دیدہ و دِل فرشِ راہ
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
چین کے صدرشی جَن پنگ جب پاکستان
کے تاریخی دَورے پرراولپنڈی کی ایئرمارشل نورخاں ایئربیس پرپہنچے تواُن
کاوالہانہ اورپُرتپاک استقبال کیاگیا ۔صدرِپاکستان ممنون حسین ،وزیرِاعظم
پاکستان میاں نوازشریف ،وفاقی وزراء اورتینوں مسلح افواج کے سربراہان نے
معززمہمان کا استقبال کیا۔ استقبالیہ دُھنوں اور تالیوں کی گونج میں جب
چینی صدراپنی اہلیہ محترمہ کے ہمراہ طیارے سے باہرتشریف لائے تواُنہیں 21
توپوں کی سلامی دی گئی اورپاکستان کے ثقافتی لباس میں ملبوس بچوں نے پاک
چین دوستی کے نعرے لگائے۔ایئرپورٹ پر باقی سب لوگ توموجودتھے لیکن ہمیں
وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد صاحب ایئرپورٹ پرنظر آئے نہ معاہدوں پر دستخط
کرنے کی تقریب میں۔ ماناکہ چودھری صاحب آجکل کچھ’’ روٹھے روٹھے‘‘ سے ہیں
لیکن چینی صدرتوہمارے معززترین مہمان تھے۔اُنہوں نے یوں تو اسلام آبادسے ہی
اپنادَورہ مکمل کرکے واپس چلے جاناہے لیکن یہ پاک چین لازوال دوستی ہی
کااعجازہے کہ لاہورسمیت پورے پاکستان کے شہروں میں خیرمقدمی بینرزآویزاں
ہیں۔ ایسے میں وزیرِداخلہ صاحب کی عدم موجودگی ہرکسی کو بُری طرح کھٹکتی
رہی۔
معززمہمان کی پُرجوش پزیرائی کاایساانداز پہلے کبھی نظرنہیں آیااور یہ بھی
غالباََپاکستان کی تاریخ کاپہلا موقع ہے کہ پاکستان کے صدر، وزیرِاعظم ،اورتینوں
مسلح افواج کے سربراہان کسی غیرملکی مہمان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ
پرموجود تھے۔وارفتگی اوروالہانہ پَن صرف میزبانوں کے چہروں سے ہی نہیں بلکہ
خودچینی صدرِمحترم اوراُن کے ساتھ آئے ہوئے وفدکے چہروں سے بھی عیاں تھا ۔محترم
شی جَن پنگ تواپنے دَورے سے پہلے ہی یہ فرماچکے تھے کہ پاکستان کے دَورے
پرجاتے ہوئے اُنہیں یوں محسوس ہورہاہے کہ جیسے وہ اپنے بھائی کے گھرجا رہے
ہوں۔ پاک چین تجارتی معاہدوں کے حجم کودیکھتے ہوئے کہاجا سکتاہے کہ چینی
صدرِمحترم واقعی اپنے بھائی کے گھرہی آئے تھے۔چینی حکومت نے پاک چین دوستی
کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے اقتصادی راہداری کے 30 منصوبوں سمیت 51 معاہدوں
پر دستخط کیے اورآئندہ 2 سالوں میں دوطرفہ تجارتی حجم 20 ارب ڈالرتک لے
جانے پربھی اتفاق کیا۔چینی حکومت کے سٹریٹجک شراکت داری سمیت 46 ارب ڈالرکے
معاہدے پاکستان کے روشن مستقبل کی بنیادہیں ۔خواجہ آصف کہتے ہیں کہ چینی
صدرکے دورے سے پاکستان کامعاشی نقشہ یکسرتبدیل ہوجائے گااور ترقیاتی منصوبے
مکمل ہونے سے پاکستان کی جان ورلڈبینک اورآئی ایم ایف سے بھی چھوٹ جائے گی
لیکن پنجاب اسمبلی کے قائدِحزبِ اختلاف تحریکِ انصاف کے میاں محمود
الرشیدکچھ اورہی کہتے ہیں۔ اُنہیں اِن منصوبوں میں توکوئی خامی نظرنہیں آئی
لیکن دِل کی بھڑاس نکالنابھی توضروری تھا۔ وہ دور کی کوڑی لاتے ہوئے فرماتے
ہیں’’اگرپاکستان میں اندھیروں کا خاتمہ چینی صدرنے ہی کرناہے توحکمران کس
مرض کی دواہیں۔ حکمران خودکچھ کرنے کے قابل نہیں توپھر اِن کے پاس
اقتدارمیں رہنے کاکیا جوازہے ۔اُن کوفوری طورپر اقتدارسے الگ ہوجاناچاہیے‘‘۔
میاں محمودالرشید صاحب کاحکم سرآنکھوں پر لیکن ہمارے ’’میاں برادران‘‘بھی
کچھ ضدی واقع ہوئے ہیں اسی لیے تو126 دنوں کے ’’تاریخی‘‘ دھرنے کے
باوجوداقتدار سے چمٹے رہے ،حالانکہ اکابرینِ تحریکِ انصاف کوتو یقین تھاکہ
