یمن میں بغاوت٬ امن سے عداوت

جس طرح اس میں دورائے نہیں ہوسکتیں کہ یمن میں موجودہ بحران ملک پراقتدار کی جنگ ہے جس میں ازل سے شرِّی حوثی قبائل کی باغیانہ سرگرمیوں کا اہم رول ہے، اسی طرح اس میں بھی دورائے نہیں کہ یہ شیعہ ،سنی مسلکی لڑائی ہرگز نہیں ،جیسا کہ بعض مراسلہ نگاروں نے لکھا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں سعودی عرب کے آنگن میں ایران کے علاقائی عزائم کارفرما ہیں جن کی بدولت اس کی شیعہ سنی تعبیر کی جارہی ہے۔ اس میں وجہ نزاع مسلک ہرگز نہیں۔ جو ناقدین یا قائدین اس کو مسلکی جنگ کہہ رہے ہیں، وہ ملت اسلامیہ کے وسیع تر مفادکوزد پہنچارہے ہیں ۔اﷲ ہی ان بدنصیبوں کوآتش دوزخ سے بچائے گا۔ ورنہ فساد بین المسلمین کا یہ فعل ناقابل معافی جرم ہے۔

یمن کی 1800 کلو میٹر لمبی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے ۔ سرحد بھی ایسی جس کو عبورکرنا کچھ دشوار نہیں۔ اس لئے سعودی عرب کے لئے تو یہ صورتحال فکرمندی کا سبب ہونی ہی چاہئے۔خصوصاً اس لئے جن طاقتوں کے قدم بڑھ رہے ہیں ان کے رشتے سعودی عرب کے ساتھ اچھے نہیں ۔ اس تشویش کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ قومی مفاہمت کے نتیجہ میں قائم اور عرب ممالک کی حمایت یافتہ یمنی حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنے والے حوثی قبائل کی تاریخ میں شورہ پشتی نمایاں رہی ہے۔ ان کی سعودی سکیورٹی فورسز سے جھڑپیں بھی ہوتی رہیں ہیں۔ اب اگر ان کو عرب مملکتوں کے علاقائی حریف ایران سے کھلی مددمل رہی ہے، تو عربوں میں اضطراب اوراس کے سدباب کے لئے اقدام کے جواز سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قانونی طور سے قائم حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے کوایرانی اسلحہ اورتربیت کی فراہمی کے پس پشت کوئی جذبہ خیر نہیں بلکہ فتنہ پردازی اور شر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ ایران اور یمن کی سرحد میں ہزاروں میل کا فاصلہ ہے۔

موجودہ بحران کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اس کے پس منظر کو دیکھنا ہوگا۔یہ سلسلہ 2011-12 میں اس وقت شروع ہوا جب مصراورچنددیگر ممالک میں پراسرار طور پر ایک عوامی تحریک چل پڑی۔ اس کو یورپی ممالک نے جمہوریت کے نام پر ہوا دی۔ ہمارے چند دانشووروں نے بھی اس کو ’بہارعرب ‘ قراردیکر خوشی کے شادیانے بجائے ۔ مگر اس بہار کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں نکلا۔ خوش گمانی تھی کی اسلامی انقلاب کی راہ کھل رہی ہے۔چنانچہ ہرشخص کو ان شورشوں سے ہمدردی ہوگئی تھی۔ یمن میں جب صدرعلی عبداﷲ صالح کی سرکارکے خلاف تحریک چھڑی ،تب بھی یہی گمان تھا کہ کوئی بہتر صورت پیدا ہوگی۔ مگرصورتحال روزافزوں خراب ہوتی گئی۔ معروف مصری مفکر اور سیاسی تجزیہ نگار محمد حسنین ہیکل نے ایک انٹرویو میں کہا ہے:’’ یمن سویا ہوا آتش فشاں ہے، پھٹے گا تو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیگا۔‘‘

