوئی حکمت عملی سرے سے وجودہی نہیں رکھتی تھی اس لیے
اپوزیشن کواپناکرداراداکرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی جبکہ حکومت
کوپہلاجھٹکامتحدہ امارات کے وزیر خارجہ کے ٹوئٹ کی صورت میں لگاجس میں اس
نے کہاتھاکہ پاکستان کوواضح پوزیشن لینی چاہئے ورنہ اسے نقصان اٹھانا پڑے
گا۔یہ ایک ذاتی حیثیت میں کیاگیاتبصرہ تھاجسے یارلوگ لے اڑے اور غیرت
وخودمختاری کے ترانے گانے شروع کر دیے گئے جس میں حالات میں تناؤ نہ ہوتے
ہوئے بھی تناؤپیدا ہوگیابلکہ محسوس بھی ہونے لگا،اس پررہی سہی کسی وزیر
داخلہ چوہدری نثارنے پوری کردی۔موصوف گزشتہ تین ماہ سے وزیراعظم سے ناراضی
کے سبب گھربیٹھے ہیں،اس ایشو پر اچانک بیدارہوئے اوراپنی حکومت پرخودکش
حملہ آورکی طرح ٹوٹ پڑے۔صبح کے وقت حکومت کی ترجمان وزارتِ خارجہ یہ اعلان
کررہی تھیں کہ اس پرکوئی ردّعمل نہیں دیا جائے گااورسرِشام ہی چوہدری
نثارکی رگِ غیرت اس بری طرح پھڑکی کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات کوکھری
کھری سناکرنوازشریف کاحساب برابر کر دیا۔
اطلاع کے مطابق نوازشریف نے اس پراپنی ناپسندیدگی کا اظہاربھی کیاہے
حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اس ردعمل کی چوہدری نثارکوضرورت کیوں پیش آئی ۔اس
صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی حکومت نے اپنے وزیرمذہبی امورالشیخ صالح بن
محمدبن عبدالعزیزآل شیخ کوشاہ سلمان کوخصوصی نمائندہ بناکرپاکستان
بھیجاجواتوارکی رات کوپہنچے اورآتے ہی ملاقاتیں شروع کردیں۔سعودی ذرائع
کادعویٰ ہے کہ انہیں نواز شریف نے خودبلاکرمعذرت بھی کی ہے اوریقین دلایاہے
کہ وہ افواج بھیجیں گے اور پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑاہو گا ۔ بعدازاں
نوازشریف کوخوداس امرکی وضاحت کرناپڑی، بعدازاں سعودی سفیرکی رہائش گاہ
پرمیڈیاسے بات چیت میں سعودی مہمان سفارت کاری کرتے دکھائی دیئے مگران کے
چہروں پرپاکستان کے حوالے سے اطمینان نہیں تھا۔ان سے بار بارپوچھاگیاکہ وہ
نوازشریف کی بات سے مطمئن ہیں توان کا جواب تھاکہ یہ پاکستان کااندرونی
معاملہ ہے،ہم پاکستان کو اتحادمیں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں صرف فوجی
یاسیاسی حوالہ سے نہیں بلکہ ہرحوالہ سے اتحادمیں شامل کرناچاہتے ہیں۔انہوں
نے پاکستان کی تعریف بھی کی اوراپناکیس بھی پیش کیا۔بتایاجاتاہے کہ وہ
بہرحال اس قدرمطمئن نہیں کہ اپنے اطمینان کواعلان کی شکل دے سکیں۔اس حوالہ
سے اسلام آباد کے باخبرذرائع کادعویٰ ہے کہ پاکستان نے عرب دوستوں کو اس
پرمطمئن کرلیاتھاکہ ابھی پاکستان اتحادمیں شامل ہونے کا اعلان کردے
گامگرافواج بھیجنے کاکام بعدمیں ہوجائے گالیکن لفظ''غیرجانبداری''نے ایساگل
کھلایاہے کہ اب پاکستان کواپنی پوزیشن بچانے کی خاطرکچھ نہ کچھ افواج
بھیجناپڑے گی چاہے اس کیلئے کوئی بھی طریقہ اختیارکیوں نہ کرناپڑے،اب یہ
باراٹھاناپڑے گا۔
اطلاعات کے مطابق اپنے وزیرخارجہ کے ٹوئٹ سے پیدا صورتحال کونارمل کرنے کی