اِدھروہ ڈی چوک پہنچے ،اُدھر امپائرکی انگلی کھڑی ہوئی ۔126 روزہ دھرنے
کومیں نے تاریخی اِس لیے لکھاہے کہ اگریہ دھرنانہ ہوتاتو چینی صدر7 ماہ
پہلے ہی پاکستان تشریف لاچکے ہوتے اورجن معاہدوں پر آج دستخط ہورہے ہیں،
اُن پربہت ساکام ہوبھی چکاہوتا ۔اِس لحاظ سے ڈی چوک والادھرنا تاریخی ہی ہے
کہ وہ چینی صدرکے دورے کی راہ میں ڈٹ کرکھرا ہوگیا اورمعزز مہمان کوچھ ماہ
انتظارکرنا پڑا۔ بہرحال اب توچینی صدرپاکستان آبھی چکے اورمعاہدوں پر دستخط
بھی ہوگئے ۔اگرنوازلیگ کے دورِحکومت میں اِن معاہدوں پر بیس ،پچیس فیصدعمل
بھی ہوگیا تو پھرتحریکِ انصاف ’’چراغِ رُخِ زیبالے کر‘‘اقتدار ڈھونڈتی ہی
رہ جائے گی ۔ویسے محترم محمودالرشید سے سوال کیاجا سکتاہے کہ جب ’’شوکت
خانم ‘‘عوام کی اعانتوں اور زکواۃ کے پیسوں سے چلتاہے ،علاج ڈاکٹرزکرتے ہیں
توپھر کپتان صاحب’’ایویں خوامخواہ‘‘شوکت خانم ہسپتال بنانے کاکریڈٹ کیوں
لیتے رہتے ہیں؟۔
ہمارے ’’لندن وال‘‘الطاف بھائی اِس بات پرپریشان ہیں کہ میاں شہبازشریف
نورخاں ایئربیس پرکیا کررہے تھے اوراگر وہ تھے توپھر دوسرے صوبوں کے وزرائے
اعلیٰ کیوں نہیں تھے؟۔ الطاف بھائی کی ’’بات توسچ ہے مگربات ہے رسوائی کی
‘‘۔سوال چونکہ الطاف بھائی کاہے اورہم اُن سے خوفزدہ بھی بہت اِس لیے
’’ڈرتے ڈرتے‘‘عرض ہے کہ ہم نے بہت پہلے اداکارعمرشریف کاایک ڈرامہ دیکھا۔
اُس زمانے میں پاکستان میں ہاکی عروج پرتھی اورہرکوئی ہاکی کادیوانہ ۔ڈرامے
میں عمرشریف ہاکی پررواں تبصرہ یوں کر رہے تھے کہ ۔۔۔گیند کلیم اﷲ سے سمیع
اﷲ ۔۔۔ سمیع اﷲ سے کلیم اﷲ ۔۔۔کلیم اﷲ سے سمیع اﷲ ۔۔۔ سمیع اﷲ سے کلیم اﷲ
۔۔۔کلیم اﷲ سے سمیع اﷲ۔۔۔ کلیم اﷲ اورسمیع اﷲ کھیل رہے ہیں،باقی ساری ٹیم
چائے پی رہی ہے۔ عرض ہے کہ ملک وقوم کی بہتری کے لیے بھاگ دوڑکرتے تومیاں
برادران ہی نظرآتے ہیں باقی سب تو’’چائے‘‘ہی پی رہے ہیں۔ ’’مکھن مار‘‘قسم
کے کالم لکھنے کی ہمیں عادت نہیں لیکن جب چین کے صدربھی ہمارے وزیرِاعظم کی
خدمات کااعتراف کرتے ہوئے یہ کہیں کہ ’’آپ انتہائی تجربہ کارہیں ،آپ نے
حکومت سنبھالتے ہی اصطلاحات کاآغازکیا جو پاکستان کے لیے بہت ہی اہم ہیں‘‘
توپھرمانناہی پڑتاہے کہ یہ وزیرِاعظم صاحب کی انتھک کاوشوں کا ہی ثمرہے
جوآج چین کے ساتھ 46 ارب ڈالرزکے معاہدوں پر دستخط ہوئے ۔میاں شہبازشریف کی
انتھک محنت کااعتراف توپوری چینی قیادت کرتی ہے جبکہ دوسری طرف وزیرِاعلیٰ
خیبرپختونخوا دھرنوں میں مصروف رہے اوراب بھی اُنہیں کپتان صاحب کے احکامات
کی بجاآوری سے فرصت نہیں،محترم قائم علی شاہ اب عمرکے اُس حصّے میں ہیں کہ
اُن سے بھاگ دوڑکی توقع عبث ہے ،وہ صرف ’’اونگھ‘‘ہی لیں تو بہت ہے
اورانتہائی شریف النفس ڈاکٹرعبد المالک بھی تاحال کوئی کارنامہ سرانجام
نہیں دے سکے ۔الطاف بھائی نے یہ بھی فرمایاہے کہ محترمہ مریم نوازوہاں
کیاکر رہی تھیں ۔شاید الطاف بھائی کے علم میں نہ ہو کہ چین کے صدرِمحترم کے
ہمراہ چینی خاتونِ اوّل بھی پاکستان اِس خوبصورت اندازمیں تشریف لائیں کہ
اُنہوں نے پاکستانی جھنڈے کی مناسبت سے سبزاور سفیدرنگ کالباس پہن رکھاتھا
جوبلاشبہ اُن کی پاکستان سے محبت کابیّن ثبوت تھا۔ وزیرِاعظم صاحب کی اہلیہ
محترمہ بیگم کلثوم نوازاور بیٹی مریم نوازاُسی چینی خاتونِ اوّل کے استقبال
کے لیے موجودتھیں ۔کہے دیتے ہیں کہ تنقیدبرائے تنقیدسے ’’کَکھ‘‘ حاصل نہیں
ہوتاالبتہ شرمندگی ضرور۔ |
|