شمالی اورجنوبی یمن کے اتحاد اور علی عبداﷲ صالح کے دور حکومت سے قبل تک یمن ایک پسماندہ خطہ تھا۔ لیکن صالح کی حکومت میں یمن نے غیرمعمولی ترقی کی۔سعودی عرب نے بھی اس میں تعاون کیا۔ لیکن شورش برپا ہوئی تو ترقی مفقود اور تنزلی ہنوز کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ سنہ 2012ء آتے آتے پانی سرسے اونچاہوگیا تو سعودی عرب کی مساعی سے صالح حکومت اور ان کے مخالف گروپوں کے درمیان ایک مفاہمت ہوئی۔ اس کی روسے صدر علی عبداﷲ صالح کے خلاف تمام الزامات ہٹا لئے گئے۔ پارلیمنٹ نے ان کی معافی کی قرارداد کو منظوری دیدی۔ وہ اقتدار سے دستبردارہوکر بیرون ملک چلے گئے ۔ان کے نائب عبد ربُّہ منصور ہادی عبوری صدر قرار پائے۔ابھی ہادی نے اقتدار سنبھالا ہی تھا نئے مسائل شروع ہوگئے۔ سعودی سرحد سے متصل ملک کے شمالی علاقے میں آباد حوثی باغیوں کے حوصلے بڑھ گئے اورانہوں نے قومی مفاہمت کو درکنار کرکے منصورہادی کی حکومت کے خلاف دباؤ بنانا اور علاقوں کو ہتھیانا شروع کردیا ۔رفتہ رفتہ ملک کے بڑے حصہ پران کا تسلط قائم ہوگیا ۔راجدھانی صنعا میں سرکاری سیکیورٹی عملہ پسپا ہوگیا ۔ باغیوں نے صدر کے گھر اوردفترکو نرغے میں لے لیا۔ وہ وہاں سے نکل کر بھاگے اورعدن میں جاکر پناہ لی۔باغیوں نے اپنے اقتدارکا اعلان کردیا۔ لیکن یہ کامیابی تنہا حوثی ملیشیا کی نہیں، جن کی کل آبادی چھ فیصد سے زیادہ نہیں۔ اس میں سابق صدر صالح کے حامی فوجی اورچند دیگر عناصر بھی شامل ہیں۔
ہرچند کہ علی عبداﷲ صالح کے دورحکومت میں برابر حوثی قبائیلی شورش جاری رہی ۔ ان کو مسلسل شرپسندوں کے خلاف فوجی کاروائیاں کرنی پڑیں۔ مگران کے اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد فوج میں صالح حامی سنی فوجیوں اور حوثی باغی ملیشیا میں ساز باز ہوگئی۔ چنانچہ منصورہادی کی حکومت کے خلاف صرف شیعہ ملیشیا ہی نہیں بلکہ صالح حامی سنی فوجی بھی شامل ہیں۔ ان کے پیش نظر صرف اقتدار پر قبضہ کرنا ہے، شیعہ یا سنی کا مسئلہ کچھ نہیں۔ ملک میں ایک طاقت القاعدہ کی بھی ہے۔ مگر وہ خاموش تماشادیکھ رہی ہے۔

اگرچہ فوری طور سے سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک نے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کاروائی کی ہے اوران کے اسلحہ کے ذخائر کونشانہ بنایا ہے۔ جس میں ایران کے اعتراف کے مطابق دور مار میزائل بھی شامل تھے۔ سعودی کماندار نے کل بروز منگل ریاض میں یہ اعلان کیا ہے فضائی حملوں کے اہداف حاصل ہوگئے ہیں اوراب ان کو روکا جارہا ہے۔ دریں اثنا منصورہادی کی حمایت میں کچھ اورفوجی یونٹیں بھی آگئی ہیں اورایسا محسوس ہوتا ہے باغیوں کی پیش رفت رک گئی ہے، لیکن خانہ جنگی کے طول پکڑنے کا اندیشہ اس لئے ہے ایران نے حوثی ملیشیا کی اسی طرز پرتربیت دی ہے اوراسلحہ فراہم کیا ہے جس طرز پراس نے لبنان میں حزب اﷲ کی اورکسی حد تک غزہ میں حماس کو اسرائیل کے مقابلہ میں کھڑا کیا ہے۔اسی کے دم پر شام میں بشارالاسد ابھی تک ٹکے ہوئے ہیں، ہرچند کہ شام تباہ ہوچکا ہے۔ یہ بات دنیا نے دیکھی کی ایران کی عسکری تربیت اور فوجی امداد کے بل پر حزب اﷲ نے اسرائیل جیسی طاقت کو ناکوں چنے چبوادئے۔لیکن اسرائیل کے خلاف ایران کی اس امداد کا تو جواز تھا کہ اسرائیل کی غاصب اورجابر نسل پرست سرکار ہے۔ جو دنیا بھر میں فتنہ پروری کرتی ہے۔ سعودی عر ب کی جائز حکومت کے خلاف اس طرح کی کاروائی اتحاد ملت اورشوکت ملت کے سراسر منافی اورناقابل معافی ہے۔