خاطر امارات سے بھی ایک نمائندہ خصوصی ان سطورکی اشاعت تک پاکستان پہنچ چکے
ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ صورتحال کاتذکرہ خالی ازدلچسپی نہ ہو گاکہ پاکستان کی
تمام دینی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں میں موجوددینی قائدین نے اس قراردادکے
حق میں ووٹ دیامگر جب سعودی مہمان پاکستان آئے تو سب نے اپنا رویہ بدل
لیااوراس قراردادکی مخالفت شروع کردی۔ مولانا فضل الرحمان جواس سے قبل تک
سعودی فوج بھجوانے کی مخالفت کرتے آ رہے تھے،اچانک فرمانے لگے کہ
قراردادحیرت انگیزہے،سوال یہ ہے کہ انہیں اس بات کااحساس کب
ہوا؟اورپارلیمنٹ میں انہوں نے اس قراردادکی مخالفت کیوں نہیں کی؟ جن لوگوں
نے پارلیمنٹ کے اندراورباہرکرداراداکیا،ان میں پروفیسرساجدمیر اورقائدین
جماعت اسلامی کا اسم گرامی بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔سعودی سفارتخانہ نے
حیرت کاا ظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ کیاسمجھتے ہیں کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں
کہ اسمبلی میں کس طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھ کرقراردادکی حمائت کررہے تھے۔
دوسری جانب بیرون ملک روزی کمانے والے پاکستانی پریشانی کاشکارہیں اورخطرہ
محسوس کر رہے ہیں کہ اگر حکومت نے کوئی مناسب فیصلہ نہ کیاتوہرموقع
پرپاکستانیوں کوفائدہ پہنچانے والی عرب حکومتیں ہاتھ اٹھالیں گی جس کے
نتیجے میں صرف سعودی عرب سے تیس لاکھ سے زائد بیروز گاروں کاسیلاب آئے
گابلکہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو سالانہ پندرہ ارب ڈالرکے زرمبادلہ سے بھی
ہاتھ دھوناپڑیں گے جوان ممالک میں موجودپاکستانی کماکربھیجتے ہیں ۔وریں
اثناء ایرانی وزیرخارجہ کارویہ بھی درست نہیں تھا۔وہ پاکستان پر الزام
تراشی کرتے رہے،انہوں نے پاکستان کوتجویزدی کہ پاکستان سعودی عرب
کوچھوڑکرتہران بلاک میں آجائے ۔اس پیشکش پرسول ذمہ داران نے مجرمانہ خاموشی
اختیارکی لیکن وہی پرآرمی چیف نے دوٹوک اندازمیں فوری طورپر رد کرتے ہوئے
ناقابل عمل قراردے دیااوران سے کہا کہ وہ فوری طورپراپنے توسیع پسندانہ
عزائم کوختم کریں ۔بعدازاں وزیر اعظم نے بھی مہمان وزیرسے سخت رویہ میں
کہاکہ وہ حوثی باغیوں کوروکیں اورعرب ریاستوں میں مداخلت بند کریں جس
پرانہوں نے آگے سے پاکستان پربھی الزامات لگائے۔
حکومت کی اس بدحواسی اورایک ذریعہ کے مطابق صرف عسکری ذمہ داران کواس سعودی
حمائت کاکریڈٹ نہ لینے دینے کی ضدنے پاکستان کوسفارتی سطح پرتنہائی کی جانب
دھکیل دیا ہے ۔اب اس کاحل کیانکلتاہے یہ توآنے والاوقت ہی بتائے گامگرعرب
دوستوں کیلئے پاکستان کی وہ اہمیت باقی نہیں رہنے دی جواس سے قبل تھی۔
دوسری جانب خودسیاسی قیادت کابھی نقصان ہواہے اوریہ دکھائی دے رہاہے کہ جن
کی کریڈیبلٹی خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے ان کی کریڈیبلٹی پھرقائم ہونے
جارہی ہے۔ |