شاید اسی اندیشے کے پیش نظر سعودی عرب چاہتا تھا کہ اس معرکہ میں اس کو پاکستان اورمصر کی فوجی مدد مل جائے۔ مصر میں اگرچہ اس سوال پر تنازعہ کے دوران فوجی حکومت نے کچھ بحری مدد بھیجی ہے، مگر خود وہاں کی سرکار داخلی مشکلات کا شکار ہے۔ سینائی کے علاقے میں پے درپے ایسے واقعات ہورہے ہیں جس سے فوجی سرکار کا ناطقہ بند ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی فوجی امداد سے پہلو تہی کی ہے۔ مصر کو یمن میں فوجی مداخلت کا تلخ تجربہ یاد ہے جب 1967 میں صدر ناصر نے سات ہزار فوجی وہاں بھیجے تھے اور ان میں سے صرف چھ ہزار گھر واپس لوٹ سکے تھے اورمسئلہ حل نہیں ہوا تھا۔ پاکستا ن کی سرحد ایران سے ملتی ہے۔ اس کے بہت سے قومی مفادات ایران سے وابستہ ہیں۔ افغانستان میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اورچین کے ساتھ مل کر اس علاقے میں ایک نئی شراکت پیداکرنے کی خاطر پاکستان کو ایران کا تعاون درکار ہے۔ اس لئے وہاں کی پارلیمنٹ نے کئی دن کی بحث کے بعد سعودی عرب کی فوجی امداد کی طلب کو قبول کرنے سے انکارکردیا ہے، البتہ مسئلہ کے حل کے لئے اپنے سفارتی اثرورسوخ کی پیش کش کی ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب پر حملے کی صورت میں فوج فراہم کرنے سے بھی اصولی طور پراتفاق کرلیا ہے۔

یمن وسعودی سرحد پر یمن کے اعتراضات کی وجہ سے پوری طرح باڑھ نہیں لگ سکی ہے۔ سعودی عرب میں جو نظام حکومت قائم ہے اس کے خلاف شورشیں اٹھتی رہتی ہیں۔ دسمبر 1979 میں ایک نجدی عبداﷲ قحطانی کے500 شیطانی چیلوں نے اس کے بھائی جہمانی کی قیادت میں حرم کعبہ پر قبضہ جمالیا تھا ۔ ان سے حرم کو پاک کرانے میں دو ہفتہ لگ گئے تھے۔ خود حوثی بھی سعودی عرب کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ داعش کے انتہاپسندوں سے اندیشہ لگا رہتا ہے۔ سعودی حکمرانوں کو دھمکیاں القاعدہ سے بھی ملتی رہتی ہے، جن کی یمن میں بھی ایک طاقت ہے۔ اس لئے اپنی دفاع میں اورملک کوکسی بھی خانہ جنگی سے محفوظ رکھنے کے لئے سعودی اقدامات قابل فہم ہیں۔ فطری طور سے وہ چاہتی ہے کہ یمن میں زور زبردستی سے ایسے لوگ اقتدار پر قابض نہ ہوجائیں جو اس سے خار کھائے بیٹھے ہیں اورعلاقائی حریف ایران کے پٹھو بن گئے ہیں۔ بین اقوامی قاعدے ضابطے بھی سعودی حکام کو شرپسندی سے حفاظت کا حق دیتے ہے البتہ اس میں کسی طرح کی زیادتی سے گریز ضروری ہے۔

ایران اورسعودی عرب کے درمیان اختلاف کی واحد وجہ مسلک نہیں۔ بلکہ علاقائی اورعالمی مسائل پرمفادات میں ٹکراؤ ایک بڑی وجہ ہیں۔ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نزاد جب سعودی عرب گئے تھے تو مرحوم شاہ عبداﷲ نے خلاف روایت ان کا استقبال ہوائی اڈے پر جاکر کیا تھا۔لیکن صدر نزاد مذاکرات کے درمیان سے اٹھ گئے اوردورہ پورا کئے بغیر اچانک وطن لوٹ گئے، یہاں تک عمرہ کا ارادہ بھی ملتوی کر دیا۔ اس طرح ایک موقع جو دونوں بڑے ممالک میں مفاہت کا تھا، ضائع ہو گیا۔ ایک دوسرے موقعہ پرتنظیم تعاون اسلامی کے اجلاس میں مرحوم شاہ عبداﷲ نے ایران کو برادرملک کہہ کر پکارا تھا اور اختلافات کا حل تلاش کرنے کے لئے ایک مکانزم بھی تجویز کیا تھا۔ مگراس کا مثبت جواب نہیں ملا۔ ظاہر ہے شاہ مرحوم کے پیش نظر مسلکی اختلاف نہیں بلکہ دیگر سیاسی اختلافات اورعلاقائی تنازعات کا حل مقصود تھا جن میں تیل ، علاقائی معاملات، مغربی ممالک سے تعلقات وغیرہ شامل ہیں۔یہ بات دنیا جانتی ہے امریکا ایران کاسخت مخالف ہے جبکہ سعودی عرب امریکا کا قریبی حلیف ہے۔

اب جو سعودی عرب نے یمن میں فضائی کاروائی کی ہے اس اثرات تونظرآرہے ہیں۔ صدرمنصوربہ ہادی، جو دارالحکومت صنعا سے نکل بھاگے تھے،اب عدن میں موجود ہیں۔اسی کو انہوں نے عارضی دارالحکومت بنایا ہے۔ان کے حامیوں نے عدن ہوائی اڈے پر صالح حامی فوجیوں کو پسپا کردیا ہے۔اس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ وہی ملک کے قانونی حاکم ہیں۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ صورتحال جلد قابو میں نہیں آئیگی۔ اس کے لئے ہوسکتا ہے سعودی بری افواج کوسرکار کی مدد کے لئے میدان میں اتارنا پڑے۔اس کے لئے سعودی عرب محاذ بنانے کی کوشش کی ہے جس میں کچھ رکاوٹیں ہیں۔افسوس اور حیرت کی بات یہ کہ مصری فوجی حکمراں عبدالفتح السیسی نے طوطہ چشمی کی ہے۔ ان کے قدم جمانے کے لئے سعودی عرب نے خطیر رقم دی تھی۔ سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے گزشتہ منگل مصر جاکر السیسی سے ملاقات کی۔اس کے بعد یہ خبر توآئی کی دونوں ملک سعودی سرزمین پر بڑی مشترکہ بڑی فوجی مشق کریں گے مگر اس کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا ہے۔ آخری بات یہ کہ اس خانہ جنگی میں براہ راست ایران کے شریک ہوجانے کاکوئی امکان نہیں۔ایران اگراس میں شریک ہوا تو ایک شدید عالمی بحران پیداہوجائیگا جس کے تباہ کن اثرات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔دوسرے ابھی یورپی ممالک کے ساتھ اس کا نیوکلیائی معاہدہ منزل کو نہیں پہنچا ہے اوراس پر عائد اقتصادی پابندیاں بدستور جاری ہیں۔ ایران یقینا وہ غلطی نہیں کریگا جو راجیو گاندھی نے سری لنکا میں اورامریکا نے ویتنام میں فوجیں اتار کر کی تھیں۔

آخری بات: اس تنازعہ میں ہندستان کیا کررہا ہے؟ ہمارے سیاستدانوں کو آپس میں کیچڑ اچھالنے سے ہی فرصت نہیں کہ قومی مفادات کا کچھ اندازہ لگا کر اقدام کریں۔ ادھرچین برابرپاکستان کے راستے وسط ایشائی خطے میں اپنے قدم جما رہا ہے اورہم اس کی گرفتاری اوراس کی رہائی کے مسئلہ میں ہی سینہ کوبی میں مصروف ہیں۔ہندستان کو اس تنازعہ میں اصولی موقف اختیارکرنا چاہئے اوراگر وہ چاہتا ہے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنے تو اس کے شایان شان کچھ علاقائی مسائل کے حل میں اپنی دلچسپی بھی دکھانی چاہئے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163529 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.